English   /   Kannada   /   Nawayathi

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے

share with us

حفیظ نعمانی


2019ء کا الیکشن ابھی دور ہے اس کے بارے میں سب سے زیادہ فکر وزیراعظم نریندر مودی اور امت شاہ کو ہے اس لئے کہ ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ امت شاہ نے گلے میں بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ڈھول ڈال لیا ہے بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ کے جواب میں ہندوستان کے وزیر داخلہ نے صاف صاف کہا ہے کہ ہم صرف دیکھ رہے ہیں کسی کو نکال کر آپ کے ملک میں بھیجنے کا کوئی سوال نہیں۔ بنگلہ دیشی مسلمانوں کا مسئلہ یا دو دشمن ملکوں کا نہیں ہے بلکہ ان دوستوں کا ہے کیونکہ مشرقی پاکستان کو کاٹ کر بنگلہ دیش ہندوستان نے اس لئے بنایا تھا کہ پاکستان کی طرف سے اگر کوئی شرارت ہو تو ہندوستان کو توجہ دو طرف نہ لگانا پڑے۔ یہ کام اندرا گاندھی نے کیا تھا اور آج جن کی کھڑاؤں سر پر رکھے امت شاہ گھوم رہے ہیں انہوں نے اس کارنامہ پر اندرا گاندھی کو دُرگادیوی کا خطاب دیا تھا اب اگر امت شاہ بھی چاہیں کہ بنگلہ دیش سے بگاڑلیں تو ہندوستانی قوم ان کو یہ غلطی نہیں کرنے دے گی۔
اس وقت مسلمانوں کو صاف صاف کہنا چاہئے کہ بنگلہ دیشیوں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں وہ بنگلہ دیش اور ہندوستان کا مسئلہ ہے۔ آخر دس لاکھ سے زیادہ مسلمان برما سے نکال دیئے گئے ان میں سے زیادہ تر بنگلہ دیش میں ہیں اور کچھ ہمارے ملک میں بھی ہیں۔ تو ہم نے انہیں مسئلہ کیوں نہیں بنایا؟ امت شاہ بھاگنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اسے ہندو مسلم مسئلہ بنادیں اور یہ دکھادیں کہ انہوں نے 40 لاکھ مسلمانوں کو پریشان کردیا اس لئے انہیں ووٹ دے دو۔ جبکہ ملک کا ہر آدمی پریشان ہے کہ اتنے برے دن اس نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھے تھے۔ سب سے اہم مسئلہ مہنگائی کا ہے۔ 2014 ء کے مقابلہ میں ہر چیز دوگنی ہوگئی ہے اور روپیہ ڈالر کے مقابلہ میں کوڑی ہوتا جارہا ہے۔ حکومت کے پاس صرف باتیں ہیں وہ کبھی وجے مالیہ کو گرفتار کرکے لانے کا وعدہ کرتے ہیں اور کبھی چھوٹے مودی کو ان کی کوشش ہے کہ ہندو اور مسلمان آپس کے مسئلوں میں اُلجھے رہیں ہماری ہر محاذ کی ناکامی کا ہم سے حساب نہ لیں۔ اور ایسے میں یا تو اُن کے ایجنٹ یہ کام کریں گے یا ان کی پارٹی کے آدمی جو کہتے ہیں کہ جو کام کانگریس نے 60 سال میں نہیں کیا وہ ہم نے 4 سال میں کردیا اور عوام یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کانگریس نے 60 سال میں ملک کو اتنا برباد نہیں کیا جتنا انہوں نے چار سال میں کردیا۔
حیرت ہوئی کہ مولوی احمد بخاری نے جامع مسجد دہلی میں پھر دانشوروں کو بلایا کئی برس پہلے بھی انہوں نے 200 عالموں اور دانشوروں کو ایسے ہی بلایا تھا اور آسمان اور زمین کی باتیں کی تھیں۔ اس جلسہ میں مولانا ارشد میاں مدنی بھی تھے انہوں نے ایک جملہ کہا تھا کہ آپ اپنے ماضی پر بھی نظر ڈال کر بات کریں اور ان کی بولتی بند ہوگئی تھی۔ اس بار بھی انہوں نے سو سواسو کو بلایا ہوگا جن میں خبر کے مطابق اتل کمار انجان، الیاس ملک ایڈوکیٹ، زیڈ کے فیضان ہی باہر کے تھے وہ اس لئے گئے کہ شاید جانتے نہ ہوں۔
امام صاحب نے سب سے پہلے وہی مسئلہ اٹھایا جو اُن سے شاید امت شاہ اٹھوانا چاہتے ہوں گے۔ امام صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر الیکشن میں آواز دے کر دیکھتے ہیں کہ موٹی بوری کون دے گا؟ مولانا ارشد مدنی نے جو کہا تھا ان کا اشارہ 2004 ء کے الیکشن کی طرف تھا جب اٹل جی سے سودا کرکے مولانا نے اپیل کی اور دہلی کے بازار میں چھوٹے پردے کی اپنے وقت کی سب سے خوبصورت ہیروئن اور بی جے پی کی اُمیدوار جو کپل سبل کے مقابلہ پر لڑرہی تھیں اسمرتی ایرانی کے قدم بہ قدم گھوم کر ان کو ووٹ دینے کی اپیل کررہے تھے۔ 2012 ء میں انہوں نے ملائم سنگھ سے معاملہ کرلیا اور حمایت کے لئے جو بھی لیا ہو ایک ٹکٹ بھی اپنے داماد کے لئے لیا اور وہ سہارن پور سے بھی کامیاب نہ ہوسکا تو ملائم سنگھ کے گلے پڑگئے کہ اسے کاؤنسل کا ممبر بناؤ باخبر حضرات کو یاد ہوگا کہ دہلی میں کارپوریشن کا الیکشن ہورہا تھا اور امام جامع مسجد لکھنؤ میں ڈیرہ ڈالے پڑے تھے کہ میرے داماد کو کاؤنسل میں لے لو جبکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ہارنے کے بعد صرف ان کو لیا جاتا ہے جن کو وزیر بنانا ہوتا ہے اور وہ اپنے فن میں سب سے زیادہ ماہر ہوتے ہیں جیسے ڈاکٹر منموہن سنگھ یا اٹل جی نے جسونت سنگھ کو لیا تھا یا خصوصی تعلق ہو اور کسی فرقہ کی نمائندگی ہو ورنہ جو بھی ہارتا ہے وہ کاؤنسل میں آنا چاہتا ہے۔ امام صاحب کو اصرار تھا کہ 2017 ء میں سیٹیں میری وجہ سے آئیں اور ملائم سنگھ کہتے تھے کہ آپ اپنے داماد کو نہ جتا سکے تو پورے صوبہ میں کیا جتائیں گے؟ اور آخر کار اس شریف ملائم سنگھ نے ان کی بات مان لی لیکن امام صاحب کی فطرت وہی رہی اور داماد کے ایم ایل سی ہوتے ہوئے 2017 ء میں مایاوتی کو لکھنؤ آکر ووٹ دینے کی اپیل کردی اور وہ لے کر چلے گئے۔ اب ان باتوں کی وجہ سے عزت سادات خاک میں مل گئی ہے۔ اب انہیں بلاتا تو کوئی ہے نہیں وہ خط بھیج دیتے ہیں۔
اتل کمار انجان بہت صاف دل کے لیڈر ہیں انہوں نے جو کہا کہ اگر دوبارہ مودی آگئے تو آئین بدل دیں گے وہ تو مانی ہوئی بات ہے ہم سمجھتے ہیں کہ پورے ملک کی دولت چند گھرانوں میں چلی جائے گی اور روپئے کی قیمت نیپال سے زیادہ گرجائے گی بات صرف آئین کی نہیں ملک کو بھی بچانا ہے ملک دیکھ رہا ہے کہ کانگریس نے 60 برس حکومت کی اور آج بھی اس کے پاس شاندار دفتر نہیں ہے مودی جی نے چار سال میں ہزاروں کروڑ صرف اپنے آفس پر خرچ کردیا اور دہلی میں ایسی عمارت بنوائی جسے لال قلعہ کی طرح لوگ دیکھنے آنے لگے ہیں۔ یہ وہی مودی جی ہیں جو کانگریس پر الزام لگاتے تھے کہ اس کا 80 لاکھ کروڑ کالا دھن دنیا کے بینکوں میں رکھا ہے لیکن وہ 100 دن میں 100 روپئے نہ لاسکے۔
گذارش کا حاصل یہ ہے کہ امام صاحب مولوی احمد بخاری اتنے نازک اور حساس وقت میں اپنے کو قابو میں رکھیں جو لوگ اپنی حلال کی کمائی خرچ کرکے ملک کو مودی اور شاہ سے بچانا چاہ رہے ہیں ان کو کام کرنے دیں خود نماز پڑھانے کی تنخواہ پاتے ہیں بس نماز پڑھاتے رہیں۔ ہر جمعہ کو جو وہ منبر کو سیاست سے گندہ کرتے ہیں اس کے بجائے اگر یاد ہوں تو دین کی باتیں بتائیں اور اس دن سے ڈریں جبکہ دہلی کے وہ لوگ جو اُن کی ہر بات سے واقف ہیں وہ ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کردیں یہ مذاق کا اور دلالی کا وقت نہیں ہے 20 کروڑ مسلمانوں کی زندگی اور عزت کا سوال ہے۔ اس کے لئے سنجیدہ اور دردمند لوگوں کو مسئلہ حل کرنے دیں۔ یہی بات ہم ہر مسلک کے عالم سے کہیں گے کہ مسلکی اختلاف پر بات ہوتی رہے گی اس وقت صرف ایک بات کا خیال رکھیں کہ جو مسلمان کا ووٹ مسلمان کو دینے کی بات کریں انہیں منھ نہ لگائیں ممتا بنرجی، اکھلیش یادو، سیتا رام یچوری اور راہل گاندھی کو سنیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور ان کے ساتھ چلیں اسی میں خیر ہے۔

(مضمون نگار کی رائے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

09اگست2018ادارہ فکروخبر

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا