English   /   Kannada   /   Nawayathi

مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے یہ آزادی

share with us


محمد شاہنواز ندوی 


بلا شبہ انسان اپنے سماج و معاشرہ میں اخلاق کریمانہ کی وجہ سے نمایاں حیثیت اور مقام حاصل کرتا ہے۔ شرافت کی بنیاد پر ترقی کے منازل طے کرتا ہے۔ یہی وہ شخص ہے جواپنے آپ کواخلاقیات کے پاکیزہ حلقہ سے زندگی کو جکڑ دیتا ہے۔ جہاں سے کوئی نامناسب اقدام کرنے کی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ اس کا ہر ایک قدم سچائی اور اچھائی کے لئے اٹھتا ہے۔ایسا شخص درحقیقت شرافت کی چادر اوڑھ لیتاہے، جس کو بار بار یہ بات ستاتی رہتی ہے کہ یہ پاکیزہ چادر کبھی تار تار نہ ہوپائے۔ ہر آن و ہر لحظہ برائی اور منکرات سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتاہے۔ ذہن و دماغ میں کوئی ایسی ترکیب اور تدبیر نہیں آتی جس کی وجہ سے فحاشیت کا سر اونچا ہوسکے۔ایسا شخص کسی بھی خاندان،قبیلہ،جماعت اور مذہب میں ہوسکتا ہے۔ جس نے بھی اخلاقی اقدار کی قدر کی ہے اس کی نیک نامی ہوئی ہے۔دنیا نے اسے قدر کی نگاہ سے دیکھی ہے۔سماج نے اسے عزت و شرف کی بلندی پر فائز کیا ہے۔ چھوٹے،بڑے،مرد و عورت پیر و جوان سبھوں نے ملکر ان کی تکریم وتعظیم کی ہے اور یہی کیفیت ہمیشہ کے لئے جاری رہے گی۔ 

 

ہم میں سے ہر کوئی روزانہ بے شمار لوگوں کے ساتھ لین دین،خرید و فروخت اور دیگر معاملات انجام دیتے ہیں۔ اپنے گھر سے دفتر یا بازار کے لئے نکلتے ہیں تو بے شمار لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کی خیریت لی جاتی ہے۔ انسانی آبادی میں سبھی کے لئے دوست و احباب کا ذاتی حلقہ ہوتا ہے۔ سب کے سب اسی حلقے سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلے اپنے گھر کے لوگ پھر قریبی رشتہ دار، دوست احباب اور اپنے ساتھ کام کرنے والے دیگر احباب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو موقع بہ موقع لوگوں سے ملاقات وغیرہ ہوتے رہنے سے آپس میں شناشائی ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ کسی خاص موقع کا حصہ تو نہیں بنتے ہیں مگر دوران سفر یا بازار وغیرہ میں نظر آ جانے سے خبرو خیرت ضرور لی جاتی ہے۔ اس حلقہ میں اسکول کے ساتھی،بازار کے دکاندار، علمی مجلسوں میں بار بار شریک ہونے والے یا پھر کسی سیاسی حلقہ سے وابستہ احباب گرامی ہو تے ہیں۔ یہ حلقہ مزید بڑا ہوتا رہتا ہے خاص طور سے اس وقت جب انسان اخلاق کریمانہ اور اوصاف حمیدہ کا مالک ہوتو ان کے چاہنے والوں کی کوئی تعداد نہیں ہوتی ہے۔
پوری دنیا میں اخلاق کریمانہ کی بلندی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرا کون فائز ہوسکتا ہے؟ جن کے بارے میں دنیا کی سب سے سچی کتاب نے معجزانہ طور پر گواہی دی ہے کہ '' انک لعلی خلق عظیم '' آپ تو مکارم اخلاق کے سب سے نمایاں بلندی پر فائز ہیں۔ جن کی تفسیر میں امہات المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ '' کان خلقہ القرآن ''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار اور عادت و اطوار کا مشاہدہ کرنا ہے تو قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے۔ اسی طرح خود پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا۔ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔ بلاشبہ میں اخلاق کریمانہ کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہو ں۔ اخلاق کریمانہ کا کونسا ایسا پہلو ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں موجود نہیں ہے؟۔ آپ کی پوری زندگی اخلاق کریمانہ اور اوصاف حمیدہ کی واضح مثال ہے۔ امانت و دیانت داری،حیا و پاکدامنی،سچائی و راست بازی،ایفائے عہد جیسے تمام محاسن میں دنیا کا کون شخص آپکا مقابلہ کر سکتا ہے۔ جن کی عظمت کے بارے میں لاکھوں قلم کاروں نے اربوں صفحات کو سیاہ کئے ہیں۔ اپنے تواپنے اغیار نے بھی آپ کی صداقت و راستی کا کھل کر اعلان کیا ہے۔ آخر کیا بات تھی کہ آپ کی جدائی کا رونا مسجد نبوی میں کھجور کا تنا رو رہا تھا، جنگلات کے جانور درختوں کے پرندے اور پہاڑی کے کنکر سبھی آپ کو عقیدت سے سلام کرتے تھے۔ 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ ''میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے آیا ہوں ''جس کا آپ نے عملی نمونہ پیش کر کے دکھا یا۔ یہ بات پوری دنیا کے لوگوں کو پیغام دیتی ہے کہ دنیا میں چاہے کتنی ہی شہرت اور بلندی حاصل کرلی جائے، تہذیب وتمدن کی اعلی سے اعلی مثالیں قائم کر لی جائیں۔دولت و ثروت کی ذخیرہ اندوزی کر لی جائے، سائنس و ٹکنالوجی اپنی انتہا کو پہنچ جائے، اگر لوگ اخلاق کریمانہ اور اوصاف حمیدہ کے زیور سے آراستہ نہ ہوں تو حددرجہ سہولیات زندگی کے باجود زندگی لمحہ لمحہ سکون و چین کے لئے ترسے گی، کروٹ کروٹ اطمینان کے لئے بے چین رہے گی۔جس کی تازہ ترین مثالیں اربوں کھربوں روپیہ کے مالکوں کے گھروں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جہاں سکون قلب کی حصول یابی کا احساس تو ہے لیکن یہ چیز کیسے ملے گی اس سے نابلد ہیں۔ان کے یہاں سکون قلب کا مطلب ہی خواہشات نفسانی کی تکمیل ہے۔ لیکن سکون دل کی بجائے بے چینی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ جس کی تسکین کے لئے عزت و آبرو حیا اور پاکدامنی سب کچھ داو پر لگا دیا جاتا ہے۔ 
آج کی تاریخ میں مشرقی تہذیب کے علمبردار جنہیں اپنی تہذیب و تمدن پر ناز تھا، وہ خود مغربی تہذیب کے دل دادہ ہو چکے ہیں۔ ساتھ ہی اسلامی تہذیب کے پیروکار بھی مال و دولت کے نشہ میں اپنی شناخت فراموش کرتے جارہے ہیں۔ اس وقت ایشائی ممالک میں بسنے والے لوگوں میں یورپین تہذیب و کلچر کی بہت بری لت لگ چکی ہے۔ جس کی تقلید میں اپنے گھر کے سکون و چین کو ختم کر رہے ہیں۔ گھروں سے حیاو پاکدامنی کو ختم کر رہے ہیں۔ بچیوں کو ایسی تعلیم گاہوں میں بھیج رہے ہیں جہاں تعلیم کی شکل میں بے حیائی کا سبق دیا جارہا ہے۔ مغربی افکار و تصوارات کا زہر پلایا جارہا ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کو فرسودہ اور دقیا نوسی قرار دیا جارہا ہے۔ جہاں دن و رات روشن خیالی اور آزاد ی رای کے نام پر حیاسوزی کی تعلیم کی دی جاتی ہے۔ جس بات پر والدین کو بھی فحز ہوتا ہے کہ ہمارے بچے اور بچیاں دنیا کی سب سے زیادہ مہذب قوم امریکا اور یورپ کے شانہ بشانہ چل نے کی ابھی سے کوشش کررہے ہیں۔ لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ یہ نوخیز اور نو نہال بچے سرمایہ اسلام کے اصل وارثین ہیں انہیں اس سے محروم کیا جارہا ہے۔ 
گھروں کا حال یہ ہے صبح و شام ٹیلیویزن پر غیر اسلامی تہذیب پر مبنی سیریل اور پروگرام چلائے جارہے ہیں۔ جنہیں والدین اور بچے ایک ساتھ مل بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ظاہر ہے ان پروگراموں کے لکھنے والے اسلامی تہذیب و ثقافت سے یا تو نا آشنا ہیں یا پھر اس کے مخالفین ہیں۔ جو انسانیت،اخلاقیت اور سماجیت کی تعلیم کی آڑ میں انتہائی چالاکی سے ان کے ذہن و دماغ میں بے حیائی کی بیج بو ڈالتے ہیں۔ بلکہ کہیں کہیں تو بر ملا طور پر فلسفیانہ انداز میں تعلیمات اسلام کی مخافت کرتے نظر آرہے ہیں۔ جو بظاہر دیکھنے اور سننے میں اچھے لگتے ہیں لیکن انجام کے اعتبار سے بہت ہی سنگین ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں نونہالوں کا ذہن جو ابھی کورے کاغذ کی مانند ہے اس پرکتنا پرا اثر پڑے گا۔ اس لئے کہ اس پر جس طرح کی باتیں لکھی جائیں گی اسی کے مطابق بچے اپنی زندگی کی شروعات کریں گے۔ بسا اوقات غیر اسلامی اداروں میں بچوں کی تعلیم و تربیت اتنی مہنگی پڑ جاتی ہے کہ انہیں اسلام کی حقانیت سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ خاص طور سے عیسائی مشنریوں میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ 
اخلاقی اقدار کی پامالی اس طرح بھی ہوتی ہے کہ والدین بچیوں کے سلسلہ میں غیر ذمہ دار ثابت ہوتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ خود بھی اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ڈھالتے ہیں، فرائض اسلام سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ نماز و اذکار اور تلاوت سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے ہیں۔ جس کا اثر بچوں پہ بھی کافی پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ جب گھر کے بچے اپنے والدین کو غیر اسلامی زندگی گزارتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی پیروی کرتے ہوئے وہ بھی اسی طرزپر چل پڑتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچیاں جدید تہذیب کے مطابق کپڑے زیب تن کرتی ہیں، اپنے اسکول کے ساتھی اور سہیلیوں سے حد درجہ انسیت رکھتی ہیں، ان کے ساتھ جہاں من چاہے سیر و تفریح پر نکلتے ہیں۔ والدین اس بات پر خوش رہتے ہیں کہ ہماری بچیاں تو سمجھ دار ہیں، تعلیم یافتہ ہیں اور اس طرح چلنے سے وہ ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں۔ لیکن جب اس آزاد خیالی کے سنگیں نتائج سامنے آتے ہیں تو اس وقت کف افسوس ملتے رہتے ہیں۔ 
والدین کی بے راہ روی اور دین بیزاری کی وجہ مسلم گھرانے میں مغربیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ دین اسلام کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ مرد و زن کا اختلاط کوئی بری بات نہیں ہے۔ شادی و بیاہ کے موقع ہر جس طرح کی حیا سوز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں محسوس یہ ہوتا ہے کہ انہیں خاتون جنت حضرت فاطہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کچھ بھی معلومات نہیں ہیں۔ صبح اور شام کے معمولات میں اسلامی طرز عمل کی ذرہ برابر جھلکیاں نظر نہیں آتی ہیں۔ نہ تو بات چیت میں ادب کا پہلو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے اور نہ ہی رہن سہن میں حجاب و نقاب کا خیال رکھا جاتا ہے۔ نیم عریاں کپڑوں میں گھر کی عزتیں برہنہ نظر آتی ہیں۔ گویا خواہش نفسانی کے دروازے چوپٹ کھول دیے جاتے ہیں۔ اہل خانہ میں سے ہر کوئی اپنے من کا مالک ہوتا ہے، کوئی کسی بات پر راضی نہیں ہوتا،اپنی طبیعت اور مزاج کے مطابق سبھی امور کو انجام دیا جاتا ہے۔ یہاں ذمہ داری نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان گھروں میں ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی،رحم دلی اور ایثار و قربانی کا جذبہ بالکل ختم ہوجاتا ہے۔ 
اخلاق کریمانہ سے انسانیت کی معراج ہوتی ہے۔ جسے ہر فرد بشر کو اختیار کرنا چاہئے، اس سے برائی کے دروازے پر بندش لگتی ہے۔ سماج میں ایسے لوگوں کے پائے جانے سے پورا کا پورا سماج تعمیر و ترقی کی طرف گامزن رہتا ہے۔ لوٹ کھسوٹ، چوری ڈاکہ زنی، زنا کاری و شراب نوشی جیسی تمام برائیوں پر قدغن لگانا آسان ہوتا ہے۔ انسان اپنے آپ میں عزت نفس محسوس کرتا ہے۔ جس کے پاس اخلاق کریمانہ کی دولت نہیں ہے وہ قارون جیسی دولت کا بھی مالک بن جائے پھر بھی اسے سکون دل حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔ وہ شراب کی جام پہ جام چڑھا کر مدہوشی کے عالم میں راتیں بسر کرسکتا ہے لیکن فطر ی نیند کا لطف کبھی بھی نہیں لے سکتا ہے۔ بلکہ ایسے لوگ بہت ہی جلد مہلک امرا ض کے شکار ہوجاتے ہیں، جس کے پاداش میں کوئی زندگی بھر کے لئے نمک کھانے سے محروم ہوجاتا ہے کوئی چینی سے دائمی طور پر پرہیز کر بیٹھتا ہے۔ یہ سب اسی لئے کہ انہوں نے شریعت مطہرہ کے مطابق حلال و حرام میں تمیز پیدا کرتے ہوئے زندگی نہیں گزاری تھی۔ 
انسان کی ایک دو سرے سے ملاقات میں بہت ساری باتیں سامنے آتی ہیں، لیکن اس کے چلے جانے کے بعد بس ایک ہی بات یاد رہتی ہے کہ فلاں شخص بہت ہی نیک اور شریف النفس تھا۔ اسی طرح انسان کے اس دنیا چلے جانے کے بعد بھی اس کے محاسن اور خوبیاں ہی باقی رہ جاتی ہیں۔ جن کے بارے میں لوگ اکثر چرچا کرتے رہتے ہیں۔ قلم کار اپنے قلم کے ذریعہ شریف الفس اور اخلاق مند لوگوں کی زندگی بطور مثال پیش کرتے رہتے ہیں۔ خطباء حضرات اپنی خطبات اور تقاریر میں گاہے بگاہے ایسے لوگوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں جتنی بھی عظیم ہستیاں پیدا ہوئی ہیں ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی لوگ ان کی تعلیمات اور حسن اخلاق کو یاد کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو ان کی طرح بننے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس لئے انہیں بھی یہ بات معلوم ہے کہ دنیا میں اخلاق کریمانہ ہی سب سے بڑی دولت ہے۔ 


(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
04؍اگست2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا