English   /   Kannada   /   Nawayathi

عبد اللہ دامودی اور ہم

share with us

بقلم:  سید ہاشم نظام ندوی (فكر وخبر بھٹكل)

                                   زندگی جن كی گزرتی ہے اجالوں كی طرح      یاد ركھتے ہیں انھیں لوگ مثالوں كی طرح

۱۹/ ذو القعدہ سنہ ہجری ۱۴۳۹،مطابق یكم اگست سنہ عیسوی۲۰۱۸ بروز بدھ كا آفتاب جب مائل بہ زوال تھا،تو سر زمینِ بھٹكل كے آسمان پر چمكنے والی بے شمار كہكشاؤں میں سے ایك كہكشاں غروب ہو رہی تھی، یعنی ہمارے بڑوں میں ایك ہم سے  رخصت ہوا،اور ہمارے دلوں كو ملول كر گیا۔ وہ چلا گیا جو خانوادۂ دامودی كا چشم و چراغ تھا، خاندانی انتساب جن كے نام كا لاحقہ بن چكا تھا، جس كے بغیر وہ بلائے جاتے نہ پہچانے جاتے تھے،یعنی عبد اللہ دامودی اپنی حیاتِ مستعار كی اسی بہاریں گزار كر اپنے  خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ إنا  لله وإنا إليه راجعون۔ان كے انتقال پر مجھے اپنے بہنوئی محسنِ قوم مولانا عبد الباری رحمۃ اللہ علیہ بہت یاد آئے،  ابنے جذبات پر قابو نہیں پا سكا، دل كی بے قراری كے ساتھ ساتھ آنكھیں بھی نم ہو گئیں،اس لیے كہ آپ كا انتقال بھی اسی بیماری میں اور بروز بدھ ہی ہوا تھا، انہوں نے بھی آخری چند ایام  اسی مرض كی شدت میں گزارے تھے۔ اللهم اغفرلهما وارحمهما۔

آج قوم كا ایك مخلص خادم رخصت ہو گیا، آپ نے سماجی، تعلیمی، ثقافتی، اور سیاسی میدانوں میں بھی اپنے كاموں كا نقش چھوڑا۔ آپ كی خدمات كا دائرہ قومی متحدہ ادارہ مجلسِ اصلاح وتنظیم سے خصوصی تھا، اس كے صد سالہ جشن كو كامیابی سے ہمكنار كرایا، اپنے مادرِ علمی انجمن حامئ مسلمین كے بھی ركن ركین رہے، اس كے كلیدی عہدوں پر فائز رہے، سنہ 1971كی انجمن گولڈن جوبلی  ہو یا اس كے بعد سنہ 2007 كی سلور جوبلی یعنی دونوں میں اپنی خدمات انجام دی۔ ادارہ تربیت اخوان میں رہ كر شمس اسلامك انگلش میڈیم اسكول میں كام كرنا ہو، یا جماعت المسلمین سے وابستگی ہو، نوائط محفل كے لیے فكر مند رہنا ہو یا كسی بھی سماجی كام كا ساتھ دینا ہو بہر كیف جہاں بھی رہے، مخلص بن كر رہے، نہ ستائش كی تمنا  كی نہ صلہ كی پرواہ۔ بھٹكل مسلم یوتھ فیڈریشن میں بھی آپ كی خدمات قابلِ قدر ہیں، فیڈرشن كے قیام كے شروع دور سے جی جان سے حصہ لیا، ابتدائی دور میں اسے پیش آئی مشكلات میں نوجوانوں كے شانہ بہ شانہ رہے، بعد  میں عمر كی بندش كی وجہ سے انتظامیہ میں شمولیت باقی نہ رہ سكی، البتہ  وقتا فوقتا كسی نہ كسی عنوان سے ان كے ساتھ جڑ كر نوجوانوں كومفید مشورے دیتے رہے۔

آپ نے جامعہ اسلامیہ سے بھی ربطِ خاص ركھا، اس كے ہر پروگرام میں حاضری كی كوشش كرتے، خصوصا اس میں منعقد ہونے والی ادبی نشستوں اور ثقافتی محفلوں میں شركت كا اہتمام كرتے، جامعہ كے پچاس سالہ تعلیمی كنونشن میں بھٹكل كی تہذیب وثقافت اور قومی اثاثہ كو یكجا كر كے جس حسین انداز میں بھٹكل كی معاشرتی اور ثقافتی زندگی كو پیش كیا تھا اور ماضی كی حسین یادوں كو منقش كر كے دكھانے كی كوشش كی تھی، اس كا تعلق تو دیكھنے ہی سے ہے، اور جنہوں نے دیكھا  ہوگا وہ بھی اسے الفاظ میں بیان كرنے سے عاجز رہے ہوں گے۔ اسی طرح سالِ رواں مفكر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن  ندوی كے نام اور آپ كی حیات و خدمات پر منعقد ہونے والے عالمی سمنار میں، جس كی پہلی نشست پیامَِ انسانیت كے نام پر ركھی گئی تھی، كامیابیوں سے ہمكنار كرانے میں اوربرادرانِ وطن كو دعوت دینے میں جناب عنایت اللہ صاحب شاہ بندری كے ساتھ آپ كا بھی حصہ رہا ہے، اسی اجلاس میں اپنے قلمِ گرہر بار سے نكلی ہوئی تحریر سنائی، مل جل كر رہنے كا پیغام دیا، پیار و محبت كا سبق سنایا۔ باقی رہا  جناب شاہ بندری جیلانی صاحب كے ساتھ مل كر آپ كا قائم كردہ تعلیمی ادارہ تو اس كے تذكرہ بغیر كسی مضمون نگار كا مضمون مكمل ہو سكتا ہے نہ كوئی سوانحی تحریر پوری ہو سكتی ہے۔ وہ آپ كی زندگی كا مسك الختام یا ختامہ مسك كے مرادف ہے۔

كوئی محفل ہو كہ مجلس اسے ہر آنكھ دھونڈے گی:

یوں تو عبد الله دامودی  کی شہرت ایک كامیاب  ناظمِ اجلاس  کی حیثیت سے زیادہ تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نظامت ان کی شخصیت کے بہت سے پہلووں میں سے ایک پہلوتھا۔ آپ کثیر جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اچھے ادیب تھے،خوبصورت نثر نگار تھے، ایک خوش مزاج، ملنسار، فكر مند سماجی كاركن ہونے كے ساتھ ساتھ بڑے دین دار  اوربہت اچھے انسان تھے۔ البتہ  آپ كے حسنِ گفتار، شگفتہ بیانی اور لفظوں كی گلكاری اور شعر وشعری كی مناسبت  كی وجہ سے نظامت کا فن ان کی شخصیت کے تمام پہلووں پر حاوی ہو گیا تھا۔ ہر قسم کے اجلاس اورمشاعروں، چھوٹی بڑی محفلوں کو کامیابی کے ساتھ منزل تک پہنچانے کا ہنر جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جہاں عوام میں بے انتہا مقبول تھے وہیں خواص میں بھی انھیں بڑی  مقبولیت حاصل تھی۔

ایك وقت تھا كہ جب مجلس اصلاح وتنظیم كی طرف سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سالانہ عظیم الشان اور تاریخ ساز جلسوں كا انعقاد كیا جاتا تھا، جس كے لیے پورے سال كا انتظار كرنا ہوتا، اس وقت چیدہ اور چنیدہ علمائے كرام اور شہرہ آفاق مقررین كو مدعو كیا جاتا تھا، ایك سلسلہ تھا جو كامیاب تھا اور كار آمد بھی، اعلی شخصیت سے موسوم تھا اور مفید تر بھی، ہم طلبہ جامعہ اسلامیہ بڑے شوق وذوق سے شریك ہوتے، اسی میں كبھی طلبہ كے ما بین تقریری مقابلے بھی ركھے جاتے، انجمن اور جامعہ كے نام بالخصوص آویزاں رہتے، مشقِ سخن كا موقع بھی ملتا۔ اسی مناسبت سے جس سال مخدومِ گرامی حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی كو دعوت دی گئی،  پہلا پروگرام احاطہ مسجدِ سلطانی میں ركھا گیاتھا،خطیب العصر كے اسٹیج پر نظامت كے فرائض عبد اللہ دامودی نے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں انجام  دئے تھے، مولانا نے دنیا داروں اور دولت بٹیرنے  والوں كو خزف ریزوں سے تعبیر فرمایا تھا،  وہ منظر آج بھی نگاہوں كے سامنے ہے، تقریر تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ تك چلی، تقریر كے اختتام پر ناظمِ جلاس نے مقرر سے اپنے بلیغانہ انداز اور حكیمانہ اسلوب میں ان جملوں كی وضاحت طلب فرمائی، جس پر مخدومِ گرامی  نے فرمایا كہ اس كے لیے مستقل ایك اجلاس دركار ہے، لہذا دوسرے روز خلیفہ جامع مسجد كے احاطہ میں پروگرام طے تھا، آپ نے اس كا موضوع ہی عبد اللہ دامودی كے اس سوال كو ركھا، اور قرآنی اور حدیثی دلائل كے ساتھ تعلیمی تقسیمِ كار كے علاوہ دنیا كی حقیقت كو آشكار فرمایا۔

کتب بینی کا بے حد  شوق تھا، جس كا آغاز انجمن ہی سے ہوا تھا، بچپن سے پڑھنے كے شوقین تھے،اگر بنیادی دینی معلومات، اور فقہی تعلیمات میں مولانا شریف محی الدین اکرمی رحمۃ اللہ علیہ جیسے قابل اساتذہ كی ِشاگردی پائی، تو زبان وقلم اور فكر وفن میں مولانا محمود خیال رحمہ اللہ جیسے فائق  اساتذہ  فن نصیب ہوئے۔ماہنامہ تجلی اور مولانا عامر عثمانی كی گل كاری نے ذہن و دماغ میں علمی اور ادبی ذوق بڑھایا، مولانا مودودی علیہ الرحمۃ اور تحریكِ جماعت اسلامی سے متاثر ہوئے تو میدانِ دعوت میں قدم ركھا، قرآنی تعلیمات  اور تفہیمات سے ایمانی روح كو بالیدگی بخشی ۔ جس كا نتیجہ تھا كہ  ۱۹۶۹ء میں ادارہ تربیت ِاخوان كے قیام میں ركن اساسی كی حیثیت سے شریك رہے۔

 نئی نئی ادبی كتابوں اور شعری مجموعوں كے بارے میں پوچھتے،اور یہ شوق اس قدر بڑھا ہوا تھا كہ كبھی پورا پورا دن اسی كی نذر کر دیاکرتے تھے۔ایك دور تھا كہ كتابوں كی دكان  الحجاز ایجنسی تشنگانِ علم وادب كا مركز ہوا كرتی تھی، نئی نئی مطبوعات اور ادبی نشریات  وہیں سے حاصل ہوتی تھیں، اس كے مالك  جناب قادر میراں صاحب پٹیل كی ہم سب پر كافی عنایات ہیں كہ كتابیں ادھار بھی دیتے اور اپنے ذوق كی تسكین اور شوق كی تكمیل فرماتے۔جس كی ایك طویل داستان ہے، ان شاء اللہ كسی اورمناسبت سے تاریخ كے اس زرین كتب خانہ پر خامہ فرسائی كی كوشش كی جائے گی۔

آپ میں قائدانہ صفات اور انتظامی صلاحیت بھی بھرپور تھی جس كا اندازہ لگانے كے لیے صرف   یہ شہادت كافی ہے كہ تنظیم نے اپنے صد سالہ جشن كے تایخی اجلاس كے كنوینر شب كی ذمہ داری آپ كو سونپی، جسے آپ نے شبانہ روز محنت و كوشش اور باہمی كاوش سے كامیابیوں سے ہمكنار كیا۔

ہمارے ساتھ عبد اللہ دامودی كی  سنہری یادیں اور باتیں ایک دوسرے سے جڑی  ہوئی ہیں، سچی بات تو یہ ہے كہ ہماری ان كے ساتھ یادوں كے نقوش  ایك مضمون كا نہیں بلكہ مستقل كتاب كا متقاضی ہے۔ راقم الحروف كو آپ سے تعلق بچپن ہی سے رہا، نانہالی رشتہ سے آپ بہت قریب تھے، كسی نہ كسی حیثیت سے آنا جانا رہتا، نانا مرحوم جناب عبد القادر باشاہ صاحب دامدا سے ملتے جلتے اور ان سے مستفید ہوتے دیكھا، ملی اور قومی مسائل میں تبادلہ خیال كرتے پایا،  ہمارا جامعہ اسلامیہ میں تعلیمی زمانہ اور آپ كا سعودی عربیہ سے  بھٹكل تشریف لے آنے كا وقت تقریبا ایك ہے،اسی لیے ہم نے انھیں بارہا  جامعہ میں آتے جاتے دیكھا  ہے، اس كے بعد جب آپ نے بھٹكل میں مستقل سكونت اختیار فرمائی تو ہمارے تعلقات كی حقیقی داستان شروع ہو گئی اور دن بدن  روابط بڑھتے گئے،اپنے دوست مولوی نعمان اكرمی كے ساتھ ان كی ملاقات  ایك بار نہیں باربار ہوئی، اور آپ كے گھر بھی آنا جانا رہا، آپ كے پاس كیسٹوں كا اچھا خاصہ ذخیرہ تھا، جس میں نوع بہ نوع مواد موجود تھا، شعر وشاعری سے لے كر تقریروں اور عالمِ اسلام كے مشہور و معروف قراء كی آواز میں قابلِ ذكر انتخاب تھا، ہم آپ سے عاریت میں لیتے، گھر لا كر اس سے استفادہ كرتے۔

            اساتذہ جامعہ اسلامیہ كے علاوہ جن احباب سے ہم نے  كسبِ فیض كیا ہے، ان میں سرِ فہرست  شاعرِ اسلام ڈاكٹر محمد حسین صاحب فطرت  ہیں،پھر  جناب محمدقادر  میراں صاحب پٹیل، مائی بك دكان كے اجمل بھائی اور مرحوم عبد اللہ دامودی كے نام  اس لیے قابلِ ذكر ہیں كہ انھوں نے غیر درسی كتابوں كے مطالعہ كی صحیح فكری اور نظریاتی رہنمائی كی، اسلامی ادبیات اور اخلاقیات كے مطالعہ پر زور دے كر عالمی تحریكات سے متعارف كرایا۔ اسی لیے ندوۃ العلماء سے فراغت كے بعد آپ یہ چاہتے تھے كہ ہمیں ساتھ لے كر تحریك كی ادبی كوششوں میں كام كریں، جس كے لیے آپ نے گھر آكر والدِ ماجد كے ساتھ بات بھی كی جوكار گر نہیں ہو سكی۔ اور جب متحدہ عرب امارات چلا آیا تو سال دو سال تك اپنی ناراضگی كا اظہار پیرایہ محبت میں كرتے رہے۔ آپ كا دبی كئی بار آنا ہوا، ہر بار خصوصی ملاقاتیں رہیں، اپنے گھر بھی تشریف لائے، بے تكلفانہ مجلسیں رہیں، اور حسنِ اتفاق سے مادر حواء كے عربی لٹریچر اور تعارف نامے كو تیار كرنے كی ذمہ داری بھی اپنے حسنِ ظن كی بنیاد پر راقم كو سونپی تھی، جسے بفضل الہی لكھ كر آپ كی دعائیں بھی لی۔

جب میں نے فرزندانِ جامعہ كیپہلے صاحبِ دیوان شاعر مولوی محمد نعمان اكرمی ندوی كے دیوان بعنوان " حرفِ معتبر " كو ادارہ فكر و خبر كی طرف سے شائع كیا تو شروع میں ملے  چند نسخوں میں آپ كا بھی نام درج كیا، اور خود ہی آپ كی خدمت میں پہنچایا، جس  پر آپ نیداد و تحسین سے نوازا، خوب دعائیں دی،اسے میرا اپنا حق بتلایااور جامعہ اسلامیہ بھٹكل كے علمی كاموں كے سلسلہ میں گردانا، اسے قابلِ فخر سرمایہ بتلایا۔

اللہ تعالی كی حكمت یہی تھی كہ آپ كو نرینہ اولاد نہ ہوں، مگر آپ كی بیٹیاں جہاں ایك طرف  آپ كے لیے دنیا كی زینت بنیں تو دوسری طر ف ذخیرہ آخرت  بھی، اگر چہ آپ كی كوئی نرینہ اولاد نہیں ہے،  مگر آپ كا علمی تسلسل صدیوں چلتے رہے گا، خدا جانے آپ كتنے بچوں كی دینی، ثقافتی اور تعلیمی فروغ كا سبب بنے، ہزاروں خاندانوں كی خوشحالی كاذریعہ بنے۔

آخری ملاقات:

گزشتہ دنوں میرے بھٹكل كے  آخری سفر میں ایك ماہ قبل جب آپ كی عیادت كی نیت سے گھر حاضر ہوا،  تو آپ كی خوشی كی انتہا نہ رہی،اپنی رشتہ داری كا حوالہ دیا، بڑی آواز سے اہلیہ كو پكارا اور بتایا كہ فلاں كے بیٹے فلاں مولانا آئے ہوئے ہیں،چہرے پر تر و تازگی، اور ہشاشیت  بشاشیت ظاہر ہوئی كہ مجھے اپنے بارے میں بقول غالب یہ  خوش گمانیاں بھی ہونے لگی ، ان كے دیكھے سے جو آ جاتی ہے منھ پہ رونق، وہ سمجھتے ہیں كہ بیمار كا حال اچھا ہے۔بہر كیف خوش رہنا اور خوشی بانٹنا، خوشی دینا اورخوشی كا اظہار كرنا،علمی گفتگو كرنا اورہنستے مسكراتے رہنا ان كی عادتِ ثانیہ بن چكی تھی، اور یہ بھی كامیاب زندگی كے زرین اصولوں میں سے ایك  ہے كہ جو دوسروں كی كامیابیوں سے خوش ہوتاہے وہ ہمیشہ خوش رہتا ہے، جو وصف ان میں بڑی حد تك پایا جاتا تھا،جس كی شہادت ایك نہیں بلكہ ہزاروں كی زبانی  شہادتیں مل رہی ہیں۔ دورانِ ملاقات جب  خیریت دریافت كی، تو اتنا فرمایا كہ الحمد للہ میرے پیٹ كا نظام بالكل درست ہے، استنجاء میں بھی تكلیف نہیں ہے، البتہ پیٹھ كے درد كی وجہ سے اٹھنے بیٹھنیمیں تكلیف ہوتی ہے، اتنا كہتے كہتے پھر وہ اپنی باتوں میں مشغول ہو گئے، مجھ سے اسی پرانے اسلوب میں محو گفتگو ہوئے، اورمرض كی شدت كے باوجود كرسی پر ہی پیروں كو دراز كئے  بیٹھے رہے، كچھ پرانی یادیں تو كچھ علمی باتیں،كچھ پرانے تذكرے  تو كچھ فقہی مسئلے، جس سے یہ محسوس ہو رہا تھا كہ علمی، ادبی اور تعلیمی باتوں سے آپ كے درد میں كچھ تخفیف ہو جاتی ہے، یا آپ اس سے ذہنی سكون پاتے ہیں۔اس ملاقات میں میرے ساتھ چھوٹے فرزند سید حماد سلمہ بھی تھے،  اپنی بیماری اور درد وكرب میں ہونے كے باوجود كافی تعلیمی وتربیتی نصیحت فرمائی، اسے اپنے مستقبل كو تعمیر كرنے كی صلاح دی،  اور جب اذان ظہر كے بعد میں آپ كے گھر سے رخصت ہو رہا تھا تو گویا زبانِ حال سے مجھ سے  یوں مخاطب تھے ۔

میں جا رہا ہوں مرا انتظار مت کرنا      مرے لیے کبھی دل سوگوار مت کرنا

www.fikrokhabar.com   :  تحریر كردہ بتاریخ:۔ ۲۰/ ذو القعدہ ۱۴۳۹ ہجری۔ مطابق: ۲ / اگست ۲۰۱۶ عیسوی۔ دبی

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا