English   /   Kannada   /   Nawayathi

میں تمہیں کیسے بتاؤں کیا کہو

share with us


حفیظ نعمانی



کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے مسلم دانشوروں کے ساتھ دو گھنٹے کی ایک ملاقات میں ’’ہاں کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے‘‘ کہا یا نہیں کہا اس پر بلاوجہ کی بحث چھڑ گئی ہے۔ اگر انہوں نے جوش میں آکر یہ کہا بھی تھا تو سب جانتے ہیں کہ اس کا کہنا نہ کہنا برابر ہے۔ ان کی والدہ محترمہ گذشتہ دنوں بڑے دُکھ کے ساتھ یہ کہہ چکی ہیں کہ کانگریس کو مسلمانوں کی پارٹی کہا جانے لگا ہے۔ صدر کانگریس کیا کہتے ہیں اور کون کیا کہتا ہے یہ بحث ہی فضول ہے۔ اگر وزیر اعظم کہہ دیں کہ بی جے پی مسلمانوں کی پارٹی ہے تو کیا کسی کو یقین آئے گا؟
اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ اگر بی جے پی اور ڈاکٹر پروین توگڑیا کا مقابلہ ہوجائے اور مسلمان بھی ووٹ دینے کی پوزیشن میں ہوں تو وہ توگڑیا کے حق میں ووٹ دیں گے۔ ایک زمانہ تک یہ ہوا ہے کہ کانگریس نے جب ضرورت ہوئی مسلمانوں کو استعمال کیا ہے۔ آخرکار زخم کھاتے کھاتے مسلمان اب خود جب ضرورت ہوتی ہے کانگریس کو استعمال کرتے ہیں اور ضرورت نہیں ہوتی تو اس کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔ اگر راہل گاندھی تفصیل میں جانا چاہیں تو یہ دیکھ لیں کہ اترپردیش میں 2017 ء کے الیکشن میں مسلمانوں نے کانگریس کی طرف مڑکر بھی نہیں دیکھا۔ اور گجرات میں راہل گاندھی نے مسلمان کو جھوٹوں بھی نہیں پوچھا تب بھی اپنے پیسے خرچ کئے اور کانگریس کی سیٹوں میں سات کا اضافہ کردیا اگر وہ ناراض ہوتے تو ان کیلئے آسان تھا کہ گھر بیٹھے رہتے اور ہر سیٹ پر بی جے پی جیت جاتی۔ یہی برتاؤ انہوں نے اترپردیش میں پھول پور اور گورکھ پور میں کانگریس کے ساتھ کیا۔ لیکن مدھیہ پردیش میں ہر ووٹ کانگریس کو دے دیا۔
ملک میں جب تقسیم کی جنگ چل رہی تھی تب بھی مسلمانوں کا ایک طبقہ کانگریس کے ساتھ تھا لیکن مسلمانوں کی اکثریت مسلم لیگ کے ساتھ تھی۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ کانگریس نے ان مسلمانوں سے بھی رشتہ توڑ لیا جو برے وقت میں بھی ان کے ساتھ تھے۔ ملک کی تقسیم ہوتے ہی کانگریس کے بڑے لیڈروں میں سردار پٹیل، پنڈت پنت، پرشوتم داس ٹنڈن، ڈاکٹر سمپورنانند جیسی ذہنیت کے تمام کانگریسیوں نے آنکھیں پھیر لیں لیکن جن مسلمانوں نے مسٹر جناح کے مقابلہ میں پنڈت نہرو کا ساتھ دیا تھا وہ کہاں جاتے؟ وہ آخر آخر تک کانگریس کے ساتھ ہی رہے۔ کانگریس کے بڑے لیڈروں کا یہ حال تھا کہ پنڈت نہرو سے جب اُترپردیش کے وزیراعلیٰ پنت نے یہ کہا کہ اگر مورتیاں مسجد سے نکلواکر پھر مندر میں رکھوائی گئیں تو خون خرابہ ہوجائے گا۔ یہ سن کر وزیراعظم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ آئی سی ایس ڈی ایم کون ہے جس نے یہ کہا اسے دہلی بھیج دو میں دوسرا ڈی ایم بھیج رہا ہوں وہ یہ کام کردے گا۔ یا جب 1961 ء میں جبل پور میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو پنڈت نہرو نے وزیراعلیٰ کیلاش ناتھ کاٹجو سے معلوم کیا کہ یہ کیا ہورہا ہے تو انہوں نے کہہ دیا کہ ابتدا مسلمانوں نے کی تھی۔
کیا پنڈت نہرو یہ نہیں جانتے تھے کہ کوئی وزیراعلیٰ لاٹھی لے کر فساد کی جگہ دیکھنے اور معلوم کرنے نہیں جاتا کہ کس نے کیا کیا؟ بلکہ چیف سکریٹری سے معلوم کرتا ہے اور چیف سکریٹری بھی اپنے کمرے میں بیٹھے بیٹھے ڈی ایم سے معلوم کرتے ہیں کہ ہوا کیا تھا اور وہ اس تھانے کے کسی سپاہی کی دی ہوئی رپورٹ سنا دیتے ہیں کہ ابتدا مسلمانوں نے کی تھی۔ افسوس اس کا ہے کہ پنڈت نہرو نے یہ نہیں کہا کہ جتنے بااثر باحیثیت مسلمان تھے وہ پاکستان چلے گئے سرکاری افسر جو مسلمان ہیں وہ اپنی خیر منا رہے ہیں پھر وہ کون مسلمان ہیں جو فساد کی ابتدا کرتے ہیں؟
تاریخ گواہ ہے کہ آزادی کی پوری لڑائی اُردو میں لڑی گئی۔ اُردو صرف مسلمانوں کی زبان کبھی نہیں رہی ہر ہندو اُردو بولتا اور لکھتا تھا۔ ہندو لیڈروں کو اگر سنسکرت کی تعلیم دلانا تھی تو اس کے لئے اُردو رُکاوٹ نہیں تھی لیکن ملک کی تقسیم کے فوراً بعد اترپردیش میں سب سے پہلے اُردو کی تعلیم ختم کی گئی اور اُردو دشمنی کی انتہا یہ ہے کہ ڈاکٹر سمپورنانند نے اسے اپنا دھرم بنا لیا کہ اُردو کوئی زبان نہیں ہے وہ ہندی کی شیلی ہے۔ جبکہ خود اُردو میں شعر کہتے تھے اور آنندؔ تخلص رکھتے تھے۔ اور اردو کی سخت جانی کی انتہا یہ ہے کہ آج ہندی اخباروں میں آدھے سے زیادہ اور ٹی وی ریڈیو میں 75 فیصدی اُردو کے الفاظ ہوتے ہیں جو دیوناگری میں لکھے جاتے ہیں مودی، یوگی اور ٹنڈن جیسے ضرور کوشش کرتے ہیں کہ ہندی بولیں۔
2004ء میں مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اٹل جی کی حکومت ختم کرنا ہے اور کانگریس کو ہی لانا ہے تو وہ لے آئے اور 2014 ء میں یہ فیصلہ کیا کہ اب کانگریس کو رُخصت کرنا ہے بی جے پی کے ساتھ کانگریس کے خلاف ووٹ دیئے۔ اب مسلمان دیکھیں گے کہ کہاں کس کے ذریعے بی جے پی کو ہرایا جاسکتا ہے اسے ووٹ دے دیں گے۔ اس میں یہ بھی ہوگا کہ کہیں مسلمان آنکھ بند کرکے کانگریس کو ووٹ دیں گے اور کہیں اس کے خلاف ووٹ دیں گے۔ راہل گاندھی نے جن دانشوروں سے بات کی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اب وہ نصیرالدین شاہ، شبانہ اعظمی وغیرہ سے بات کریں گے تو یہ تفریح کریں لیکن یہ سمجھ کر نہ کریں کہ ان کے ساتھ آنے کا مطلب مسلمانوں کا ساتھ آنا ہے۔ 71 سال میں مسلمان یہ سمجھ چکے ہیں کہ انہیں پانی پینا ہے تو خود کنواں کھودنا ہے۔ اسے اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تم کس کی حکومت بنواؤ وہ جانتا ہے کہ ہمیں کس کی حکومت بنوانا ہے۔ اور کہاں کسے ووٹ دینا ہے۔
جن حضرات کو دانشور کہا جاتا ہے ان کے پاس تو اپنا ووٹ بھی نہیں ہے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان میں سے شاید ہی کوئی لائن میں لگ کر ووٹ ڈالنے جاتا ہو؟ اور عوام سے ان کا تعلق نہیں۔ ہم ان کی بات کررہے ہیں جو اپنے کو کسی مسلم پارٹی کا صدر یا سکریٹری کہتے ہیں کہ مسلمان ووٹ ان کے پاس بھی نہیں ہیں اس کا ثبوت کیرانہ اور نور پور میں مل جائے گا کہ زمین پھاڑ دینے والا سخت موسم، رمضان کا مہینہ، روزے دار مسلمان مرد اور عورتیں۔ مقصد نہ اکھلیش کو جتانا تھا اور نہ اجیت کو صرف مودی اور یوگی کو ہرانا تھا ان جاٹوں کے ساتھ مسلمان کھڑے تھے جن کی وجہ سے آج بھی سیکڑوں مسلمان بے گھر ہیں۔
جب کسی قوم کا ووٹر اتنا سمجھدار ہوجائے تو جسے بات کرنا ہو اس سے براہِ راست بات کرے کیسے دانشور کہاں کے لیڈر اور کون سے ایکٹر؟ وہ اپنے آگے کسی کو نہیں گردانتے۔ آج اگر راہل گاندھی یہ یقین دلادیں کہ جہاں کانگریس کی حکومت ہوگی وہاں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔ تو اس کے اختیار میں کیا ہے؟ پورے ملک کی پولیس مسلم مخالف ہوچکی ہے وہ ایک انسان کو پٹتا ہوا دیکھتی ہے اور چپ کھڑی رہتی ہے جب وہ مرجاتا ہے تو پوسٹ مارٹم کرادیتی ہے۔ یہی کام اس نے کانگریس کے زمانہ میں کیا تھا یہی بی جے پی کے زمانہ میں کرے گی اور یہی حال عدالتوں کا ہے ایسے میں راہل کیا کرلیں گے؟ بہرحال ان کو فکر ہے تو ان کا شکریہ۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 
15جولائی2018
ادارہ فکروخبر 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا