English   /   Kannada   /   Nawayathi

امت شاہ کو یہ ڈیٹا کہاں سے ملا مودی جی؟

share with us

رويش کمار


یہ نہ طنز ہے اور نہ مزاح ہے اور نہ ہی نعرے بازی کے لیے ڈیزائن کیا گیا سیاسی سلوگن ہے۔ روزگار کے اعداد و شمار کو لے کر کام کرنے والے بہت پہلے سے ایک ٹھوس نظام کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، جہاں روزگار سے متعلق اعداد و شمار کو جمع کیا جاتا رہا ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ روزگار کا کوئی ڈیٹا ہی نہیں ہے۔ چار سال گزر جانے کے بعد وزیر اعظم کو دھیان آیا ہے کہ ملک میں ملازمتوں کو لے کر ڈیٹا نہیں ہے۔ پھر انہیں امت شاہ سے پوچھنا چاہیے کہ جناب آپ کو یہ ڈیٹا کہاں سے ملا تھا کہ کرنسی لون کی وجہ 7 کروڑ 28 لاکھ لوگ اپنے کاروبار سے منسلک ہیں۔ 12 جولائی 2017 کو امت شاہ کا یہ بیان کئی جگہ چھپا ہوا ہے۔

اب اگر بی جے پی کے صدر امت شاہ نے ذہن میں کوئی کھچڑی پکائی ہو تو بہتر ہے انہیں وزیر اعظم سے معافی مانگ لینی چاہیے۔ ساتھ ہی کسی کو ان کو یاد دلانا چاہیے کہ سر بہت سارا اپنے پاس ڈیٹا ہے، بس جو بھی ڈیٹا آپ دیتے ہیں نا اسے لے کر سوال اٹھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ سوال اٹھنے کے بعد بھی ہم انتخابات تو جیت ہی جاتے ہیں۔ وزیر اعظم چاہیں تو کرنسی لون کا ڈیٹا لے سکتے ہیں کتنا فیصد کرنسی لون این پی اے ہو چکا ہے اور ہونے کے دہانے پر ہے۔

بھارت میں بے روزگاری بھینکر سطح پر ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد حالت خراب ہوتی چلی گئی ہے۔ روزگار دینے والے دو اہم شہر صورت اور ترشور کی حالت آپ جا کر دیکھ لیں۔ ڈیٹا کی ضرورت نہیں ہو گی۔ وزیر اعظم کو ڈیٹا ہونے یا روزگار ہونے کا خیال تب کیوں نہیں آیا جب زی نیوز کو پکوڑے بیچنے کو بھی روزگار بتا رہے تھے اور ان کے وزیر اعلی پان کی دکان کھولنے کو روزگاربتانے میں لگے تھے۔

سوراج پتریکا کو انٹرویو میں وزیر اعظم دونوں بات کرتے ہیں۔ پہلے کہتے ہیں کہ روزگار ہیں مگر ملازمتوں کو لے کر ڈیٹا نہیں ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ EPFO ڈیٹا کو لے کر ریسرچ ہوا ہے جس کے مطابق گزشتہ سال منظم علاقوں میں 70 لاکھ روزگار پیدا کی گئی ہیں۔ یہ 70 لاکھ غیر منظم علاقے میں ملازمتوں کے علاوہ ہے جہاں 80 فیصد لوگ کام کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کو یاد نہیں ہوتا۔

ویسے EPFO کے ڈیٹا کو لے کر بھی بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ لیبر کی وزارت کا ڈیٹا کر دیا گیا کیونکہ اس میں وہ تصویر نہیں دکھائی دے رہی تھی جو دکھانا چاہ رہے تھے اور ساتھ ہی روزگار کی پیداوار کو لے کر سرکاری ڈیٹا کم نظر آئے وہ اور بھی ٹھیک نہیں لگ رہا ہو گا۔ میڈیا کے چکر میں حکومت بھول گئی کہ اگر زمین پر روزگار ہوتا تو نوجوان ان کا ڈیٹا نہیں دیکھ رہے ہوتے، اپنے کام میں مصروف ہو گئے ہوتے۔

وزیر اعظم نے روزگار کو لے کر یہ بات ٹھیک کہی کہ مختلف ریاستیں روزگار دینے کا اپنا دعوی کرتی ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ریاستوں میں روزگار پیدا ہو اور ملک میں نہ ہو۔ اب تو زیادہ تر ریاستوں میں ان کی ہی پارٹی کی حکومت ہے اور وزیر اعلی بھی انہی کی پسند کے ہیں۔ اگر وہ واقعی سنجیدہ ہیں تو روزگار کو لے کر کم از کم سرکاری اعداد و شمار قابل اعتماد طریقے سے دیا جا سکتا ہے اور وہ بھی ایک ہفتے کے اندر اندر۔

وزیر اعظم اپنے محنتی وزیروں کو کہیں کہ تمام وزارتوں، محکموں،  کمپنیوں اور منتخب کمیشنوں سے کہیں کہ 2014  سے جون 2018 تک ان ملازمتوں کے ڈیٹا کو ہٹا دیں جن کا اشتہارات نکلا۔ پھر ان میں سے یہ ڈیٹابتائیں کہ کتنی ملازمتوں کا امتحان ہو گیا، کتنوں کے نتیجے نکلے اور کتنے لوگوں کو تقرری کا لیٹر دے دیا گیا۔ کم از کم مرکزی حکومت اتنا تو بتا دے کہ اس نے روزگار کم کی ہیں یا زیادہ کی ہیں۔ فوج کی بھرتی کم ہو گئی ہے یا بڑھ گئی ہے۔ ریلوے کی بھرتی بڑھ گئی ہے یا کم ہو گئی ہے۔ جو کمپنیاں مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر منصوبے پر کام کر رہی ہیں وہ فہرست ہفتے بھر میں سونپ دیں کہ کس نوعیت کی روزگار لوگوں کو ملی ہیں۔

ان سب کو شامل کرنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے کہ مگر 15 دن کے اندر مودی حکومت اپنا ڈیٹا دے سکتی ہے کہ اس کے آنے کے بعد مرکزی حکومت میں کتنے لوگ بھرتی ہوئے۔ کتنے لوگ بھرتی کے نام پر چار سال امتحان ہی دیتے رہے۔ ریلوے کی مستقل کمیٹی بتاتی ہے کہ دو لاکھ تیس ہزار روزگار خالی ہیں۔ مگر اشتہار نکلا ہے تقریبا ایک لاکھ کا۔ ان کا امتحان کب ہوگا، رذلٹ کب آئے گا اور تقرری کا لیٹر کب ملے گا کسی کو پتہ نہیں۔

وزیر اعظم کم سے کم اتر پردیش کے ایک لاکھ 78 ہزار اساتذہ کے مسئلے کو حل کرکے  روزگار کا اپنا ڈیٹا مضبوط کر سکتے ہیں۔ پونے دو لاکھ اساتذہ کی سیلری 40،000 سے 10،000 کر دی گئی، جبکہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہیں ایسا نہیں کہا ہے۔ حکومت چاہے تو آرام سے الگ کیڈر بنا کر ان پونے دو لاکھ اساتذہ کو فوری کام دے سکتی ہے۔ ان کا مسئلہ کا حل یوپی کی بی جے پی کے قرارداد  میں بھی ہے۔ تین ماہ میں حل کی بات تھی، ایک سال گزر گیا۔

اساتذہ کو لے کر 2015 میں وزیر اعظم مودی نے لمبی تقریر کی تھی کہ وہ کوشش کریں گے۔ سانسد رہتے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ نے تقریر کی تھی اور یقین دہانی کرائی تھی۔ ان کے منشور میں بھی ہے۔ اس کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا۔ پرائیویٹ کا چھوڑییے، آپ اپنی حکومت کا ڈیٹا دیجیے۔ اگر مودی حکومت اور یوگی حکومت 1،78000 لوگوں کو کام اور سیلری کے سوال پر سست اور پست ہے تو پھر وہ روزگار کو لے کر سنجیدہ ہے ہی نہیں۔

اسی طرح کے مسائل مدھیہ پردیش کے اسساتذہ کے ہیں۔ وہاں الگ نام سے بلایا جاتا ہے۔ مگر وہاں دو لاکھ سے زیادہ اساتذہ کو ریگولر کرنے کے لیے كیبنٹ نے فیصلہ کر لیا ہے۔ ایک ہی پارٹی کی حکومت ہر جگہ ہے۔ ایک جگہ فیصلہ کچھ ہے اور ایک جگہ فیصلہ کچھ ہے۔ قاعدے سے مودی اور یوگی حکومت کو مل کر اس پر دس دن کے اندر اندر فیصلہ کر لینا چاہیے اور تمام 1 لاکھ 78 ہزار اساتذہ کی نوکری پکی ہو جانی چاہیے۔ یا پھر وہ دکھائیں کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہاں لکھا ہے کہ ان سیلری 40،000 سے گھٹا کر 10،000 کر دو۔ یوگی جی نے ایسا کیوں کیا؟

یوگی جی نے 12460 اساتذہ کو تقرری لیٹر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ لوگ بھی کورٹ سے کیس جیت چکے ہیں۔ دو دو بار اس کے بعد بھی تقرری لیٹر موصول نہیں ہوا ہے۔ قریب 5000 اساتذہ کو تقرری کا لیٹر ملا ہے، مگر قریب 8000 پھر لٹک گئے۔ کورٹ کے نام پر ان لوگوں کو مجبورا دھرنے پر بیٹھنا پڑا ہے۔ یہ 8000 روزگار کے اعداد و شمار کا انتظار نہیں کر رہے ہیں، حکومت کی نیت صاف ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر مودی جی اور یوگی جی ان نوجوانوں کو کام دے دیتے تو کہہ سکتے تھے کہ اکیلے یوپی میں دو لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بھرتی کیا ہے۔

اس لیے وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ نوکری کو لے کر ڈیٹا نہیں ہے، درست نہیں ہے۔ وہ چاہیں گے تو ڈیٹا مل جائے گا۔ وہ نہیں چاہتے ہیں کیونکہ اس میں ان کی حکومت کا ریکارڈ اچھا نہیں نظر آئے گا۔ تاکہ وہ ابھی سے ہی ڈیٹا نہ ہونے کی بات کہہ کر ملازمتوں کو لے کر ہونے والی ہر بحث کو مشتبہ بنا دینا چاہتے ہیں۔

نوکری کا سوال چبھ رہا ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ حالت خراب ہے۔ روزگار نہیں ہیں۔ حکومتوں نے نوکریاں بند کر دی ہیں۔ معاہدوں پر رکھ کر ٹھگا جاتا ہے۔ خود پنشن لیتے ہیں اور سرکاری ملازمین کو پنشن نہیں دیتے۔ معاہدے والوں کو تو کچھ نہیں ملتا ہے۔ چار سالوں میں روزگار کے فرنٹ پر حکومت کا ریکارڈ خراب رہا ہے۔ وہ اپنا ڈیٹا چیک کر سکتی ہے اور اس کے پاس اس کا ڈیٹا ہے۔

مترجم: محمد اسعد فلاحی

(مضمون نگار کی رائے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے) 
11؍جولائی2018(ادارہ فکروخبر)
 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا