English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہم جنس پرستی معاشرے کی تباہی کا ذریعہ

share with us

ڈاکٹر مفتی عرفان عالم قاسمی

ھمارا ملک جوکبھی پاکیزہ معاشرہ کا علمبردار سمجھا جاتا تھا آج مغربی تہذیب وتمدن کی اندھی تقلید کی وجہ سے بدامنی وبے چینی اور نئی نئی مہلک بیماریوں میں جکڑا ہوا ہے اور ہر طرف ہوا و ہوس پرستی، بداخلاقی، بے حیائی، بے غیرتی، بدکرداری اور مغربی جنسی انقلاب کی بادسموم چل پڑی ہے۔ حالات یہ ہیں کہ نئی نسل کا ایک بڑا طبقہ اپنی نفسانی خواہش اور جنسی بھوک کی تسکین کے لئے ہر قید وبند سے آزاد ہوکر زندگی گزارنا چاہتا ہے ۔ دراصل آج مغربی تہذیب کو پوری دنیا میں غالب کرنے کی ایک منظم سازش چل رہی ہے اور ان کا پورا ایک گروپ مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ صیہونی تحریکات کو مشرقی ممالک میں پھیلانے کا کام کررہاہے اور اس مشن کو کامیاب بنانے کے لئے زن زر کا خوب خوب استعمال کیا جارہا ہے ان لوگوں کی پہونچ صرف ہوٹلوں اور کلبوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کا اثر ورسوخ یہاں کی سیاست اور اقتصادی نظام پر بھی ہے لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ آج دنیا کی سب سے بڑی تجارت سیکس ہے اوراقتصادی بنیاد پرستی کا دور ہے، اس لئے مارکیٹ فورسیز تمام شعبہ ہائے زندگی پر غالب آنا چاہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس اجیت پرکاش شاہ اور جسٹس ایس مرلی دھر پر مشتمل بنچ نے ناز فاؤنڈیشن کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے تعزیرات ہند کی دفعہ ۳۷۷ کا دائرہ محدود کرتے ہوئے باہمی رضامندی والی ہم جنس پرستی جیسی غلیظ ، غیر فطری، غیر انسانی، غیر اخلاقی، غیر سماجی، غیر دینی عمل کی قانونی اجازت دے دی۔ میں نے سال بھر قبل اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ہمارے ملک کے ناپاک ذہن رکھنے والے سیاست داں ہم جنسی کی قانونی اجازت کے لئے عملی اقدام میں لگے ہوئے ہیں اور جلد سے جلد ہم جنسی کو قانونی درجہ دیدیا جائے گا۔ ہم جنسی کی اجازت دینے کا عدالت کا یہ فیصلہ صرف اسلام کی رو سے ہی غلط نہیں بلکہ دیگر تمام مذاہب بھی اس غیر فطری عمل کی اجازت نہیں دیتا، نیز ہمارے پاکیزہ معاشرہ میں داغ لگانے والا یہ غیر فطری عمل ہندوستانی تہذیب، مذہبی روایات اور انسانی اقدار کے بھی منافی ہے۔ 
آج ملک کے ہر غیرت مند شخص کو وقت کی لکیر کو پڑھنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی ناپاک ذہنیت رکھنے والا مغربی افکار وخیالات سے متاثر شخص مغربی ممالک کی تہذیبی پراگندگی کو ہمارے معاشرے میں نہ داخل کردے تاکہ ان ممالک کی خاندانی ڈھانچے کی طرح ہمارے ملک کا بھی خاندانی ڈھانچہ پراگندہ ہوکر برباد ہوجائے خاص طور پر اس ملک میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو اپنے ذہن کی کھڑکی کھول کر رکھنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ سالوں سے امریکہ ویورپ کے صیہونی ذہن رکھنے والے افراد ہمارے اسلامی تشخصات کو مسخ کرنے کی منصوبہ بند مہم چلا رہے ہیں تاکہ ہم بھی اہل یورپ کی طرح اپنے نبی کریم ﷺ کے اسوہ وطریقہ کو چھوڑ کر بے چینی، وبے اطمینانی اور طرح طرح کی مہلک بیماریوں کے شکار ہوجائیں۔
ہم جنسی درحقیقت ایک ذہنی بیماری ہے جو انسانوں کو اپنی فطری جسمانی تقاضوں سے ہٹاکر غیر فطری عمل کی طرف متوجہ کردیتی ہے اور یہ ذہنی بیماری عام طور پر احساس کمتری، ہارمونس کی خرابی اور جسمانی نقائص کی کمی، الگ تھلگ ہوسٹلوں میں رہنے، محبت واپنائیت سے محروم افراد میں پائی جاتی ہے۔ اگر ان باتوں سے الگ ہٹ کر حقیقت پسندانہ انداز میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ جدید معاشرہ کی دین ہے جو ہماری نوجوان نسل کو بربادی کی طرف لے جارہی ہے کیونکہ ہم جنسی پرستی میں مبتلا افراد کی عمر دیگر افراد کے مقابلہ کم ہوجاتی ہے، تازہ تحقیق کے مطابق امریکہ میں تو جہاں ایک آدمی کی اوسط عمر ۶۵ سے ۵۷ سال ہے وہیں ہم جنس پرستی میں مبتلا افراد کی عمر کا تناسب ۳۰ سے ۳۵سال کے درمیان ہے، نیز اس فعل بد میں ملوث افراد کو ایڈس اور سپلس جیسی جان لیوا بیماریوں میں مبتلاء ہونے کا خطرہ رہتا ہے لہذا حفظان صحت اور جان بچانے کی خاطر ہم جنس پرستی کو روکنے کی ضرورت ہے نہ کہ اس برے فعل پر سے قانونی پابندی ہٹانے کی۔
مرد عورت کو اللہ تعالیٰ نے قوت وصلاحیت، نظام عمل او رجسمانی ساخت کے اعتبار سے جداگانہ طور پر بنایا ہے، مرد کا دائرہ عمل الگ اور عورت کا علاحدہ ہے، مرد جہاں عورت کا محافظ وکفیل ہے وہیں عورت اطاعت وخدمت کی دیوی ہے اور اسی عورت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس حسین کائنات میں تولد وتناسل کا سلسلہ قائم رکھا ہے، مرد اپنی طبعی وفطری خواہش عورت سے پوری کرتا ہے اور عورت اپنی طبعی وفطری خواہش کی تسکین مرد سے حاصل کرتی ہے مگر آج کا بدبخت انسان طبعی وفطری چیز کو چھوڑ کر غیر فطری طو رپر اپنی نفسانی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے ۔ اصل میں ایسا انسان انسان کی شکل میں جانور ہے جو اپنی خبائث طبعی وگندہ ذہنی کے سبب عذاب الٰہی کو دعوت دیتا ہے اگر ایسے ہوا وہوس پرست اور انسانی خواہشات میں مبتلا لوگوں کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا تو وہ وقت دور نہیں کہ ہمارے معاشرے سے بھی یورپ وامریکہ کی طرح شرم وحیا اور اچھے برے کی تمیز مٹ جائے اور اللہ نہ کرے فطرت کے خلاف بغاوت کرنے کی وجہ سے اللہ کا عذاب نہ آجائے کیونکہ اس فعل بد کی وجہ سے وہ تباہی وبربادی جو صدیوں میں�آنے والی ہوتی ہے بہت جلد آجاتی ہے۔
حضرت عمر و بن دینارؒ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے لوط علیہ السلام کی سرکش ومعاند قوم نے اس فعل بد کا ارتکاب کیا اس سے پہلے برے سے برے انسان کا کبھی اس طرف دھیان نہیں گیا تھا اور اس جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر دردناک عذاب بھی نازل کیا۔ بتایاجاتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام اس قوم کو جو شہر اردن کے اطراف میں آباد تھی جسے اہل سدوم کہا جاتا ہے ان کی اصلاح وہدایت کے لئے بڑی محنت وکوشش کی اور انہیں ہر پہلو سے سمجھایا کہ اے میری قوم! ایسے گھناؤنے کام سے باز آجاؤ جس کو آج تک کسی انسان نے نہیں کیا تم اپنی شہوت عورتوں کے بجائے مردوں سے پوری کرتی ہو مگر یہ کمین قوم حضرت لوط علیہ السلام کے نہایت نرمی ومحبت کے ساتھ سمجھانے کے باوجود اپنی شرارت، خباثت، بے حیائی، بدکرداری سے باز نہ آئی، ستم بالائے ستم یہ کہ اپنے اس فعل بد پر فخر بھی کیا کرتی تھی۔ ایک دن جب حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر تم اسی طرح اس غلیظ وخبیث فعل میں مبتلا رہے تو خدا کا عذاب آجائے گا بس قوم اتنا سنتے ہی تلملا اٹھی اور کہا اے لوط! بہت فہمائش کرلئے اب تو پانی سرسے اونچا ہوگیا ہے اگر تو واقعی اپنے قول میں سچا ہے تو اپنے پروردگار کا عذاب لا کر دکھا جس کا کہ تو دعویٰ کیا کرتا ہے چنانچہ اللہ کا حکم آگیا اور عذاب کے فرشتے سب سے پہلے حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کو چھوڑ تمام اہل خاندان کو سدوم سے باہر نکل جانے کا حکم فرمایا اور پھر رات کے آخری حصہ میں ایک ہیئبت ناک چیخ نے اس قوم کو تہہ وبالا کردیا۔ اللہ نے فرشتوں کے ذریعہ پوری آبادی کا تختہ زمین سے اکھاڑ کر اوپر اٹھایا اور ان پر پتھروں کی بارش کی اور پھر انہیں الٹ کر رکھ دیا جب بستیاں الٹ گئیں تو وہاں پر پانی نکل آیا اور وہ علاقہ روئے زمین کا سب سے پست ترین خطہ بن گیا جس کا تذکرہ قرآن پاک نے اس انداز میں کیا ہے ’’اور ہم نے اس زمین کے بلند علاقے کو زمین کا پست علاقہ بنادیا۔ آج بھی اس جگہ ایک سندر ۵۰ میل لمبا اور ۱۱ میل چوڑا لوگوں کو درس عبرت دے رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سمندر کی گہرائی عام سمندروں کے مقابلے تیرہ سو فٹ زیادہ ہے اور اس کے پانی میں نمکینیت بھی زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس میں کوئی جاندار زندہ نہیں رہتا ہے، یہاں تک کہ کوئی پودا بھی اس میں نہیں اگتا اسی لئے اس کو’’ بحرمیت‘‘ بھی کہتے ہیں۔

(مضمون نگار کی رائے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے) 
09؍جولائی2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا