English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہجومی تشدد پر سپریم کورٹ کو تشویش!

share with us

نازش ہماقاسمی

۲۰۱۴ کے لوک سبھا الیکشن میں اکثریت سےکامیاب ہونے کے بعد بی جے پی اور اس سے منسلک جماعتوں، تنظیموں، نے ملک میں پرتھوی راج کے احیا کا اعلان کیا تھا اور خوب خوشیاں بھی منائی گئیں تھیں کہ ملک میں پرتھوی راج کے بعد نریندر مودی کی قیادت میں خالص ہندو حکومت قائم ہوئی ہے۔ اس جشن میں ڈوبے اقتدار پر براجمان طاقتوں کے سامنے اقلیتی طبقہ قابل رحم نظر آیا۔ انہوں نے اقلیتوں کو نظر انداز کرکے  ان پر ظلم وستم کا سلسلہ جو شروع کردیا تھا وہ اب تک جاری ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس ظلم وستم میں حکومت شامل ہے؛ لیکن جو شامل ہیں ان کا تعلق ان سے کسی نہ کسی طو رپر ضرور ہے۔

دادری کے اخلاق کے بہیمانہ قتل سے شروع ہونے والے اس خونی کھیل کے شکار ٹائمز میگزین کے مطابق ۱۵۰ افراد ہوچکے ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر لوگوں کی موت واقع ہوگئی ہے۔ یہ ہجومی تشدد، عین دہشت گردی ہے۔ اس پر حکومت کی مجرمانہ خاموشی بلوائیوں کو مزید شہہ دے رہی ہے۔ وزیر اعظم تو کئی بار ان بھگوا دہشت گردوں کو جعلی گئو رکشک قرار دے چکے ہیں؛ لیکن عملی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حوصلے مزید بلند ہوتے گئے۔ حکومت کی خاموشی کی وجہ سے انکے عزائم اتنے بلند ہوگئے کہ باقاعدہ مندروں سے اعلان کرکے ہجوم کو جمع کیا جاتا ہے، اورمسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔

 صرف مسلمان ہی تشدد کے شکار نہیں ہورہے ہیں دیگر اقلیتیں بھی تشدد کی زد پر ہیں، دلتوں کے ساتھ  تو بدترین سلوک کیاجارہا ہے، وہ دلت جو خود کو ہندو تصور کرتے ہیں اور مسلمانوں سے تصادم میں ہندو بن کر پیش پیش رہتے ہیں، انہیں بھی شود رقرار دے کر گائے کی آڑ لے کر مارا پیٹا جارہا ہے؛ لیکن ان کی عقل اب بھی ٹھکانے نہیں آئی ہے، اگرٹھکانے آجائے اور دلت مسلم اتحاد ہوجائے تو ان فرقہ پرستوں کو ناکوں چنے چبوایا جاسکتا ہے۔

اب جبکہ ۲۰۱۹ کے الیکشن کی مکمل تیاری جاری ہے۔ تمام وعدے وعید بن چکے ہیں، حکومت کے انتخابی وعدے پورے نہیں ہوئے، عوام کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں؛ اس لیے اقتدار پر براجمان طاقت دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کےلیے مہنگائی کم کرنے، نوکری دلانے، پٹرول وگیس کی قیمتیں کم کرنے ، پندرہ پندرہ لاکھ اکاؤنٹ میں دینے کے وعدے نہیں کررہی؛ بلکہ انہیں آپس میں متصادم رکھناچاہتی ہے۔ملک کے طول عرض میں نفرت کی بیج بوکر ہندو مسلم کو آمنے سامنے کھڑا کردیاگیا ہے اور یہ الیکشن ہندو بنام مسلم جیتنے کی خواہش ہے۔ ماب لنچنگ انجام دینے والے افراد پر کارروائی نہ ہونا، ان کےمقدمے کے اخراجات اٹھانے کی باتیں کرنا، شنبھو لال جیسے زانی کو ہیرو بنا کر پیش کرنا، کٹھوعہ سانحے کو مندر میں انجام دے کر ملزمین کی حمایت میں ترنگے کے ساتھ ریلی نکالنا یہ سب اسی کی طرف اشارہ ہے کہ  ہندوستان کو ہندو راشٹر بنایاجائے اور مسلمانوں کو یہاں سے ختم کردیاجائے، ان کی نسلوں کو تباہ وبرباد کردیاجائے اور عین ممکن ہے کہ وہ اس مشن میں کامیاب ہوجائیں؛ کیوں کہ مسلمانوں نے دادری کے اخلاق سے اگر سبق حاصل کرلیا ہوتا، مسلمانوں نے آئینی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے اس پر سراپا احتجاج ہوکر ملزمین کو کیفر کردار تک پہنچا دیا ہوتا تو شاید ممکن تھا کہ یہ ہجومی تشدد ختم ہوجاتا؛ لیکن مسلمانوں کی خاموشی، بزدلانہ مصلحت نے ان فرقہ پرستوں کو مزید شہ دیا۔

 وہ فرقہ پرست جماعت جو اپنے زانی ممبر اسمبلی کےحق میں ریلی نکالتی ہے کہ انہیں رہا کیا جائے، وہ مندر میں عصمت دری کرنے والوں کی حمایت کرتی ہے وہی بھوپال میں مسلم ملزمین کے پھانسی کا مطالبہ کررہی ہے۔ عصمت دری کا مجرم کو ئی بھی ہو اسے پھانسی ہونی ہی چاہیئے، یہ غلط کام ہے اور صنف نازک پر تشدد کسی بھی حال میں برداشت نہیں؛ لیکن دوہرا رویہ نہیں اپنانا چاہیئے، اپنے ممبر اسمبلی کی تو حمایت کی جائے؛ لیکن اگر ملزم دوسری کمیونٹی کا ہو تو اسکی پھانسی کا مطالبہ کیاجائے۔

مسلمانوں نے کبھی ایسا نہیں کیا، انہوں نے ۱۶؍دسمبر ۲۰۱۲کی شکار نربھیا کے حق میں بھی آواز بلند کی اور کٹھوعہ کےآصفہ کے ملزمین کو بھی کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا اور معصوم سنسکرتی کے ساتھ ہوئے بہیمانہ سلوک کے خلاف بھی مسلم ملزمین کو پھانسی پر چڑھانے کا مطالبہ کیا جو کہ حق ہے۔ اقتدار پر براجمان طاقت عورتوں کے تحفظ کی باتیں کرتی ہے، مسلم عورتوں کی پریشانی انہیں دیکھی نہیں جارہی ہے، طلاق جو کہ خالص شرعی مسئلہ ہے اس میں مداخلت کی کوشش کررہی ہے؛ لیکن پورا ملک ان دنوں زنابالجبر کے سائے میں ہے، معصوم بچیوں سے لے کر عمر دراز خواتین تک مسلسل زیادتی کا شکار ہورہی ہیں ان کے لیے کوئی قانون نہیں لایا جارہا ہے، ٹھوس اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں؛ بلکہ مجرمین کی حمایت کی جارہی ہے۔ ان سانحوں کی وجہ سے پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ بگڑ کر رہ گئی ہے۔

پورے ملک کی خاک چھاننے کاعہد کیے ہوئے وزیر اعظم پتہ نہیں کس منہ سے ملکوں  ملکوں گھوم رہے ہیں، کیا کہتے ہوں گے کہ ہاں میں اسی ملک کا وزیر اعظم ہوں جہاں میری ہی پارٹی کا ممبر اسمبلی عصمت دری کرتا ہے، میں اسی ملک کا وزیر اعظم ہوں جہاں مندروں کی حرمت پامال کی جاتی ہے اور وہاں سات دنوں تک معصوم بچی سے شیطانوں کو بھی شرمندہ کرنے کا کام کیاجاتا ہے۔ خیر الیکشن سر پر ہے۔

ہجومی تشدد کے تعلق سے سپریم کورٹ نے حال ہی میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے، اس سے قبل سپریم کورٹ کےچار ججوں نے ملک کی جمہوریت کو خطرے میں بتایا تھا؛ لیکن ان کی باتیں سنی ان سنی کردی گئی تھیں، اب جبکہ  سپریم کورٹ نے ماب لنچنگ کے تعلق سے کہا ہے کہ یہ جرم ہے کوئی بھی شخص قانون کو ہاتھ میں لے کر تشدد نہیں کرسکتا، اس پر قابو پایا جانا ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے، اب دیکھتے ہیں کہ کیا ریاستی ومرکزی حکومت کوئی قدم اُٹھاتی ہے یا صرف بیان بازیوں تک محدود رہ کر پس پردہ ہندو دہشت گردوں کا تعاون کرکے پورے ملک میں ہجومی تشدد کی وارداتوں میں اضافہ کروائے گی؛ تاکہ منافرت کی خلیج بڑھتی جائے اور الیکشن میں اس کا فائدہ اُٹھایاجائے۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 

08/جولائی (ادارہ فکروخبر )

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا