English   /   Kannada   /   Nawayathi

جی ایس ٹی حکومت کو مبارک ہو

share with us

 

حفیظ نعمانی

ہم دوسروں کا حال نہیں جانتے ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں اپنے وزیراعظم نریندر مودی کو یہ کہتے وقت بہت تکلیف ہوتی ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ جتنی زندگی سیاست میں گذری اس نے یہ دکھا دیا کہ وزیر، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم صرف اپنے افسروں پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہر افسر اپنے آقا کو اندھیرے میں رکھتا ہے۔ وزیراعظم نے جی ایس ٹی کا ایک سال پورا ہونے پر جو بیان دیا یا مسلسل دے رہے ہیں وہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ چار سال میں اس سے بڑا جھوٹ نہیں بولا گیا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ بے قصور ہیں ان کو ان کے افسروں نے یہی بتایا ہے کہ ملک کے غریب اور متوسط طبقہ کو جی ایس ٹی سے فائدہ ہوا ہے، روزگار کے مواقع بڑھے ہیں، کاروبار میں آسانی کے ساتھ پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ جی ایس ٹی کا ایک سال ہونے پر وزیراعظم نے عوام کو مبارکباد دی ہے۔ کیونکہ جی ایس ٹی سے ہندوستانی معیشت میں ایک مثبت تبدیلی آئی ہے۔
یہ تمام باتیں وہ ہیں جو افسروں نے وزیراعظم کو بتائی ہیں اور افسروں کا قصور اس لئے نہیں ہے کہ وزیراعظم یا وزیر مالیات افسروں سے اس کے علاوہ کچھ سننا نہیں چاہتے۔ ہوسکتا ہے یہ خبر وزیراعظم کے کانوں تک پہونچ چکی ہو کہ اترپردیش کے وزیراعلیٰ کے جنتا دربار میں ایک کسان نے وزیراعلیٰ کو آئینہ دکھا دیا تھا وہ اتنے ناراض ہوئے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکلوایا اور جن افسروں نے اسے اندر آنے کی اجازت دی تھی ان سے جواب طلب کرلیا گیا۔ ایسی حالت میں وزیراعظم کو کون افسر بتائے کہ شرد یادو نے کہا ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ملک میں آٹھ کروڑ آدمی بے روزگار ہوئے۔ یا جی ایس ٹی کی وجہ سے ایک سال میں زیادہ تر کاروبار کرنے والوں کی کمر جھک گئی۔
ایک اہم اخبار کی 6 کالمہ سرخی کے ساتھ یہ خبر ہے کہ مراد آباد میں سیکڑوں کارخانے بند اور پیتل کے لاکھوں کاریگر بے روزگار ہوگئے۔ جو یا تو شہر چھوڑکر ہجرت کرگئے ہیں یا دوسرا روزگار تلاش کررہے ہیں یا رکشہ چلا رہے ہیں۔ ہم وزیراعظم سے کیسے کہیں کہ خدا کے لئے وہ زمین پر آجائیں آسمان پر نہ اُڑیں۔ مراد آباد پیتل نگری کہلاتا ہے وہاں جو براس کا سامان بنتا ہے وہ دنیا بھر میں بے مثال ہے۔ ایک زمانہ سے اس کی ہر چیز مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی 1980 ء میں ایک منصوبہ کے تحت عید کے دن وہاں فساد کرادیا گیا اور پھر پورا ایک سال ایسا گذرا کہ یا کرفیو یا پھر فساد نتیجہ یہ ہوا کہ سارا کاروبار ختم ہوگیا اور وہ کاریگر جو اس زمانہ میں سو روپئے روز کما رہے تھے رکشہ چلانے پر مجبور ہوگئے۔ خدا خدا کرکے 20 سال کی محنت سے پھر ان کی کمر سیدھی ہوئی تو نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے پھر مراد آباد کو 1980 ء میں لاکر کھڑا کردیا اور وزیراعظم جو قصیدہ پڑھ رہے ہیں وہ کروڑوں انسانوں کے زخموں پر نمک اور مرچ چھڑک رہے ہیں۔
مودی جی۔ جی ایس ٹی سے غریب اور متوسط طبقوں کے فائدے کی بات کررہے ہیں۔ ہمارا تعلق متوسط طبقہ سے ہے ہمارے کاروبار میں جو ملازم لگے ہیں وہ غریب ہیں۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ ملک بھر میں سروے کریں ہمارا حال یہ ہے کہ ہر کاروبار آدھا رہ گیا ہے۔ اور ملازم اس لئے رو رہے ہیں کہ کام کم ہے اس لئے نہ اوور ٹائم ملتا ہے اور نہ اچھی کارکردگی پر انعام۔ جو مستقل ملازم تھے ان کو تو رکھے ہوئے ہیں جن کو ضرورت کے لئے عارضی طور پر رکھا تھا ان سے معذرت کرلی۔ تو اب کون متوسط ہے اور کون غریب جو مودی جی سے اپنی خوش حالی بیان کررہا ہے؟
2014ء میں مودی جی نے ایک بار بھی نہیں کہا تھا کہ ہر گھر میں شوچالیہ بنے گا اور کھیتوں میں کوئی قضائے حاجت کے لئے نہیں جائے گا اور نہ یہ کہا تھا کہ ہر گھر میں شہر ہو یا گاؤں گیس کنکشن دیا جائے گا اور نہ یہ کہا تھا کہ ہر آدمی کا بینک اکاؤنٹ کھلے گا اور بغیر پیسے کے کھلے گا نہ یہ کہا تھا کہ یوگا دیوس منایا جائے گا۔ ہاں یہ ضرور کہا تھا کہ 15-15 لاکھ روپئے سب کو ملیں گے ہر چیز سستی ہوگی ہر آدمی کو روزگار یا نوکری ملے گی ہر گھر بجلی ہر کھیت پانی ملے گا اور اچھے دن آئیں گے۔ اور انہوں نے یہ ضرور کہا تھا کہ پاکستان کو اس کی ہی زبان میں جواب دیا جائے گا۔ لیکن دو سال ہوئے جب سرجیکل اسٹرائیک فوج نے کیا تھا۔ جو فوج کا کارنامہ تھا اور وہ پاکستان کے مقبوضہ کشمیر میں ہوا تھا۔ اب اسے پرانے نوٹ کی طرح کیش کیا جارہا ہے۔ اور ارون شوری جیسے پرانے بی جے پی لیڈر اور مشہور صحافی اسے فرضیکل اسٹرائیک کہہ رہے ہیں۔ وہ واقعی ایک کارنامہ تھا لیکن ایسے کارنامہ پر کیا فخر کرنا جس سے نہ پاکستان رویا نہ اس نے سلامتی کاؤنسل یا اقوام متحدہ میں اس کی شکایت کی اور نہ یہ کہا کہ ہم اس سے بڑا سرجیکل اسٹرائیک کریں گے بلکہ اس نے کہا کہ ہندوستان جھوٹ بول رہا ہے۔ ہمارے ملک میں کچھ بھی نہیں ہوا۔
وزیر مالیات نے گذشتہ سال کہا تھا کہ دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں میں بڑے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں ہندوستان آنے کیلئے بستر باندھے بیٹھے ہیں۔ وہ صرف اس لئے نہیں آرہے کہ ہندوستان میں کئی طرح کے ٹیکس ہیں۔ ہم نے صرف ایک ٹیکس جی ایس ٹی ان کو پیش نظر رکھ کر بھی کیا ہے اب ایک سال ہوگیا۔ ہوسکتا ہے کچھ کارخانے اور فیکٹریاں آگئی ہوں اور ہمیں نہ معلوم ہوں۔ اور اگر نہیں آئیں تو پھر وزیر مالیات کو اسے واپس لینے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔
وزیراعظم اور وزیر مالیات دونوں نے کہا تھا کہ جی ایس ٹی لگنے سے ہر چیز کی قیمت کم ہوجائے گی۔ اللہ میرے بیٹوں کو سلامت رکھے مجھے کسی چیز کے بارے میں وہ نہیں معلوم ہونے دیتے کہ کیا بھاؤ ہے؟ صرف میری وہ دوائیں جو دل کے لئے اور ٹانگ کیلئے دی جاتی ہیں وہ رات اور دن میں آٹھ ہیں جو برسوں سے آرہی ہیں اور ان کے بارے میں ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ جب تک سانس چلے گی اس وقت تک دوائیں چلیں گی۔ وہ ہر مہینے آتی ہیں۔ جون 2017 ء میں وہ 1250/- روپئے کی تھیں اس کے بعد وہ اب 1430/- روپئے کی آتی ہیں۔ کیش میمو میں ایک کالم جی ایس ٹی کا بڑھا ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام ٹیکس جو پہلے تھے وہ بدستور ہیں اور جی ایس ٹی مزید ہے۔
میری دیکھ بھال کیلئے جو بچی میرے پاس رہتی ہے اس نے ایک سوتی سوٹ کا کپڑا خریدا تھا 600 روپئے کا۔ مجھے بھی وہ پسند آیا اس سال میں نے کہا اس میں کاہی ایک سوٹ اور لے آؤ وہ لائی اور بتایا کہ اب 700 روپئے کا ہوگیا۔ میں نے یاد دلایا کہ آپ کی دکان سے ہی میں 600 روپئے کا لے گئی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ جی ایس ٹی کی وجہ سے سو روپئے بڑھ گئے۔ حیرت اس پر ہے کہ کپڑے پر پانچ فیصدی جی ایس ٹی تھی تو سو کیسے بڑھ گئے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ شراب اور پیٹرول یا ڈیزل پر جی ایس ٹی کیوں نہیں ہے؟ ان حالات میں اگر وزیراعظم یہ کہہ کر ووٹ مانگیں کہ انہوں نے ملک کو بنا دیا تو وہی ووٹ دے گا جس کی آنکھ نہیں ہوگی صرف کان ہوں گے۔(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 07؍جولائی2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا