English   /   Kannada   /   Nawayathi

موٹاپا۔۔۔زندگی کیلئے بچاؤضروری

share with us

ڈاکٹر نذیر مشتاق

ایک مشہور قول ہے ’’کم کھانا صحت ، کم بولنا حکمت اور کم ملنا عافیت‘‘۔ اسی ایک قول پر پوری طرح عمل کرنے سے انسان جسمانی ، ذہنی اور سماجی طور صحت مند رہ سکتاہے۔ دْنیا بھر کے معالجین اس بات پرپوری طرح متفق ہیں کہ زیادہ کھانا بیماری کی جڑ ہے۔ خصوصاً امرا ء4 کاطبقہ ایسا ہے جو شیریں ، روغنی اور مرغن غذائیں(وازہ وان)زیادہ استعمال کرتاہے۔ آج کل کے دور میں ہمارے معاشرہ میں لوگ کام کم اور آرام زیادہ کرتے ہیں، دفتروں اور گھروں میں بے کار بیٹھے رہنا ہمارے مشاغل میں شامل ہے۔چندقدم بھی گاڑی کے بغیر نہ جانا اور محنت ومشقت سے جی چرانا ہمارے روزمرہ کے معمولات میں شامل ہواہے۔ ہم سب (بالخصوص ہماری عورتیں) اب زیادہ تر آرام و آسائش کی زندگی گذارتی ہیں۔ گھر کے کاموں میں دلچسپی لینے کی بجائے ، زیادہ تر وقت ٹی وی کے سامنے گذارتی ہیں اور اس دوران ان کے ہاتھوں اور منھ میں لگاتار رابطہ جاری رہتاہے ، سکول جانے والے بچے ہوم ورک کے علاوہ ٹی وی کے سامنے وقت گزارتے ہیں۔ کھیل کود اور ورزش میں نفی کے برابر حصے لیتے ہیں۔۔۔نتیجتاً اْن کے جسم پر چربی بڑھنے لگتی ہے ، ان کا وزن بڑھ جاتاہے ، کولیسٹرول کی زیادتی سے دورانِ خون میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ جسم کے مختلف حصوں کو خون مہیا کرنے والے اہم ترین عضو دل کو حد سے زیادہ کام کرناپڑتاہے جس سے اس کے عضلات اور دیگر حصوں پر اضافی بوجھ پڑتاہے اور ناکارہ ہونے کی وجہ سے قبل ازوقت اپنے کام سے سبکدوش ہوجا تا ہے اور موت کے سائے سر پر منڈلانے لگتے ہیں ۔۔۔ کھانے پینے میں بے اعتنائی ہمیشہ کیلئے انسان کو مریض بنا دیتی ہے۔ کشمیری قوم کھانے پینے کے معاملے میں حد سے زیادہ بے اعتنائی برتنے میں مشہور ہے۔گوشت اور دوائیوں کی جتنی مقدار اس ریاست میں استعمال ہوتی ہے ، ہندوستان یا دنیا کے کسی کونے میں اسکی نظیر نہیں ملتی۔ صحت بخش اور مفید اشیائے خوردنی (مثلاً تازہ سبزیاں اور میوہ جات) کا استعمال اس دور میں بہت کم ہوتاہے۔۔۔علاوہ ازیں کھانے پینے کے معاملے میں ہم لوگ حد سے زیادہ لاپروا ہ اور غافل ہیں۔کھانے پینے کے معاملہ میں ہم وقت اور مقدار کو کبھی ملحوظ نظر نہیں رکھتے۔ شاید اسی لئے یہاں ہرکوئی ہروقت کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوتاہے اور ہمارے اسپتال ، کلینک اور ڈاکٹروں کے مطب کچھا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔ روایت ہے کہ ایک طبیب یمن سے عرب آیا تاکہ مسلمانوں کی صحت کی دیکھ بھال کرسکے اور ان کو جسمانی بیماریوں سے نجات دلائے۔ یہ طبیب وہاں چند ماہ قیام پذیر رہا مگر اس تمام عرصہ میں اسکے پاس ایک بھی بیمار علاج کی غرض سے نہ آیا۔ وہ بہت حیران ہوا آخر ایک دن وہ امیر عرب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرب کے لوگوں کی تندرستی کا راز دریافت کیا۔ امیر عرب نے جواب دیا’’یہاں کے لوگ قانون اور ضابطے کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں وہ بھوک لگنے پر غذا استعمال کرتے ہیں اور مقررہ وقت پر سوتے ہیں ، وہ کم کھاتے ہیں اور کم سوتے ہیں ، اس لئے بیماریوں سے محفوظ ہیں ‘‘۔
ہمار ے ہا ں صحت کے معاملہ میں لوگ کسی ضابطہ اور قانون کی پروا نہیں کرتے ہیں۔’’صحت ‘‘ ہمارے معاشرہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔ عام لوگ طبی اِداروں سے وابستہ افراد ، معا لجین اور حکومت کوئی بھی طبی قوانین اور اصولوں پر عمل کرنے کی مقدور بھر کوشش نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ کہ مثبت صحت یا تندرستی یہا ں کے لوگوں کے لئے بس ایک سراب ہے۔ میں تو بلاجھجک یہ کہوں گا کہ ہر کشمیری ایک ’’بیمار زندگی ‘‘ گزار رہاہے۔
امریکہ ،ہندوستان یا دیگر ممالک کی طرح کشمیر میں بھی موٹاپا اب ایک وبائی صورت اختیار کر چکاہے۔یہ ایک خطرناک ، اذیت ناک اور جان لیوا بیماری ہے جو بڑی سرعت کے ساتھ عورتوں اور سکولی بچوں کو اپنی گرفت میں لیتے جارہی ہے۔ یہ بیماری ہمارے سماج میں اسلئے عام ہورہی ہے کہ ہمارا طرزِ زندگی میں ایک ایسا بدلا? آیا ہواہے جس میں عیش وآرام زیادہ اور محنت ومشقت کم ہے۔ ہماری قوم کے لوگوں کی زندگیوں میں جہاں عجیب وغریب خرابیوں اور بے اعتدالیوں نے جنم لیا ہے وہیں ہم لوگ سستی اور کاہلی جیسی بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ 
کوئی بھی معالج ،حکیم یا محقق اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ موٹاپا ایک ایسی بیماری ہے جو انسانی جسم میں بے شمار بیماریوں اور پیچیدگیوں کو جنم دیکر مریض کو نہ صرف اپنے لئے بلکہ گھروالوں اور سماج کے لئے بھی ایک بوجھ بنانے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔۔۔یہ بیماری کیوں اور کیسے وجو دمیں آتی ہے، یہ ایک ایسا پیچیدہ سوال ہے جس کے جواب کی تلاش میں محققین سرگردان ہیں۔۔۔سیدھے سادھے الفاظ میں کہا جاسکتاہے کہ موٹاپا جسم میں حراروں کے میزان میں بے اعتدالی سے وجود میں آتاہے۔جب غذا سے حاصل شدہ اضافی حرارے بدن میں ایک طویل مدت تک ’’ذخیرہ ‘‘ ہوتے جاتے ہیں تو یہ اضافی حرارے چربی (ٹرائی گلیسرائیڈ)کی صورت میں مختلف اعضاء4 میں جمع ہوتے ہیں۔ یعنی اگر ایک انسان صرف کھاتا پیتارہے اور حرکت نہ کرے تو غذا سے حاصل شدہ حرارے’’خرچ‘‘ نہیں بلکہ صرف جمع ہونگے اور یہ جمع شدہ حرارے دھیرے دھیرے’’موٹاپا‘‘ کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ پْرخوری(اور پھر ورزش نہ کرنا) ہمیشہ صحت کے لئیمضررساں ہے۔ دنیا بھر کے ڈاکٹروں اور قدیم اطباء4 کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ بغیر بھوک کے کھانابیماریوں کی چابی ہے اور بھوک لگنے پر کھانا صحت کی کنجی ہے۔
موٹاپا بذات خود ایک بیماری ہے مگر یہ انسانی جسم میں دیگر بیماریوں مثلاً ذیابیطس، بْلند فشار خون،عوارضِ دل وجگر ، کیسہ صغرا میں پتھری ، اضافی کولیسٹرول ، ورم معدہ ، اعصابی تنا? ، دماغی کمزوری ، جوڑوں کا ورم اور کمزوری ، انٹرویوں کی کمزوری وغیرہ کو جنم دیتی ہے یعنی بالفاظ دیگر موٹاپاانسان کو جسمانی اور ذہنی طور ناکارہ بنا دیتاہے۔ مریض چستی اور پھرتی سے روزمرہ کے کام انجام نہیں دے سکتا ہے اسلئے وہ تلاش معاش اور حصول زر کے معاملہ میں بھی عقب رہ جاتاہے یعنی وہ اقتصادی طور بھی پیچھے رہ جاتاہے اور اس طرح احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر ذہنی بیماری ڈپریشن کا شکار ہوکر زندگی کی نعمتوں اور لطافتوں سے محروم ہوکر موت کی آرزو کرنے لگتاہے۔
موٹا اور کینسر:
امریکن کینسر سوسائٹی کی نولاکھ افراد پر سولہ برس کی طویل مدت تک انجام پانے والی ایک تازہ ترین تحقیق شائع ہوئی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ موٹاپا میں مبتلا۲۵ فیصدمرد اور ۲۶ فیصد عورتیں مختلف سرطانوں میں مبتلا ہوکر موت ک گلے لگا سکتی ہیں۔
گزشتہ تحقیقات سے ثابت ہوچکاتھاکہ موٹاپا جیسی بیماری سے مریض پستان، بچہ دانی ، رودہ (Colon) مقعد (Rectum) ،گردوں ، کیسہ صغرا اور خوراک کی نالی کے سرطان میں مبتلا ہوسکتاہے مگر اب تازہ ترین اطلاعات اور تحقیق کے مطابق موٹاپا مریض کے لئے ، دھانِ رحم ، بیضہ دانی ، لبلبہ ،جگر ،معدہ اور پروسٹیٹ کے سرطانوں کو بھی ’’دعوت‘‘ دے سکتاہے۔ موٹاپا میں مبتلا مریضوں کے اجسام میں پروجسٹرون ، ایسٹروجن اور انسولین ، ہارمونوں کی اضافی مقدار موجود ہونے کی وجہ سے مختلف سرطانوں میں مبتلا ہونے کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ 
اگرآپ موٹاپا جیسی بیماری کے چنگل میں پھنس چکے ہیں تو گھبرائے نہیں۔ صبر وہمت سے کام لیجئے اور ۔۔۔
اپنا طرزِ زندگی بدل دیجئے۔ ایک منظم ومرتب زندگی گزارنے کی عادت ڈالیں۔ صبح جلدی سے جاگ کر عبادت کرنے کے بعد ورزی کریں۔ کبھی کبھی آپ مایوسی ، افسردگی کے شکار ہو نگے مگر آپ مصمم ارادہ کرلیں اور ’’گرنے ‘‘کے بعد پھر سے اٹھیں اور اپنے آپ کو اس ’’دشمن‘‘ سے چھٹکارا دلانے کی ہرممکن کوشش کریں۔
ایک ایسا غذائی چارٹ بنائیں جس پر عمل کرنے میں دشواری محسوس نہ ہو۔ اپنی غذا میں تازہ سبزیاں اور میوہ جات زیادہ شامل کریں۔ جتنا چاول کھاتے تھے اس کی مقدار آدھی کرلیں ،پلیٹ میں دوبارہ کھانا نہ لیں۔ ریشہ والی غذا?ں کا وافر مقدار میں استعمال کریں۔
درمیان میں کچھ کھانے کو جی چاہے تو صرف پھل یا سبزی (گاجر مولی، ٹماٹر ، کھیرا وغیرہ) کھائیں۔ خود کو ہر وقت مصروف رکھیں۔ غذا کی بجائے کسی اور چیز کے بارے میں سوچیں ،ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے اپنا منھ بند رکھیں۔’’بازاری چیزیں‘‘ کھانے سے پرہیز کریں ، کھانا پکانے کے دوران بار بار چکھنے کی عادت ترک کریں ، چائے یا دیگر مشروبات شکر کے بغیر نوش کریں۔ سالن میں نمک کی مقدار نصف کریں۔
وازہ وان سے لطف اندوز ہونا چھوڑ دیجئے۔ دعوت قبول نہ کریں یا اگر مجبوری ہو تو جاکر کچھ مشروب وغیرہ پی کر واپس لوٹیں۔ 

اپنی پسند کی اشیائے خوردگی گھر میں موجود نہ رکھیں۔ہر قسم کی مٹھائی کھانے سے منھ موڑلیں۔
موٹاپا سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنے گھر والوں ، دوستوں اور رشتہ داروں کی تائید و حمایت حاصل کریں۔ جب آپ وزن کم کرنے کا ہدف مقرر کریں تو اسکا کھلم کھلا اعلان کریں تاکہ دوسرے بھی جان لیں کہ آپ نے کسی مہم کا آغاز کیا ہے۔ ایسا کرنے سے آپ کو خاطر خواہ فائدہ ملے گا۔ 
اپنا طرزِ زندگی ، یکسر بدل دیں ،سگریٹ نوشی ،شراب نوشی اور از خود دوائیوں کے استعمال سے مکمل پرہیز کریں۔ 
باقاعدگی سے ورزش کریں۔
اپنے معالج سے تغذیہ ، ورزش اور دیگر معاملات کے بارے میں ضرور مشورہ کریں۔ 
اگر آپ موٹاپا جیسی خطرناک اور اذیب ناک بیماری میں مبتلا ہیں تو آج ہی سے اس سے نجات پانے کے لئے کمربستہ ہو جائیں۔ وقت تو لگے گا مگر آپ ہمت اور حوصلے سے اپنا مشن جاری رکھیں کیونکہ دنیا میں کوئی بھی چیز ناممکن نہیں اور یہ تو آپ کی اپنی صحت ،اپنی زندگی کا سوال ہے۔ اسلئے اس بیماری سے نجات پانے کی ہرممکن کوشش کریں اور دیکھیں کچھ عرصہ بعد آپ کی زندگی میں ایک نئی اور رنگین بہار کاآغاز ہوگا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
05؍ جولائی 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا