English   /   Kannada   /   Nawayathi

اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا

share with us

قرآن میں ہو غوط زن اے مرد مسلماں

ڈاکٹر سید ظفر محمود

بیسویں صدی کے نصف اول میں مسلمانوں کی مذہب سے وابستگی کی کیفیت کافی کمزور پوزیشن میں تھی۔ عملی زندگی میں مذہب کا کوئی رول گویا نہیں رہ گیا تھا اور مذہبی عقائد پر بھی لاعلمی، اور روایت پسندی کا پردہ پڑا ہوا تھا۔ لیکن بیسویں صدی کے نصف آخر سے یہ صورت حال کچھ کچھ بدلنا شروع ہوئی ۔ اصلاحی تحریکوں اور علمی تنظیموں کی سرگرمیوں سے بیداری اور آگہی کا ایک سلسلہ شروع ہوا ور آج اللہ کے فضل سے کافی کچھ بہتری کے آثار نظڑ آتے ہیں ۔ تاہم ابھی بھی صورت حال کی یہ تبدیلی بڑے محدود دائرے میں ہے۔ بہت بڑی تعداد ابھی بھی ایسے لوگوں کی ہے جو قرآن کو جزدان میں ہی دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں اور مذہب ان کے نزدیک نماز، روزہ ، حج اور زکوٰۃ کا ہی نام ہے ۔ عملی زندگی میں مذہبی تعلیمات کا کوئی رول وہ نہیں دیکھتے اور یہ خیال رکھتے ہیں کہ سائنس و ٹکنالوجی کے اس زمانے میں مذہبی اصولوں کو اختیار کرنا خود کو سائنس و ٹکنالوجی میں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ترقی سے پیچھے رکھنا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سائنس اور مذہب ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ان میں تضاد ناگزیر ہے۔ 
ایسا اس لئے ہوا ہے کہ ہم مسلمانوں نے کئی پشتوں سے قرآن کریم کو معنیٰ اور تفسیر کے ساتھ باقاعدہ سمجھ کر پڑھنے کا سلسلہ بند کردیا ہے۔ ہم دنیا کی زندگی میں اس قدر کھوگئے ہیں کہ ہمیں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی بات بھی بہت بھاری معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن ہماری یہ غفلت شیطان کو پسند ہے اور وہ اس بات سے خوش ہے کہ ہم اپنی زندگی کے بنیادی سرچشمے سے ہی کٹے ہوئے ہیں ۔ علامہ اقبال نے شیطان کی اس چال کا نقشہ اپنی نظم ابلیس کی مجلس شورٰی میں کھینچا ہے ۔ وہ شیطان اعظم ابلیس کی اپنے ساتھی شیطانوں کو تلقین یوں نقل کرتے ہیں:
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائینات
قرآن ہمیں تسخیر دنیا اور تسخیر کائینات کی ترغیب دیتا ہے ۔ یہ ہمیں ایک ایسی زندگی کی طرف رہنمائی دیتا ہے جس میں حرکت ہو، جو دنیا کو رب حقیقی کی مرضی کے مطابق بنانے ، سنوارنے اور ترقی دینے کی طرف گامزن ہو۔ شیطان چوں کہ دنیا میں اللہ کی مرضی کا قیام نہیں چاہتا ، اس لئے وہ اس امت کی بیداری سے ہمیشہ ڈرتا رہتا ہے جس کے پاس قرآن ہے ، کہ کہیں یہ امت زندگی کے اس سرچشمے سے صحیح معنیٰ میں فیض یاب ہوکرشیطانی چالوں کا ناکام بنانے اور اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے مشن میں نہ لگ جائے۔ 
اس کے ہر نکتے میں پوشیدہ ہیں اسرار حیات 
رہنمائے فطرت انساں ہے قرآن مجید
اس لئے ہم مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کی آنکھ سے ہم دنیا کو دیکھیں گے تو ہمیں دنیا ویسی ہی نظر آئے گی جیسی کہ وہ واقعی میں ہے۔ جبکہ قرآن سے بے نیازی کی وجہ سے ہم دنیا کو ویسا سمجھتے ہیں ، جیسی کہ و ہ حقیقت میں نہیں ہے۔
کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں
نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی
یہاں نگاہ شوق سے علامہ اقبال کی مراد ہے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق ۔ ظاہر ہے کہ شوق کی یہ کیفیت اللہ کی ذات و صفات کی معرفت حاصل کرنے سے ہی پیدا ہوگی ، اور یہ معرفت ہمیں قرآن سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ سے ملاقات کا شوق کرنے کی ہمت وہی شخص کرے گا جو اس دنیا میں اللہ کا بند ہ بن کر رہے گا۔ یعنی اس کے بتائے ہوئے راستے کو سمجھ کر اس پر چلنے کی تگ و دو کرے گا۔ جس کے بھروسہ پر اسے یہ امید ہوگی کہ اس کا رب اس سے راضی ہو اوراسے اپنی آغوش رحمت میں لینے والا ہو۔اللہ تعالیٰ خود بھی بندوں کو اپنے دیدار کا اشتیاق دلاتا ہے اور اس دیدار کا شرف حاصل کرنے کے لئے انہیں اپنے اندر صلاحیت نظر پیدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ 
میرے دیدار کی ہے ایک ہی شرط
کہ تو پنہاں نہ ہو اپنی نظر سے
یعنی انسان کو اگر اللہ کے دیدار کی آرزو ہے تو وہ خود اپنا مشاہدہ کرے، اپنی ذات کا شعور حاصل کرے ، اپنے وجود پر غور کرے اور اپنی ہستی کو سمجھے ۔ 

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
علامہ اقبال اس شعر کے ذریعے بندہ انساں کو اس بات کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ اسے خود اپنے دل کی آواز پر دھیان دینا چاہئے ، جو اسے زندگی کی حقیقت کا پتہ دیتا ہے۔قرآن کریم کو جب ہم سمجھ کر پڑھیں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اسلام صرف نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ تک ہی محدود نہیں ہے ۔ یہ تو مجموعی زندگی کو ایک مخصوص نظام کے تحت ڈھالنے کا نام ہے ۔ ہر معاملے میں اللہ کی اطاعت اور بندگی اس نظام کی روح ہے اور یہ عبادتیں اس نظام کے بنیادی ستون ہیں۔اگر روح نکل جائے اور نظام زندگی مفلوج ہوجائے تو پھر یہ عبادتیں بھی بے کیف اور بے نتیجہ ہوجاتی ہیں۔اسی لئے علامہ اقبال حسرت و افسوس کا اظہا کرتے ہوئے کہتے ہیں 
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہوکر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
قرآن ہمیں ایک کارآمد اور حرکت و عمل پر مبنی زندگی کی ترغیب دیتا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کے ہر منٹ اور ہر منٹ کے ساٹھوں سیکنڈوں کو کارآمد بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انہیں مفید اور مثبت کاموں میں استعمال کرنا چاہئے ۔ تاکہ جب اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمارا دفتر عمل پیش ہو تو ہمیں ایک امید اور اطمینان رہے۔ ہم اندیشے اور غم سے محفوظ ہوں اور اللہ تعالیٰ کے جلال اور غضب کے بجائے اس کی رحمت و شفقت کے ہم حق دا ر بن سکیں۔
اسلام ہمیں حرکت و عمل پر بھروسہ او رتقدیر پر ایمان رکھنا سکھاتا ہے۔ یعنی بغیر حرکت و عمل کے محض تقدیر کے بھروسے پر بیٹھنا مومن کا شیو ہ نہیں۔ ہاں اپنی حرکت و عمل کا نتیجہ ہماری تقدیر کے مطابق ہمارے سامنے آتا ہے ۔ اگر ہماری زندگی ساکت ہے ، اس میں حرکت و عمل کی لہریں نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک مسلمان کی زندگی نہیں ہے۔ بقول علامہ اقبال اللہ تعالیٰ بندہ مومن کو یو ں تنبیہ کرتے ہیں
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبس ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے
یعنی تونے خود دنیا میں کیا سعی کی۔ نفس امارہ کو مغلوب کرنے کے لئے تو نے کیا کیا۔ اگر تو نے اس کے لئے کوشش کی ہوتی تو تیری مجبوری میں مختاری کا رنگ پیداہوجاتا۔ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے سے انسان کو یہ اشارے ملتے ہیں کہ وہ کس سمت میں اپنی تحقیق کو موڑے ۔ بقو ل اقبال:
کبھی دریا سے مثل موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر
اقبال نے قرآنی ترغیبات کو شاعرانہ انداز بیان کے ذریعے اللہ کے بندوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مومن کو چاہئے کہ وہ فطرت کا مطالعہ کرے اور تحقیق و انکشافات کا سلسلہ قائم کرکے ایجادات و اختراعات سے نسل انسانی کو مستفید کرے۔ ساتھ ہی مومن کو تزکیہ نفس اور مجاہد ہ کے ذریعے مثالی انسان بن کر دوسرے انسانوں کو سیدھے راستے پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس عظیم مقصد کے لئے ہر فرد کو متحرک ہونا ہوگا اور خود کو ملت و باقی انسانیت کے لئے وقف کرنا ہوگا۔ 
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
محروم ر ہا دولت دریا سے وہ غواص
کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا
ملت کی ترقی کا دارومدار افراد کی کوششوں پر ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو ستارا بن کر ملت کے مقدر کو چمکانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ جو غوطہ خور دریا کے کنارے پر بیٹھامزے لیتا رہے گا 

وہ کبھی دریا میں سے موتی نکال کر نہیں لاسکتا۔ آئیے ہم اپنے بچوں کو بھی معنیٰ اور تفسیر کے ساتھ پابندی سے قرآ ن پڑھنے کی عادت ڈلوائیں۔ تاکہ ہمارے بچے بھی ملت کے مقدر کا ستارا بن کر چمکیں اوراللہ کے حضور بھی کل ہمیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ 
)مضمون نگار زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا کے صدر ہیں-

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
05؍ جولائی 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا