English   /   Kannada   /   Nawayathi

اسرائیل کیخلاف قرار داد کا دکھ ،امریکا نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے دستبرداری کا اعلان 

share with us

اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق منافقانہ ہے اور انسانی حقوق کا مذاق بنا رہی ہے،اقوام متحدہ میں امریکی مندوب کا الزام 

نیویارک:20؍جون2018(فکروخبر/ذرائع) امریکا نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ۔اقوام متحدہ کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ امریکا، اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی رکنیت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرچکا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے حکام نے بتایا کہ امریکا نے کونسل پر اسرائیل سے جانبدار رویہ اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہوئے رکنیت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔امریکہ نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ممبران پر منافق ہونے اور کونسل کے اسرائیل مخالف ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کونسل کی ممبرشپ چھوڑ دی ہے۔امریکہ کی اقوام متحدہ میں سفیر نکی ہیلی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق منافقانہ ہے اور انسانی حقوق کا مذاق بنا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق 2006 میں قائم کی گئی تھی اور کونسل کو ان ممالک کو ممبران بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جن ممالک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سوال اٹھتے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ایک بیان میں امریکی فیصلے کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کونسل کا ممبر رہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے امریکی فیصلے کو مایوس کن لیکن حیران کن نہیں قرار دیا ہے۔امریکہ کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ کی غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والے تارکین وطن کو ان کے بچوں سے علیحدہ کرنے کی پالیسی کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔امریکہ کے اس فیصلے سے ان ممالک کو پریشانی ہو گی جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے امریکہ کی جانب دیکھتے ہیں۔امریکہ کے ہمیشہ ہی سے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہے ہیں۔ بش انتظامیہ نے 2006 میں اس کونسل کے قیام پر اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا۔اس وقت اقوام متحدہ میں امریکی سفیر جان بولٹن تھے جو اس وقت صدر ٹرمپ کے نیشنل سکیورٹی کے مشیر ہیں۔امریکہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کا دوبارہ ممبر 2009 میں اوباما انتظامیہ میں ممبر بنا۔امریکہ کے کئی اتحادیوں نے اس پر کونسل میں رہنے پر زور دیا ہے۔ وہ ممالک امریکہ کی اقوام متحدہ پر تنقید کے حق میں ہیں ان کا بھی خیال ہے کہ امریکہ کونسل میں رہ کر اصلاحات کے لیے کام کرے۔نکی ہیلی نے کونسل کی ممبر شپ چھوڑنے کا اعلان وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ہمراہ مشترکہ پریش کانفرنس میں کیا۔نکی ہیلی نے کونسل کو سیاسی تعصب کی گندگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں اس بات کو بالکل واضح کرنا چاہتی ہوں کہ اس قدم کا مقصد انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنا نہیں ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ سال نکی ہیلی نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ماننا مشکل ہے کہ اسرائیل کے خلاف قراردادیں منظور کی جاتی ہیں لیکن وینزویلا کے خلاف ایک قرار داد پر بھی غور نہیں کیا جاتا جہاں درجنوں مظاہرین کو قتل کر دیا گیا۔انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل ایک واحد ملک ہے جو مستقل طور پر اس کونسل کے ایجنڈے پر ہوتا ہے۔سنہ 2006 میں اس کونسل کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی جگہ قائم کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کمیشن میں ان مملاک کو ممبران بنایا گیا جن کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سوالیہ نشان تھے۔اس کونسل کے 47 ممبران تین سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ کونسل کا مقصد قراردادوں کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالیوں پر روشنی ڈالنا ہے تاہم اس کونسل کو بھی اس کے ممبران کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔سنہ 2013 میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس وقت آواز اٹھائی جب چین، روس، سعودی عرب، الجیریا اور ویتنام کو ممبر منتخب کیا گیا۔واضح رہے کہ اس سے قبل نیکی ہیلے متعدد مرتبہ اقوام متحد کی کونسل برائے انسانی حقوق سے دستبرداری کی دھمکی دے چکی تھیں۔اقوام متحدہ حکام نے تصدیق کی کہ وہ امریکا کی جانب سے انسانی حقوق کی تنظیم سے علیحدگی کے حتمی فیصلے کے اعلان کا انتظار کررہے ہیں۔دوسری جانب ہیومن رائٹس واچ نے کڑی تنقید کی ہے کہ امریکا کی جانب سے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق سے دستبرداری کی صورت میں دیگر ممالک پر دبا بڑھ جائے گا جبکہ دنیا میں سنگین نوعیت کے انسانی بحران جنم لے چکے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے امریکی ارادہ ظاہر ہونے کے بعد امید ظاہر کی کہ امریکا کونسل کا ممبر رہے۔اس حوالے سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر رید رعد الحسن نے امریکی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے متوقع قرار دیا۔علاوہ ازیں خیال رہے کہ ماضی میں بھی امریکا اور اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے درمیان تعلقات میں کشیدگی رہی ہے، بش انتظامیہ نے 2006 میں کونسل کے قیام پر اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا۔اس وقت اقوام متحدہ میں امریکا کے مستقل مندوب جان بولٹن تھے جو اس وقت امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نیشنل سیکیورٹی کے مشیر بھی ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا