English   /   Kannada   /   Nawayathi

تشدد،مہذب سماج کا شیوہ نہیں!

share with us

عارف عزیز(بھوپال)

 دنیا میں تشدد کا رجحان دن بدن بڑھتا جارہا ہے جو ہر مذہب معاشرے خاص طور پر کسی جمہوری سماج کے لئے ایک زبردست خطرہ ہے،کیونکہ جب انسانی تمدن اپنے ابتدائی دورمیں تھا تو اس میں جنگل کا قانون رائج تھایعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول دنیا پر نافذ تھا جو جب اور جہاں چاہتا کمزور کی جان ومال اور عزت وآبرو پر ہاتھ ڈال دیتا، اس کا حق غصب کرلیتا اس کی بے بسی اور مجبوری سے فائدہ اٹھاتا اور کسی کی مجال نہ تھی اس کا ہاتھ پکڑ کر اس ظلم سے اس کو روک سکے سوائے اس کے کہ اس سے زیادہ کوئی زور آور شخص اس کے مدمقابل آجائے ، یہ قانون صرف جنگل میں ہی چل سکتا تھا کیونکہ وہاں صرف وحشی درندوں کا راج ہوتا جو زیادہ طاقتور ہوتے اور جو کمزور ہوتے انہیں اپنی بقاء کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی لیکن جب سے انسانی تمدن نے ترقی کی اور انسان نے مہذب انسانوں کی طرح رہنا بسنا شروع کیا تو اس کے بعد انسان کے بنیادی اقدار کو فروغ حاصل ہوا اور کمزوروں کے لئے جینے اور پھلنے پھولنے کے حق کو تسلیم کیا گیا، معاشرہ میں ظلم واستحصال اور ناانصافی کو ختم کرنے ظالم کا ہاتھ پکڑنے اور خطاکاروں کوسزا دینے کا طریقہ رائج ہوا۔
لیکن آج کے ترقی یافتہ دور کی بدقسمتی یہ ہے کہ مادی ترقی نے انسانیت کو اس بلند مرتبہ سے نیچے گرادیا ہے اس کا اخلاق اور روحانی وجود مادی ترقی کی چمک ودمک کے آگے ماند پڑ گیا ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ خود غرضی ، مفاد پرستی، طبقاتی کشمکش، نسلی امتیاز، گروہی عصبیت، ظلم وناانصافی اور سب سے بڑھ کر تشدد کے رجحان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہر طاقتور کمزور کے کندھوں پر سوار ہوکر اوپر اٹھنے کی کوشش میں مصروف ہے اور اس بات کی ذرا بھی اس کو فکرنہیں کہ اس کے اس عمل سے کس کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ کس کا حق تلف ہورہا ہے ، کس پر بے جا ظلم ہورہا ہے اور کیونکر انسانی اقدار کا جنازہ اٹھ رہا ہے۔ 
تشدد کا یہ رجحان آج ہمارے ملک میں بھی نہایت تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے جو ایک تشویشناک بات ہے کیونکہ ہمارے ملک میں جمہوری طرزِ زندگی رائج ہے جس کا خاصہ ہے کہ اختلاف رائے کو پوری فراخ دلی سے برداشت کیا جائے اور باہمی اختلافات کو پوری خندہ پیشانی سے گفت وشنید کے ذریعہ طے کیا جائے، ہمارے ملک میں شہریوں کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریں اور ان کے حصول کے لئے احتجاج کی راہ بھی اپنائیں لیکن یہاں کی جمہوری اقدار کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا یہ احتجاج پرامن ہو اور حقیر سیاسی مفادات کے لئے وہ تشدد کا مظاہرہ نہ کریں۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو تشدد کے اس ملک گیر رجحان کو بڑھاوا دینے کی سب سے زیادہ ذمہ داری تین باتوں پر نظر آتی ہے ایک اقتصادی نابرابری دوسرے سماجی ناانصافی اور تیسری فرقہ وارانہ فسادات کے طویل سلسلہ پر قومی ضمیر کی بے حسی، کیونکہ سماجی تفریق وتقسیم کے باعث ہمارے یہاں عرصہ سے سیاسی واقتصادی طاقت چند مخصوص طبقوں میں گردش رہی ہے۔ آزادی کے بعد کی ترقی سے بھی زیادہ فائدہ ان ہی طبقوں نے اٹھایاہے۔ پہلے عام ناخواندگی کے سبب اس خلش کو زیادہ محسوس نہیں کیاجاتا تھالیکن آج حالات بدل رہے ہیں۔ تعلیم کا دائرہ پھیل رہا ہے، عوام نئے نئے نظریات سے متعارف ہورہے ہیں اور ان کے سامنے معیار زندگی کا ایک دلکش نمونہ ہے اس لئے نئے عہد کا انسان صرف اس وجہ سے کہ ہمیشہ سے یہی ہوتا آتا ہے ہر چیز کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔جب اسے اپنے اندر اٹھنے والے سوالات کا کوئی معقول جواب نہیں ملتا تو وہ ان بندھنوں کو توڑ ڈالنے پر آمادہ ہوجاتا ہے جنہوں نے اس کے لئے زندگی کو نعمت کے بجائے زحمت کا درجہ دے دیا ہے، تشدد کے موجودہ مظاہروں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ یہ ہمارے سماج کا بڑھتا ہوا فرق ہے لیکن اس کی وجہ سے تشدد کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 
دنیا کے تمام مذاہب کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر قابل ذکر مذہب میں ایسی تعلیمات اور ہدایات موجود ہیں جن سے تشدد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور جن میں باہمی اختلافات کو فراموش کرکے خدا کی محبت میں متحد ہونے اور ایک دوسرے کے کام آنے کی تعلیم دی گئی،ہمارا ملک ہندوستان تو شروع سے عدم تشدد کیفلسفہ کا علمبردار رہا ہے یہاں مہاویر ، گوتم بدھ، چشتی، نانک اور آخر میں مہاتماگاندھی نے تشدد کے مقابلہ میں عدم تشدد یا اہنسا کی ضرورت واہمیت پر زور دیا ہے کیونکہ تشدد انفرادی ہو یا اجتماعی ہر حال میں برا اور تباہی وبربادی کا موجب بنتا ہے ، تشدد سے دنیا کے مسائل نہ پہلے کبھی حل ہوئے نہ آج حل ہوسکتے ہیں۔


مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
18جون 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا