English   /   Kannada   /   Nawayathi

نزول قرآن کے مراحل اور وحی کی کیفیت 

share with us

مفتی سیف اﷲسعیدی 

قرآن مقدس کے نزول کے سلسلہ میں کئی مراحل نظر آتے ہیں اور ان مراحل کی طرف خود قرآن مقد س نے ہی اشارہ فرمایا ہے جس سے اسلاف نے استدلال کیا ہے ۔
لوح محفوظ سے آسمان اول کی طرف نزول ہوا یہ نزول رمضان مقدس کی شب قدر میں ہوا اِسی نزول کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ ’’بیشک ہم نے (قرآن مقدس)کولیلۃ القدر میں نازل فرمایا‘‘علامہ سخاوی فرماتے ہیں آسمان اول پر دفعۃًاتارنے میں یہ حکمت تھی کہ فرشتوں کی نظرو ں میں آدمیوں کا مقام بڑھ جائے دوسری آیہ مبارکہ میں اِسی نزول کی طرف اشارہ ہے ۔’’رمضان مقد س کامہینہ جس میں ہم نے قرآن اُتارا ‘‘لوح محفوظ سے آسمان اول یکبار گی لانے میں یہ بھی حکمت تھی کہ قرآن مقدس کوقریب کردیا جائے تاکہ جب رحمتِ باری کادروازہ کھلے تو قرآن اور صاحب قرآن ﷺاکٹھے ظاہر ہوں ۔
دوسری مرتبہ آسمان دنیا سے ۲۳بر س کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا بقدر ضرورت حضور اکرم ﷺپر نازل ہوتا رہا اور متعدد احادیث طیبہ سے ثابت ہے کہ رمضان مقدس میں حضرت جبریل علیہ السلام حضور اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر سارا قرآن مقدس سنایاکرتے تھے ،حاکم بیہقی نے منصور کے طریق پرسعید بن جبیر کے واسطہ سے ابن عباس رضی اﷲتعالیٰ عنہماسے نقل کیا ہے، ابن ابی شیبہؓ نے اپنی کتاب فضائل القرآن میں اسی کی تائید کی ہے قرطبی نے ابن حبان سے اِسی کو ترجیح دی ہے ۔ ’’ابوشامہ کہتے ہیں آسمان دنیا پر نزول قرآن کا وقت بعثت سے قبل معلوم ہوتا ہے یہ احتما ل بھی ہے کہ ظہو ر نبوت کے بعد ہوا ابن عباس کی روایت اس پر دلالت کرتی ہے ،ابن حجر شارح بخاری، احمد اور بہیقی سے نقل کرتے ہیں کہ تورات وانجیل کانزول بھی ر مضان میں ہوا۔ اس سلسلہ میں قرآن مقدس نے دوالفاظ کا ذکر فرمایا ہے ،انزلنا اور نزّلنا ،انزلنا کا معنی ہے یکبار گی اتارنا جیسے کہ لوح محفوظ سے آسمان اول تک ہوا اور نزلنا کا معنی ہے آہستہ آہستہ اتارنا جیسے آسمان اول سے دنیا تک حسب ضرور ت نازل ہوتا رہا بعض جاہل مسیحی مبلغین نے بیک وقت دوصورتوں کا متعدد ہونا بیان کرکے عوا م کو دھوکہ دہی کی کوشش کی مگر جب تک علماء اسلام موجو د ہیں ان کے تمام فریبانہ اندازوں کا پردہ چاک کرتے رہیں گے ۔یہ اعتراض پادری کے ایل ناصر گوجر انوالہ نے اپنے رسالہ مسیحی خادم میں کیا ۔
حضور اکرم ﷺکی عمر مقدس چالیس برس کو پہنچنے سے قبل آپ پر رویاء صادقہ کا زمانہ رہا، جو کچھ رات کو خواب میں دیکھتے وہ صبح کی مانند سچا ہوتا،عالم روحانیت میں جو دور جاہلیت کی تاریک رات تھی۔ وہ زمانہ نبوت کے آغاز کے ساتھ ہی ختم ہوگئی ۔جب قمری مہینہ کی تاریخ کے مطابق آپ کی عمر مقدس چالیس سال ہوئی تو ۱۷رمضان پیر کے دن غار حرا شریف میں دفعۃً ایک فرشتہ اندر آیا اور آپ کو سلام کیا اور پھر کہا اقراء پڑھیے آپ نے فرمایا میں پڑھنے والانہیں حضور خود فرماتے ہیں اس پر فرشتہ نے پکڑ کر مجھ کو شدت سے دبا یاکہ میری مشقت کی کوئی انتہانہ رہی اور اُس کے بعد چھوڑ دیا اور کہا اقرا ء میں نے پھر وہی جواب دیا فرشتہ نے مجھ کوپھر اُسی شدت سے دبایا اور پھر چھوڑ دیا یہ واقعہ تین مرتبہ ہوا ،بعد ازاں آپ گھر تشریف لائے ،بدن مبارک پرلزرہ تھا، آتے ہی حضرت خدیجۃ الکبریٰ سے فرمایامجھ کو کچھ اُوڑ ھاؤ جب کچھ دیر بعد گھبراہٹ دور ہوئی تو آپ نے سیدہ خدیجہ کو پوراواقعہ سنایا اور فرمایامجھے اندیشہ ہواکہ کہیں میری جان نہ نکل جائے ۔
یہ سوال خوامخواہ ذہن میں آتا ہے کہ حضور علیہ السلام نے اپنی عبادت وریاضت کے لئے اس غار کا انتخاب کیوں فرمایا جبکہ قرب وجوار میں اور بھی بہت سے غار موجو تھے ،علامہ آزرقی نے پہلی حکمت یہ بیان کی ہے کہ یہ غار بلندی پر تھا جہاں لوگوں کا اختلاط سے زیادہ محفوظ رہا جاسکتا تھا اور وہاں سے بیت اﷲشریف کی زیارت بھی ہوتی رہتی تھی ،یہ چیزیں دوسرے غاروں میں مفقود تھیں ۔
یہ غار جانب مشرق تھا مادی آفتاب بھی مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور روحانی آفتاب حضرت محمد ﷺنے بھی جانب مشرق کو پسند فرمایا تاکہ توافق بین الشمسین ہوجائے اور یہ واضح ہوجائے کہ جس طرح مادی آفتاب کے ساتھ نظام کائنات وابستہ ہے اسی طرح بلکہ اس سے کہیں درجہ زیادہ روحانی آفتاب سے وابستگی ہے ۔
قرآن مقدس بذریعہ وحی نازل ہوا اور وحی کی متعدد کیفیتیں ہوئی تھیں ،کبھی فرشتہ اس کو گھنٹی کی آواز کی طرح لاتا ہے جیسے صحیح بخاری شریف میں وارد ہواہے ’’کبھی وحی گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے ‘‘حضور اکرم ﷺسے پوچھا گیا کیا یا رسول اﷲنزول وحی کے وقت آپ کو کیا احساس ہوتا ہے فرمایا جھنکار کی آوازیں سنتا ہوں اور اسی وقت خاموش ہوجاتا ہوں اِسے وحی تصلصلی کہتے ہیں ۔
کبھی نبی کریم ﷺکے دل اطہر میں کلام الٰہی پھونک دیجاتی تھی جیسا کہ خود حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا ’’بے شک روح مقدس میرے دل میں پھونکی جاتی تھی ۔‘‘
کبھی فرشتہ انسانی شکل میں حاضرہوتا اور قرآن مقدس سناتا ،ابوعوانہؓ نے فرمایاحضور اکرم ﷺفرماتے تھے وحی کی یہ صورت مجھ پرآسان ترین صورت ہے ۔کبھی فرشتہ اپنی اصلی شکل میں حاضرہوتا اور حضور اکرم ﷺکو قرآن سناتا غار حرا شریف میں فرشتہ اپنی اصلی شکل میں ہی آیاتھااُس کے عظیم جسم نے زمین وآسمان کے مابین کو بھر رکھا تھا حضور علیہ السلام نے حقیقت جبریلی کوبنظرِ غائر ملاحظہ فرمایا ،عارف رومی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں حضور نے تو حقیقت جبریل کودیکھ لیا اور بے خود نہ ہوئے اگر جناب جبریل حقیقت محمدیہ کو دیکھ لیتے تو قیامت تک بے خودہی رہتے ۔
کبھی حامل وحی فرشتہ سونے کی حالت میں آپکے ہاں حاضر ہوتاتھا بہت علماء کرام نے سورہ کوثر کو اِسی قسم کی وحی سے قرار دیا ہے نیز ’’انبیاء کی خواب بھی وحی ہوتی ہے ‘‘کا اصول مسلمہ ہے ۔قرآن مقدس نے سید نا ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کوبیان فرمایاہے ’’اے بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کررہاہوں ‘‘اس خواب کی بات سن کر جناب اسماعیل علیہ السلام نے بلاتامل فرمایا ’’اے والد محترم آپ وہ کرگزرے جسکا آپکو حکم ملا ہے ‘‘تو واضح ہے کہ نبی کوخواب میں ذبح اسماعیل کا حکم دیا گیا ہے یہ وحی منامی کہلاتی ہے ۔کبھی رسول کی حالت بیداری میں خود خالق کائنا ت جل مجدہ ارشاد ات سے نوازتا ہے جیسا کہ شب معراج ہوایابحالت خواب قدوس اپنی زیارت سے نبی کو مشرف فرماتاہے ۔

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ۔ 
12؍ جون 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا