English   /   Kannada   /   Nawayathi

شہد کا وہ مخصوص عنصر دریافت ہوگیا‘ جو بیکٹریا ختم کرتا ہے

share with us

غوث سیوانی

قدیم زمانے سے شہد کی بیکٹیریا ختم کرنے والی اور اینٹی مائکروبیل (Anti Macrobial) خصوصیات دریافت ہوچکی ہیں اورپرانے زمانوں سے روایتی علاج میں شہد زخموں کوٹھیک کرنے کے لئے استعمال کیاجارہاہے۔
اب پہلی دفعہ سائنسدانوں نے اس بات کا سراغ لگایا ہے کہ شہد جلد میں انفیکشن پھیلانے والے بیکٹیریا کوکیسے ختم کرتا ہے۔ یہ تحقیق جرنل FASEBکے شمارے میں شائع ہوچکی ہے۔ اس کے مطابق شہد کی مکھیاں ایک ایسا پروٹین بناتی ہیں‘ جو ان کے شہد میں شامل ہوکر اس میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات پیدا کرتی ہیں۔ اس پروٹین کانام Defensin-1ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ایک دن ایسا آئے گا کہ اس سے ایسی دوائیاں تیار کی جارئیں گی‘ جو جلنے اور جلد کے انفیکشن ٹھیک کرنے کیلئے استعمال ہوں گی اورایسی دوائیاں بنائی جائیں گی‘ جو اینٹی بائیوٹک کے اثر کے خلاف انفیکشن کو کم کریں گی۔ اس تحقیق کے ماخذ ڈاکٹر Sebstia A. J. Zaatہیں‘ جن کاتعلق میڈیکل سینٹر Amsterdamسے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہد یا شہد سے حاصل کئے جانے والے اجزاء بیکٹیریا سے محفوظ رکھنے اور ان کا خاتمہ کرنے کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
اس دریافت کے لئے طبی ماہرین نے بیماری پیدا کرنے والے بیکٹیریا کے خلاف شہد کی اینٹی بیکٹیریل کارکردگی کو چیک کرنے کے لئے لیبارٹری میں ٹیسٹ ٹیوب میں شہد کے اجزاء کو علیحدہ علیحدہ بیکٹیریا کے خلاف عمل کروایا اور نتیجے میں دیکھا گیا کہ Defensin-1پروٹین جو کہ شہد کی مکھیوں کے ایمیون سسٹم کا حصہ ہے‘ شہد میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ تحقیق شہد کی مکھیوں کے ایمیون سسٹم کی اندرونی کارکردگی پربھی روشنی ڈالتی ہے‘ جس کی وجہ سے شہد کی مکھیوں سے مزید اچھا اور صحت افزاء شہد حاصل کیاجاسکتا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم سب کو پتہ ہے کہ شہد کا استعمال بہت اچھا ہے‘ لیکن کیسے ‘یہ پہلے واضح نہیں تھا۔ اب اس تحقیق کے ذریعے ہمیں شہد کے اس مخصوص عنصر کا پتہ چل گیاہے‘ جو اس میں بیکٹیریا کو مارنے کی صلاحیت پیدا کرتاہے۔ اب ہم اس کو بیکٹیریل انفیکشن کے خلاف مزید مؤثر بنا سکتے ہیں۔
شہدکامعجزہ
خون میں جلد شامل ہوجاتاہے
شہد نیم گرم پانی میں لیا جائے‘ تو صرف 7منٹ میں دوران خون میں داخل ہوجاتا ہے اور 20منٹ میں جب ٹھنڈے پانی کے ساتھ پیا جائے۔ اس میں پائے جانے والے شکر کے آزاد سالمے دماغ کی کارکردگی کو آسان بناتے ہیں۔
خون پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے
شہد نیا خون بنانے میں توانائی کے ذخیرے کاکردار ادا کرتا ہے اور خون کی کمی کے مریضوں میں اس عمل کو تیز کرنے میں معاون ہے۔ یہ خون کی صفائی اور اس کے مقوی ہونے میں بھی مدد دیتا ہے۔ اس سے خون کی گردش باقاعدہ ہوتی ہے۔ یہ خون کی چھوٹی نالیوں کے عوارض میں بھی مفیدہے۔
معدے کا دوست ہے شہد
شہد تیزابیت یا تخمیر کا باعث نہیں بنتا‘ کیونکہ یہ جلد ہضم ہوجاتاہے۔اس کے اندر موجود آزاد ذرات چکنائی کو ہضم کرنے میں مدددیتے ہیں۔ یہ ماں اور گائے کے دودھ میں آئرن کے نہ ہونے کو بھی پورا کردیتا ہے۔ آنتوں کے عمل کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ یہ اندرونی سکون کا بھی باعث ہے اور بھوک میں اضافہ کرتا ہے۔
رائل جیلی
رائل جیلی چھتے کے اندر کارکن مکھیوں کا بنایا ہوا سفید سیال مادہ ہے۔ اس قوت بخش مادے میں شکر‘ لحمیات‘ چکنائی اور بہت سے حیاتین پائے جاتے ہیں۔ یہ جسم کی کمزوری اور بڑھاپے کے جسمانی اثرات جیسے مسائل میں استعمال ہوتا ہے۔
جراثیم کش خصوصیات
شہد کی یہ خصوصیت مزاحمتی اثر(Effect Inhibition) کہلاتی ہے۔ شہد پر کئے گئے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ جراثیم کش اثرات‘ شہد کو پانی میں ملاکر پتلا کرکے پینے سے دوگنے ہوجاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہد کی وہ مکھیاں‘ جو نوزائیدہ مکھیوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں‘ وہ بھی ان کو پتلا شہد ہی پلاتی ہیں۔
خوراک میں تبدیلی کرکے
سرجری کی پیچیدگیوں سے بچ سکتے ہیں
ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ HSPH کی نئی تحقیق کے مطابق سرجری سے چند دن پہلے خوراک میں تبدیلی کرکے سرجری کی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتاہے‘جیسا کہ ہارٹ اٹیک یا فالج وغیرہ سے۔ اس تحقیق کو ثابت کرنے کے لئے HSPHکے طبی ماہرین نے چوہوں کے 2گروہوں پر تجربہ کیا۔ ایک گروہ کو 6سے 14دن کے لئے نارمل غذا کھلائی گئی اور دوسرے گروپ کوپروٹین اورا مائینوایڈز فری غذا دی گئی۔ 2ہفتوں کے بعد چوہوں کے دونوں گروہوں کو سرجیکل اسٹریس (Surgical Stress )دیا گیا‘ جو کہ گردوں یا جگر کونقصان پہنچا سکتا تھا۔ نتیجے میں دیکھا گیا کہ جو چوہے نارمل خوراک استعمال کررہے تھے‘ ان میں 40فیصد مارے گئے اور جو پروٹین اور امائینو ایسڈز کے بغیر والی غذا کھارہے تھے ‘وہ زندہ رہے۔
طبی ماہرین کے مشاہدے کے مطابق ایسے جین (Gene)جو کسی بھی قسم کے امائینو ایسڈ کی مقدارکومحسوس کرتے ہیں‘ اگر ان کو نکال دیاجائے‘ تو بھی اس سے فائدہ ہوگا اور سرجری کے دوران پیچیدگیاں کم ہوسکتی ہیں‘ جیسا کہ کارڈیوویسکولر سرجریوں کے دوران اسڑوک کاخطرہ 0.8فیصد سے 9.7فیصد تک ہوتاہے‘ لیکن یہ سرجری پر منحصر ہوتا ہے کہ سرجری جتنی مشکل ہوگی‘ خطرہ بھی اتناہی زیادہ ہوگا اور ہارٹ اٹیک کاخطرہ 3فیصد سے 4فیصد تک ہوتا ہے۔
پچھلے کئی سالوں کے دوران مختلف تحقیقات سے سائنسدانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سرجری سے پہلے خوراک میں تبدیلی کرنے سے صحت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اورزندگی کی مدت کو بھی زیادہ کیاجاسکتا ہے۔ ان فوائد میں ذہنی دباؤ میں کمی‘سوزش یا جلن میں کمی‘ بلڈ شوگرمیں بہتری اور کارڈیووسکولر صحت میں بہتری وغیرہ شامل ہیں۔ طبی ماہرین چوہوں کے بعد یہ تجربہ انسانوں پرکرنے والے ہیں اور امید کی جاسکتی ہے کہ انسانوں پر بھی یہ کامیاب ہوگا۔ویمنہاسپٹل بوسٹن میں مریضوں پر اس کو شروع کردیا گیا ہے۔ ان کو سرجری سے پہلے پروٹین فری غذا استعمال کروائی جارہی ہے۔ اگر انسانوں میں اس کے فوائد کی تصدیق ہوگئی‘ تو اس کی وجہ سے پیچیدگیوں کے خطرے کے بغیر سرجیاں کی جاسکیں گی۔
مختلف خوشبوؤں کے سونگھنے سے بیمار کیوں ہوتے ہیں لوگ؟
آپ کو کبھی یہ محسوس ہوا ہے کہ پاس کھڑے شخص کے لگائے ہوئے پرفیوم سے آپ کوسردرد شروع ہوگیا ہو یا کام کے دوران کسی جگہ پر صفائی کرنے والے کیمیکلز سے آپ کی جلد میں خارش شروع ہوجائے یا کوئی بھی خوشبو آپ کو تنگ کرے؟ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اس خوشبو کے عادی نہیں یا آپ کادماغ اس خوشبو کوبرداشت نہیں کرنا چاہتا ہے۔ اس کومیڈیکل کی زبان میں Chemical Intoleranceکہتے ہیں۔ 
سائیکالوجسٹ لینس اینڈرسن جو کہ Umea یونیورسٹی سوئیڈن میں پڑھاتے ہیں‘ ان کے مطابق یہ بہت زیادہ حساسیت (Hypersensitivity) اس وجہ سے ہوتی ہے کہ آپ میں یہ اہلیت نہیں ہوتی کہ آپ ان خوشبوؤں کو برداشت کرسکیں۔
عام طور پرجب کوئی انسان کسی خوشبو کوسونگھتا ہے‘ تو اس خوشبو کا احساس کچھ دیر بعد ختم ہوجاتا ہے‘ لیکن وہ افراد Chemical Intoleranceہوتے ہیں‘ ان کو ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ خوشبو بڑھتی جارہی ہے اور کبھی ختم نہیں ہوگی۔ لینس اینڈرسن نے ایسے افراد اور نارمل حساسیت رکھنے والے افراد دونوں کے درمیان خوشبو سونگھنے کے ردعمل کا مشاہدہ کیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ زیادہ حساسیت رکھنے والے افراد نے خوشبو کو بہت زیادہ محسوس کیا اور وقت گذرنے کے ساتھ ان کو خوشبو زیادہ تیز محسوس ہوئی‘ حالانکہ اس کی مقدار کو زیادہ نہیں کیا گیا تھا۔ 
ان افرادمیں ٹیسٹ، (EEG) اور (FMRI) کرنے کے بعد یہ نتائج نوٹ کئے گئے کہ زیادہ حساسیت رکھنے والے افرادمیں دماغ کی کارکردگی بھی دوسرے افراد سے مختلف تھی۔ نارمل افراد کے سونگھنے کے برعکس زیادہ حساسیت والے افراد میں خوشبو کے سونگھنے کے ایک گھنٹہ بعد بھی دماغ کی کارکردگی میں کمی نہ آئی اور وہ مسلسل اس کو محسوس کرتے رہے اور وقت گذرنے کے باوجود بھی اس خوشبو سے مانوس ہونے کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے دماغ کی کارکردگی برقرار رہی۔
ایسے افراد میں دماغ کے طرف خون کابہاؤ بھی مختلف طریقے سے ہوتا ہے اور ان میں درد کو محسوس کرنے کی حساسیت بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
سونگھنے کی حس پورے جسم پر اثر کرتی ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق ایسے افراد میں ان چیزوں کا رد عمل بہت زیادہ ہوتاہے‘ جو ان کے ناک اور منہ کے Mucous Lining(خلیوں کی ایک بیرونی تہہ) کو چھیڑتے ہیں۔ ایسے افراد جو کہ سرخ مرچیں کھانے کی وجہ سے بہت زیادہ کھانستے ہیں‘ ان کے دماغ میں بھی دوسری خوشبوؤں کی نسبت اس کی وجہ سے زیادہ رد عمل ہوتاہے۔
Chemical Intoleranceحیرت انگیز طور پر بہت عام ہے‘ لیکن دمہ اور الرجی کے برعکس کیلئے بہت کم تحقیقات کی گئی ہیں۔ لہٰذا مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی تشخیص اورعلاج کے مختلف نئے طریقے ڈھونڈے جاسکیں۔ 

سر اور گردن کے کینسر کے خلیہ ختم کرتاہے
انگور کا رس
ہر سال پوری دنیا میں ہزاروں لوگ سراور گردن کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق طبی ماہرین نے چوہوں اور لیبارٹری میں خلیوں پر تجربات کرنے کے بعد یہ ثابت کیاہے کہ انگوروں کا نچوڑ (GSE) Grape Seed Extract ) کینسر کے خلیوں کو ختم کرتاہے اور صحت مند خلیوں کوکوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔
راجیش اگروال پی ایچ ڈی ڈاکٹر یونیورسٹی آف کو لورارڈو کینسر سینٹر کے مطابق انگوروں کا یہ اثر بہت ہی زبردست ہے۔ کینسر کے خلیے بہت تیزی سے پھیلتے ہیں‘ لیکن جب ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں‘ جو ان کے پھیلنے کے لئے مواقف نہ ہوں‘ تو اس کی وجہ سے وہ ختم ہوجاتے ہیں۔
انگوروں کا رس ایسی حالت پیدا کرتاہے‘ جو سر اور گردن کے کینسر کے خلیوں کی نشوونما اور پھیلنے کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ یہ کینسر کے خلیوں کے DNAپر حملہ کرکے ان کو نقصان پہنچاتاہے اور ایسے عمل کوہونے سے روکتا ہے‘ جو کہ کینسر کے خلیوں کو ٹھیک ہونے میں مدد کرتا ہے۔ڈاکٹر اگروال کے مطابق کینسر کے خلیوں میں بہت سے ایسے خراب Pathways ہوتے ہیں‘ جن پر ٹارگٹ کرکے ان کو ختم کیاجاسکتا ہے جبکہ تندرست خلیوں میں ایسا نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر اگروال لیب کے مطابق یہ تحقیق سر اور گردن کے کینسر کے خلاف تھراپی میں بہت مددگار ہوگی اور اس قسم کے کینسر کو ختم کرنے میں مفید ہوگی‘ جس کاعلاج پہلے بہت مشکل تھا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ 
11؍ جون 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا