English   /   Kannada   /   Nawayathi

ڈاکٹر ایلیس کے پردے میں ڈاکٹر ابلیس کی کارستانی

share with us

تحریر : ڈاکٹر عدیل ارشد خان

کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک تحریر گردش کررہی ہے جسمیں کسی ڈاکٹر ایلیس کے حوالے سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ انسان اس زمین کی بجائے کہیں اور تخلیق کیا گیا اور پھر اُس زمین پر بھیجا گیا . تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ سائنس نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ آدم علیه السلام جنت سے زمین پر بھیجے گئے تھے .... سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا هبوط آدم کو ہم اسی وقت تسلیم کریں گے جب سائنس اسے ثابت کرے؟ کیا قرآن کا بیان کافی نہیں کہ جھوٹے سائنسی دلائل گھڑے جائیں ؟ یا ہم اتنے سادہ لوح ہیں کہ باطل طاقتوں کے ہاتھ میں اسلام کے خلاف ہتھیار بن جائیں ؟

حقیقت یہ ہے کہ اس تحریر میں انسان کے ایلین ہونے کے دعوے کے ثبوت میں جو "دلائل" پیش کئے جا رہے ہیں یا تو وہ بجائے دلیل ہونے کے خود دعوے ہیں (جو خود محتاج دلیل ہیں) یا سراسر سائنسی حقائق کے خلاف ہیں

یہ تحریر دراصل اس سازش کی کڑی ہے جو لوگوں کو اسلام سے بدظن کرنے اور اسے غیر سائنسی مذہب کے طور پر پیش کرنے کے لئے رچی گئی ہے . سائنس کا طالب علم جب دیکھتا ہے کہ خلاف سائنس دلائل کو قرآن یا اسلام کی حقانیت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے تو اسکا منطقی اور سائنسی ذہن اسلام کو رد کر دیتا ہے . سائنس آشنا مگر قرآن نا آشنا مسلمانوں کے دلوں میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور ایمان متزلزل ہو جاتا ہے
عصر حاضر میں داعیان اسلام نے سائنسی دلائل سے جسطرح اسلام کی حقانیت ثابت کی ہے باطل نے اس کے توڑ کے طور یہ چال چلى ہے اور انکے شاطر دماغ نے مسلمانوں ہی کو اس شیطانی مشن میں آلہء کار بنایا ہے .

قرآن یہ بتاتا ہے کہ حضرت آدم جنت کے اس دنیا میں بھیجے گئے تھے لیکن وہیں یہ بھی واضح کرتا ہے کہ انکی تخلیق میں اسی زمین کی مٹی استعمال ہوئی تھی

سورة طه آیت نمبر 55 

مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ وَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ وَ مِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی ﴿۵۵﴾

اس زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوبارہ تم سب کو نکال کھڑا کریں گے ۔

ثانیاً انھیں بطور سزا نہیں بلکہ آزمائش کے لئے دنیا میں بھیجا گیا

Surat No 67 : Ayat No 2

الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ ۙ﴿۲﴾

جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے ، اور وہ غالب ( اور ) بخشنے والا ہے ۔


بنیادی طور پر صاحب تحریر کے تین دعاوی ہیں
ا ) انسان کی تخلیق ایک ایسے سیارے پر ہوئی جہاں ماحول بہت اچھا تھا اور اسے وی وی آئی پی ٹریٹمنٹ ملتا تھا
2) اس سے کوئی غلطی سرزد ہوئی
3) اسے ایک ایسی ہستی نے جس کے قبضے میں ستاروں اور سیاروں کا نظام تھا بطور سزا دنیا میں پھینک دیا . (واضح رہے کہ پہلے یہ کہا گیا کہ ڈاکٹر ایلیس کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا اور اب مافوق الفطرت وجود کا اقرار کیا جا رہا ہے)

زمین کو انھوں نے جیل قرار دیا کیونکہ اسکی شکل کالا پانی جیل سے ملتی جلتی ہے . حالانکہ جیل کے لۓ کالا پانی جیسی شکل ہونا ضروری نہیں یہ خشکی پر بھی ہو سکتی ہے ... ہاں کسی مقام کے جیل ہونے کے لئے وہاں قید و بند اور تعذیبی ماحول کا ہونا ضروری ہے . سوال یہ ہے کہ کیا زمین پر ماحول انسان کی نشوونما کے لئے سازگار ہے یا ناسازگاروتعذیبی ؟ الله تعالی قرآن میں جگہ جگہ احساس دلاتا ہے کہ اس نے زمین کو ہمارے لئے سازگار بنایا
تفصیل کا موقع نہیں ... الله جن انعامات کو یاد دلاتا ہے ان میں سے چند یہ ہیں
ہواؤں کا نظام
واٹر سائیکل
زمین سے پھل اور کھانے کی چیزیں نکالیں
چارا نکالا
چوپائے بنائے جن میں کھانے پینے کی چیزیں اور سواریاں ہیں
پہاڑوں کو توازن کا ذریعہ بنایا
سمندر کو نقل و حمل کا وسیلہ بنایا وغیرہ وغیرہ

اب ہم ڈاکٹر ایلیس( ابلیس) کے دلائل (دراصل دعاوی) پر نظر ڈالتے ہیں

1 ) انسان جس سیارے سے زمین پر آیا تھا وہاں کشش ثقل کم تھی زمین پر زیادہ ہے اسی لئے انسانوں میں کمر درد کی شکایت ہوتی ہے ..... نرا دعوی ہے کوئی سائنسی ثبوت نہیں میڈیکل سائنس کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیجیۓ وٹامن ڈی ، کیلشیم اور دیگر غذائی اجزاء کی کمی ، غلط پوسچر ، جھٹکا لگنا وغیرہ اسکی وجوہات ہیں

2) انسان دائمی امراض میں مبتلا ہوتا ہے جبکہ جانور نہیں ...... سراسر جھوٹ ہے میں جانوروں کا ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے یہ حقیقت واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جانوروں میں بھی ویسے ہی دائمی (chronic) اور موروثی (genetic ) امراض پاۓ جاتے ہیں جیسے انسانوں میں لیکن آپ کو دائمی امراض میں مبتلا انسان بہت زیادہ نظر آتے ہیں جبکہ جانور بہت کم وہ بھی صرف پالتو جانور اسکی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کو بہترین طبی سہولیات مہیا ہیں جبکہ جانوروں میں پالتو ( pet ) جانوروں کے علاوہ دیگر جانوروں کو کوئی طبی سہولت مہیا نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ جلد مر جاتے ہیں اور صحت مند باقی بچتے ہیں
( survival of the fittest)

3) : تیسرا نکته یه ہے کہ انسان دھوپ برداشت نہیں کر سکتا اور اسے سن اسٹروک sunstroke ہو جاتا ہے جبکہ جانوروں میں ایسا کوئی ایشو نہیں ......_ يہ بات بھی سراسر غلط ہے جانوروں میں بھی sunstroke اور heatstroke ہوتا ہے ـ يہی نہیں بلکہ جلد کا کینسر بھی ہوتا ہے جسکی وجہ سورج کی الٹرا وائلٹ شعائیں ہوتی ہیں

4) انکا دعوی ہے کہ انسان کو ہر وقت یه احساس رہتا ہے کہ زمین اسکا گھر نہیں اور اس وجہ سے اس پر اداسی طاری ہوتی ہے ....... یہ دعوی بھی ہے بنیاد ہے مجھے آج تک اس قسم کا احساس نہیں ہوا اور نہ آپ کو کبھی ہوا ہوگا .... اسکے برعکس جب کبھی سائنس دان اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ آلودگی کی وجہ سے بہت جلد زمین کا ماحول انسان کے لئے ناسازگار ہو جائے گا اور اسے کسی دوسرے سیارے پر منتقل ہونا پڑے گا اس تصور ہی سے مجھے وحشت ہوتی ہے اور شاید آپ لوگوں کا بھی یہی معاملہ ہو .

5) دلیل نمبر پانچ میں فرماتے ہیں کہ زمین پر رہنے والی تمام مخلوق کا ٹمپریچر ہر سیکنڈ بعد آٹومیٹک ریگولیٹ ہوتا ہے جبکہ انسان کا نہیں اور یہ کہ موسمی بخار صرف انسانوں میں ہوتا ہے ....... اسکے جواب میں صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ
جھوٹ بولے بھی اگر کوئی تو لازم ہے شعور
یہ انتہائی جھوٹی اور احمقانہ بات ہے . آپ ذرا مڈل اسکول کی سائنس بک اٹھا کر دیکھے آپکو گرم خون والے حیوانات ( warm blooded animals)
اور سرد خون والے حیوانات ( cold blooded animals)
کے بارے میں معلومات مل جائے گی . اول الذکر جن میں انسان شامل ہے اپنا درجہ حرارت ریگولیٹ کر لیتے ہیں . موسم چاہیے سرد ہو یا گرم انکا درجہ حرارت مستقل ہوتا ہے (انسان کا 98.6 درجہ فارن هائٹ)
سرد خون والے جانور اپنا درجۂ حرارت ریگولیٹ نہیں کر پاتے سردیوں میں انھیں دھوپ کے ذریعہ درجۂ حرارت بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے اور گرما میں وہ ٹھنڈی جگہیں تلاش کرتے ہیں تاکہ جسم کو ٹھنڈا رکھ سکیں . سانپ ، گرگٹ ، چھپکلی ، مگر مچھ وغیرہ اسکی مثالیں ہیں

6) " دلیل" نمبر 6 میں فرماتے ہیں کہ انسان کا ڈی این اے دوسرے جانوروں سے بہت مختلف ہے .،..... جبکہ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ چمپانزی کا ڈی این اے انسان سے 96 سے 98 فی صد تک ملتا ہے اسکے علاوہ اورینگ اوٹان اورگوریلا وغیرہ کا ڈی این اے بھی انسان سے بہت ملتا ہے

7 ) "دلیل" نمبر سات سنیے اور سر دھنیے انسان چونکہ پکا ہوا کھانا کھاتا ہے اسلئے وہ ایلین ہے ..... تو عرض ہے کہ حضرت یه تو کوئی دلیل نه ہوئی انسان بھی پہلے بغیر پکی غذا استعمال کرتا تھا اور اپنی عقل اور تجربات کی وجہ سے اس نے غذا کو پکانا سیکھا کتے اور بلی جیسے simple stomach animals بھی پکی ہوئی غذا شوق سے کھاتے ہیں اور یہ انکے معدے پر کم بوجھ ڈالتی ہے اگر انھیں کھانا پکانے کا فن آتا تو شاید وہ بھی کھانا پکا کر کھاتے ...
مزیدفرماتے ہیں کہ انسان پہلے جس سیارے پر رہتا تھا وہاں اسے کھانا پکانے کا جهنجھٹ نہیں اٹھانا پڑتا تھا .... ... کوئی یہ پوچھے کہ دلیل کے نام پر آپ جو اتنا بڑا دعوی کررہے ہیں اسکا ثبوت کیا ہے ؟ کیا آپ نے مسلمان کو اتنا بے وقوف سمجھا ہے کہ وہ آپکی ہر ہے تکی بات کو فارورڈ کرتا پھرے گا ؟

8) حضرت ابلیس فرماتے ہیں انسان کو زمین پر رہنے کے لیۓ نرم بستر کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ جانوروں کو نہیں تو عرض ہے کہ انسان نے عقل کو استعمال کرکے اپنے آرام کے لئے بستر ہی نہیں متعدد ایجادات کی ہیں اب چو نکہ بسترایک نہایت قدیم ایجاد ہے اسلۓ آپ نے اسکا نام لے لیا مگر مصلحتا اور ایجادات سےصرف نظر کر لیا ورنہ آپ یہ بھی فرماسکتے تھے کہ چونکہ اسے تسنیم وسلسبیل کے ٹھنڈے پانی کی یاد آتی تھی اس نے فریج ایجاد کر لیا ... جو چاہے آپکا حسن کرشمہ ساز کرے
ویسے بتاتا چلوں کہ بہت سے جانور جب بچہ دینے والے ہوتے ہیں تو گھاس پھوس جمع کر کے اپنے بچے کے لئے نرم بستر تیار کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ prolactin نامی ہارمون کے زیر اثر ہوتا ہے

9) دلیل کے نام پر پھر دعوی ہے کہ انسان کو کسی اور سیارے سے کوئی مخلوق زمین پر پھینک گئی ... ثبوت ندارد ...

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور سائنس بھی پڑھیں سائنس کاٹنات کا علم فراہم کرتی ہے ... قرآن الله کا کلام ( قول ) ہے اور کائنات الله کی تخلیق (فعل) الله کے قول اور فعل میں تضاد ہو یہ ممکن ہی نہیں .. قرآن میں سینکڑوں آیات سائنسی حقائق کو بیان کرتی ہیں ان کو سلیقے سے غیر مسلموں کے سامنے پیش کیجئے ... دنیا حق کو قبول کرنے کے لۓ تیار بیٹھی ہے ..



مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
10؍ جون2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا