English   /   Kannada   /   Nawayathi

دلت دلدل سے کیوں نہیں نکل پاتے ہیں؟

share with us


مولانا عبدالحمید نعمانی

ملک میں دلتوں اور آدی واسیوں کا عروج زوال، ترقی اور پس ماندگی ایک بڑا موضوع ہے، اس کو نظر انداز کرنا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے، دلتوں، آدی واسیوں کی ترقی و وقار کی زندگی ، برہمن وادی منو وادیوں کے لیے قابل برداشت نہیں ہے، لیکن دلتوں وغیرہ کی ترقی،مسلم ملت کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے،کمزوروں ، مظلوموں اور محنت کشوں کی حمایت و اعانت جہاں اس کامذہبی فریضہ ہے۔ وہیں ملک وقوم کے وقار اور سماجی برابری و ترقی کے لیے بھی ایک ضروری عمل ہے۔ سماج کے لیے چاہے امیر ہو یا غریب دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں،دونوں کے درمیان تعاون واشتراک اور باہمی اعانت کا تعلق ہے۔ نہ کہ غلامی اور آقائیت کا، ایک کام کراتا ہے ، دوسرا کرتا ہے، اس پر دونوں کی زندگی قائم ہے، اجرت اور محنت کی شکل میں دونوں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ، یہ ایک دوسرے کی عزت وتوقیر پر مبنی ہے، ایک کی سرکشی دوسرے کی تذلیل کا، سماجی زندگی میں کوئی جواز نہیں ہے۔ ایسا انسانی تاریخ میں پہلی بار اسلام نے عملی و نظریاتی دونوں سطح پر نمونہ پیش کرکے دکھایا بھی ہے، لیکن بعد کے دنوں میں دیگر سماجوں کی طرح مسلم سماج پربھی زمین دارانہ اور اشراف و اجلاف ، غلامی و آقائیت کی ذہنیت اور نظام حاوی ہوگیا، تاہم نظریاتی استحکام کی وجہ سے معاملہ چھواچھوت تک نہیں پہنچا اور مذہبی تائید نہ ملنے کی وجہ سے منوواد کی طرح طبقاتی نظام قائم نہیں ہوسکا کہ اگر یہ نظام قائم نہ ہوگا تو سماج انتشار وانارکی کا شکار ہوجائے گا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس پر وسیع پیمانے پر بحث و گفتگو کی ضرورت ہے، لیکن مسلم سماج میں بھی اس پر توجہ کے بجائے دیگر طرح کے مسائل پر زیادہ توجہ و توانائی صرف کی جاتی ہے، بہت سے لوگ دلت مسلم اتحاد کی بات اور اس کے نام و عنوان سے کچھ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں، لیکن اس کے خاص نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ اس سوال پر سنجیدگی سے غوروفکر کرکے صحیح جواب تک پہننے کی کوشش کرنی ہوگی، جب تک صحیح سوال و جواب تک رسائی نہیں ہوگی، ہماری ساری جدوجہد اور چلت پھرت ، وقت گزاری اور کچھ نتیجہ برآمد نہ ہونے کے باوجود صرف نظرآنے والی بے نتیجہ جدوجہد ہو کررہ جائے گی، مسلم سماج میں قائدین کی ، ایک تعداد ہے، جو مسلم سماج کے بڑے حصے کو دلتوں سے زیادہ حیثیت و عزت دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور شریک کار افراد کو معاون و رفیق سمجھنے کے بجائے غلام سے زیادہ کوئی حیثیت ودرجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے، جب سوچ اور ذہنیت کی یہ حالت ہوگی تو دیگر سماج کے دلتوں، آدی واسیوں اور محنت کشوں کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ انصاف برابری ، آزادی کے حصول کی جدوجہد میں مطلوبہ سطح پرشرکت و اتحاد کا عمل و رشتہ کس طور سے قائم ہوپائے گا؟ دوسری طرف دلت آدی واسی اور محنت کش طبقات کی قیادت کو یہ سمجھانے کی بھی ضرورت ہے کہ مظلوموں، محروموں کے درمیان اشتراک و تعاون کی مشترکہ جدوجہد کوئی وقتی عمل نہیں ہے اور صرف ایک دو باتوں کو لے کر جدوجہد سے بات نہیں بنے گی ، بلکہ ان تمام مسائل کو ترجیحات کی بنیاد پر جدوجہد کے تحت لانا پڑے گا۔ جن کا سماج اور زندگی کی بہتری اورمعیار حیات، عزت ووقار ، ترقی برابری، انصاف کی فراہمی اور آزادی سے ہے، بہت سے امور انسان کی ذہنی و قلبی تسکین و آسودگی سے بھی متعلق ہیں، اس سلسلہ میں، دلتوں، آدی واسیوں ، محنت کشوں اور اقلیتوں کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں ، جن کودورکیے بغیر آزادی کا صحیح معنی میں تصور نہیں کیاجاسکتاہے۔ایک آزاد جمہوری نظام میں آدمی کی اپنی آزادی کا مسئلہ بھی اہم ہے، سماجی امن اور اجتماعی مفاد کو غلط طورپر متاثر کیے بغیر انفرادی آزادی کی بھی بڑی اہمیت ہے۔لیکن اسے ماضی بعید سے ماضی قریب اور حال تک میں مسلسل نظرانداز کیاجاتارہاہے۔ کالے، گورے، قبیلہ برادری، جات پات، علاقے، کئی جہات سے اونچ نیچ، آقائیت، غلامی، اشراف وارزال کے راستے سے انصاف ، برابری اور آزادی کی راہ میں جو دیواریں کھڑی ہوگئیں یا کردی گئی ہیں، ان کو ایک بہتر منصفانہ ،معتمد آزاد معاشرے کے قیام و تشکیل کے لیے منہدم کرنا ضروری ہے، یہ دیواریں اتنی مضبوط ہیں کہ ان کو کوئی ایک متاثرہ طبقہ، برادری گرانہیں سکتی، انہیں تمام محروم و مظلوم متاثرہ افرادووطبقات مل کرہی گراسکتے ہیں، یہ خوش آیند بات ہے کہ تمام تر رکاوٹوں اور مزاحمتی طاقتوں کی سرگرمیوں کے باوجود دلت، آدی واسی اور دیگر محروم طبقات پہلے کی بہ نسبت زیادہ طاقت سے ، منوادی، سامنتی طاقتوں کا مقابلہ کررہے ہیں، اور بہت کچھ پانے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں، تاہم اس سے انکار نہیں کیاجاسکتاہے کہ ابھی بہت کچھ حاصل کرنا باقی ہے۔اگر مسلم سماج اخلاقی و سماجی و نظریاتی و تعلیمی اور اقتصادی طورسے بہتر طورسے نمونے کے طورپرکچھ پیش کرسکے تو اس سے دلت آدی واسی اور دیگر محروم طبقات کو بہت کچھ توانائی و رہ نمائی مل سکتی ہے۔ہاں دلت قیادت کے لیے یہ باور کرانا بھی ضروری ہے کہ روحانی تسکین کے ساتھ ، انصاف ، آزادی اور برابری کا حصول ، سب ہماری عزت وتکریم سے جڑے معاملے ہیں، دھمکی اور بلیک میل کے لیے کسی نظریے اور عمل کو اختیار و ترک کی بات نہیں ہے، اسی صورت میں ان کے حصول انصاف و مساوات کی تحریک میں ایک خاص طرح کی طاقت پیداہو گی، گرچہ اسے کئی طرح سے دبانے اور ختم کرنے کی کوششیں ہوں گی تاہم حصول انصاف کی مسلسل جاری تحریک کے سامنے وہ ایک نہ ایک دن ناکام ہوجائیں گی۔ مختلف سیاسی پارٹیاں، جس طرح ، الگ الگ طریقے سے دلتوں، آدی واسیوں کو اپنے ساتھ لانے اور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ، اس سے دلتوں کی اہمیت سمجھی جاسکتی ہے، لیکن یہ زیادہ ووٹ کی سیاست کے مدنظرہے، جب کہ دلتوں ، آدی واسیوں کا بنیادی مسئلہ تعلیمی و سماجی لحاظ سے ترقی و توقیر کا ہے، گذشتہ چارپانچ برسوں میں اقلیتوں کے ساتھ، دلتوں کے خلاف جارحیت و زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہواہے، دلت قائدین میں اختلافات اور اپنے اپنے فائدے کے پیش نظر خاموشی اور کنارہ کشی کی وجہ سے صورت حال میں کوئی بہتر تبدیلی پیدا نہیں ہورہی ہے، رام ولاس پاسوان ، ادت راج اور رام داس اٹھاولے کوئی خاص نہیں کرپارہے ہیں، ایک مایاوتی تسلسل کے ساتھ آواز اٹھارہی ہیں لیکن کئی وجوہ سے زیادہ کارگر نہیں ہورہی ہے، ان کے خلاف کئی دلت لیڈر ہی محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ یہ مقصد کے بجائے اپنی اپنی شخصی قیادت و اہمیت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں، ان سے الگ ہٹ کر جگنیش میوانی اور پرکاش امبیڈکر زوردار طریقے سے دلتوں کے متعلق اپنی باتوں کو سماج کے سامنے رکھتے ہیں ، لیکن ان کا میدان کار ابھی محدود علاقے ہیں، پورے بھارت میں ان کی پہنچ نہیں ہے، کل ملاکر بڑا دلت چہرہ مایاوتی کا ہے، انہوں نے اکھلیش کی سماج وادی سے اتحاد کرکے کسی حدتک طاقت کا اظہار تو کیاہے، کانگریس کے ہاتھ کا ساتھ لے کر یقیناًآگے بڑھا جاسکتاہے، مرکز اور ریاستوں کی سطح پر جات پات اور فرقہ پرستی کے تناظر میں جو حالات پیدا ہورہے ہیں ، ان کو بہت زیادہ دنوں نظرانداز نہیں کیاجاسکتاہے۔ دلت قیادت بھی زیادہ دنوں تک خاموشی اور آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی ہے، اس کے ایک حصے میں صاف طورپر بے چینی دیکھی جاسکتی ہے۔ بی جے پی کے دلت لیڈروں کی طرف سے بھی مخالفت کا اظہار ہونے لگاہے۔۴؍مئی ۲۰۱۸ ؁ء کے انڈین ایکسپریس میں ونے سروہا نے لکھا ہے’’ ملک کے دلتوں کی بے اطمینانی اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ بی جے پی سے پوری طرح مایوس ہوچکے ہیں ، ان کی اس بے اطمینانی کی بھی وجہ ان کے تحفظ کے متعلق خراب ہوتی صورت حال ہے‘‘، اطلاع ہے کہ 40دلت لیڈروں میں سے 5 ممبران پارلیمنٹ نے وزیر اعظم نریندرمودی کو خط لکھ کردلتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے عدم اطمینان ظاہر کیاہے۔ حالات بتارہے ہیں کہ وہ اگر ایسا نہیں کریں گے تو آنے والے دنوں میں اپنی حیثیت کھودیں گے۔ مشترک آبادی والے سماج میں یہ ضروری ہے کہ قیادت مظلوموں، کمزوروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائے۔ دلت قیادت کو اس سوال پر بھی سوچنا ہوگا کہ گڑبڑیاں کہاں ہیں کہ تمام تر نظرآنے والی سرگرمیوں اور نعروں کے باوجود ایک ہونے کا عمل عام سماجی رویے میں تبدیل کیوں نہیں ہوتا کہ جس سے دلتوں کا بھلاہو۔یہ سوال بھی اہم ہے کہ دلت ، دلدل سے کیوں نہیں نکل پاتے ہیں؟

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں 
07؍ جون 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا