English   /   Kannada   /   Nawayathi

فرقہ پرستی کے خلاف سیاسی ہی نہیں سماجی اتحاد بھی ضروری

share with us

کیرانہ اور نو پور نے دکھایا راستہ لیکن بی جے پی بھی خاموش نہیں بیٹھی گی
عبید اللہ ناصر

حالیہ ضمنی انتخابات کو جو کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں ہوئے جن میں 9 اسسمبلی اور دو پارلیمانی حلقہ شامل ہیں منی جنرل الیکشن کہنا غلط نہیں ہوگا ان ضمنی انتخابات کے نتیجے نہ صرف آیندہ چند مہینوں میں مدھیہ پردیش چھتیس گڑھ اور راجستھان کے اسمبلی انتخابات کو متاثر کرینگے بلکہ یہ آیندہ پارلیمانی الیکشن کی بھی واضح تصویر پیش کر رہے ہیں راہل گاندھی کے صدر کانگریس بننے کے بعد ہونے والے گجرات کے بعد کرناٹک اسمبلی کے الیکشن دونوں قومی سیاسی پارٹیوں کے درمیان سیدھی ٹکّر تھی جس میں کانگریس نے بی جے پی کو اس کے گڑھ گجرات میں ایسی ٹکّر دی کہ بی جے پی جیت تو ضرور گی لیکن اس کی سانس پھول گی جبکہ کرناٹک میں کانگریس کو حکومت مخالف رجحان کا سامنا تھا پھر بھی وہ سیٹوں کے معاملہ میں تو دوسرے نمبر پر آی لیکن اس کے مجموعی ووٹ اور فیصد تناسب بی جے پی سے زیادہ رہا یہاں اس نے تیزی سے اقدام کرتے ہوئے تیسرے نمبر کی پارٹی سے ہاتھ ملا کر بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روک دیا یہاں بی جے پی نے ریاستی گورنر کی مدد سے جو گندہ کھیل کھیلا اس سے قوم سطح پر اسکی سبکی ہوئی جبکہ راہل گاندھی نے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود چھوٹی پارٹی کو اقتدار سونپ کر جو دور اندیشی اوروسیع القلبی دکھایی اس سے انکی ذاتی امیج میں چار چاند لگ گئے۔گجرات اور کرناٹک کے نتایج نے کانگریس کے تن مردہ میں نیی جان ڈال دی اور اب کانگریسی کارکن ہر جگہ بی جے پی سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے بیتاب ہیں
ادھر ضمنی انتخابات کے نتایج نے بھی علاقائی پارٹیوں کے حوصلے بلند کے ہیں انھیں پہلے سے ہی احساس ہو رہا تھا کہ اگر بی جے پی کے خلاف ایک وسیع اتحاد نہ بنایا گیا تو نہ صرف انکا وجود خطرہ میں پڑ جایگا بلکہ ملک کا وفاقی نظام بھی درہم برہم ہو جایگا اس کے ساتھ ہی عوام بھی اب مذہبی جنون اور جارحانہ قوم پرستی کی افیم کے نشے سے باہر نکل کر بڑھتی بے روزگاری 'برباد ہوتے کاروبار 'معاشی بدحالی ' زراعت کی تباہی اور کسانوں کی خودکشی جیسے اصل مسایل کی طرف متوجہ ہوئے اس طرح کبھی جو سیاسی اتحاد نا ممکن دکھایی دیتا تھا وہ حقیقت میں تبدیل ہوگیاہ جسکا نتیجہ یہ ہا کہ اتر پردیش جس نے سابقہ پارلیمانی اور اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو نا قابل تصور کامیابی دی تھی وہاں اسے پے در پے شرمناک شکست مل رہی ہے پہلے وہ ریاست کے و زیر اعلی اور ابھرتے ہوئے ہندو ہردے سمراٹ یوگی آدتیہ ناتھ کی خالی کی ہوئی گورکھپور کی وہ سیٹ ہار گی جس پر اسکا کیی دہایوں سے قبضہ تھا اسکے ساتھ ہی وہ ریاست کے نایب وزیر اعلی کیشو پرسا د موریہ کی خالی کی ہوئی پھول پور کی بھی سیٹ ہار گی ان دونوں سیٹوں پر شکست سے دل برداشتہ بی جے پی نے کارانہ پارلیمانی اور نور پور اسمبلی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے کوئی کور کسر نہیں چھوڑی انتخابی مہم کی کمان خود وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے سمبھالی اور اپنی فطرت کے مطابق مہم میں فرقہ پرستی کا رنگ گھولا یہاں انہونے جناح بنام گننا کا رڈ کھیل کر ووٹروں کو پولرائز کرنے کی کوشش کی اسکے ساتھ ہی دونو ں سیٹوں پر سابق انجہانی لیڈروں کے اہل خاندان کو اتار کر ووٹروں کی ہمدردی بھی حاصل کرنے کی کوشش کی یہی نہیں انتخابی مہم ختم ہو جانے کے بعد وزیر اعظم کا ملحقہ باغپت میں ایک سرکاری پروگرام کر کے اور ان سے تقریبن نو کلو میٹر کا روڈ شو کرا کے بھی ووٹروں کو متاثر کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا کوئی ہتھ کنڈہ'کوئی تکڑم کام نہیں آیا اور اپوزیشن کی مشترکہ امیدوارتبسم حسن نے جوکہ اجیت سنگھ کی راشٹریہ لوک دل کے انتخابی نشان سے لڑی تھیں تقریبن 45 ہزار ووٹوں سے کامیاب رہیں جبکہ نور پور اسمبلی حلقہ سے سماج وادی پارٹی کے نعیم الحسن نے ساڑھے چار ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کی -
اس سیاسی کامیابی سے بھی اہم وہ سماجی رواداری ہے جو اس الیکشن خاص کر پولنگ کے دن نظر آی مغربی اتر پردسش کا سماجی تانا بانا گزشتہ کافی عرصہ سے بری طرح بگڑا ہوا تھا جاٹوں اور مسلمانوں کے رشتوں میں زبردست تلخی پیدا ہو گئی تھی راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اور چودھری چرن سنگھ کی وراست نہ جانے کہاں کھو گی تھی مظفر نگر کے فساد نے تو جیسے اس تقسیم کو عبدی ہی بنا دیا تھا بی جے پی کو اسکا زبردست سیاسی فایدہ ملتا تھا وہ جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان تلخیاں بڑھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھی بلکہ جھوٹ اور افواہ کے ذریعہ اسے بڑھاتی ہی رہتی تھی لیکن اس بار منظر با لکل بدلا ہوا تھا چلچلاتی دھوپ میں روزہ رکھے مسلم ووٹروں کو جاٹوں نے یہ کہہ کر پہلے ووٹ ڈالنے دیا کہ انکا روزہ ہے وہ ووٹ دے کر چلے جایں ہم بعد میں ووٹ دے لینگے۔ ایسے ہی دلتوں اور جاٹوں میں تو دیرینہ کشیدگی رہی ہے لیکن اس بار یہ کشیدگی کہیں نہیں دکھایی دی اس کے علاوہ علاقہ میں با اثر گورجروں اور دیگر ذاتوں کے ووٹروں نے بھی اپوزیشن کی مشترکہ امیدوار کو ووٹ دے کر سماجی ہم آہنگی کو مضبوط کیا اس سے پہلے کے سیاسی اور سماجی ماحول میں کیرانہ جیسی سیٹ سے مسلم امیدوار کی کامیابی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس خلیج کو پاٹنے میں اجیت سنگھ کے لڑکے جینت چودہری نے بہت اہم کردار ادا کیا علاقہ کے جاٹوں کو ان میں چودھری چرن سنگھ کا عکس نظر آتا ہے حیرت انگیز طور پر چودھری چرن سنگھ کے بیٹے اجیت سنگھ اپنی یہ امیج نہیں بنا پاے تھے۔ ملک کے ابھرتے ہوئے نوجوان لیڈروں میں جینت چودھری بھی شامل ہیں اس سماجی اتحاد بنانے میں دیگر باتوں کے علاوہ کسانوں کے مسایل نے بھی اہم کردار ادا کیا خاص کر گننا کسانوں کے مسایل سے علاقہ کے سبھی لوگ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ گنا ہی یہاں کی لائف لائن ہے گنا کسانوں کا کروڑوں روپیہ ملوں پر باقی جس سے یہاں کے کسان زبردست معاشی مسایل میں مبتلا ہیں کسانوں کو ملوں سے پیمنٹ نہ ملنے سے نہ وہ اپنے مزدوروں کو ادایگی کر پا رھے ہیں نہ دیگر کام ہو پا رہے ہیں مرکزی وزیر منیکا گاندھی نے گنا کسانوں کے مسایل سننے اور انھیں دلاسہ دینے کے بجاے الٹا انھیں ڈانٹتے ہوئے کہا کہ گنا بوتے ہی کیوں ہو ادھر پاکستان سے ?? لاکھ میٹرک ٹن شکر منگانے سے بھی کسانوں کی ناراضگی بڑھی
لیکن اس کامیابی کے منفی پہلوؤں پر بھی غور کرنا ضروری سب سے اہم بات یہ کہ اپوزیشن کی مشترکہ امیدوار ہونے کے باوجود تبسم حسن کو یہ کامیابی محض 45 ہزار ووٹوں سے ملی ہے جوبڑی کامیابی نہیں کہی جا سکتی اگر آخری وقت میں تبسم حسن کے خاندان کے ہی کنور حسن بیٹھ نہ گئے ہوتے تو انکی شکست یقینی تھی مشترکہ اپوزیشن اور بی جے پی کے ووٹ تناسب میں بھی کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہے یہ بات ضرور ہے کہ اسمبلی الیکشن کے مقابلہ میں اس بار بی جے پی کے ووٹوں میں چار فیصدی کی کمی ہوئی ہے اسی طرح نور پور اسمبلی سے نعیم الحسن کی ساڑھے چار ہزار ووٹوں سے کامیابی بھی بہت امید افزا نہیں ہے۔ بی جے پی اپنی اس شکست کو جنرل الیکشن میں فتح میں بدلنے کے لئے کوئی کور کسر نہیں چھوڑیگی سب سے بڑا خطرہ اس کا فرقہ وارانہ کارڈ ہے وہ کسی بھی حد تک جا کر یہاں بنے سماجی اور سیاسی دونوں اتحاد کو توڑنے کی کوشش کریگی بی جے پی کے IT سیل نے ابھی سیبیگم تبسم حسن کی تصویر کے ساتھ "یہ اللہ کی جیت اور رام کی ہار ہے " کے فوٹو اور ایک فوٹو جس میں ایک ہندو شخص کی چوٹیا کاٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے جاری کر دیا ہے ایسے فرقہ وارانہ گھناونی تصویریں اور افواہیں پارلیمانی الیکشن نزدیک آتے اندھادھند جاری ہونگی لہازہ یہ سماجی اور سیاسی اتحاد برقرار رکھنے کے لئے سبھی پارٹیوں کے اعلی سے لیکر مقامی سطح کے لیڈروں اور سماجی و مذہبی کارکنوں کی بڑی دور اندیشی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا بی جے پی کو سیاسی شکست دینے کے لئے سیاسی اور اس نے سماج میں جو نفرت غلط فہمی اور غصّہ کا زہر پھیلا دیا ہے اسکیخاتمہ کے لئے سماجی مہم اور سماجی اتحاد ضروری ہے ۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ 
06؍ جون 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا