English   /   Kannada   /   Nawayathi

روزہ کی حفاظت بھی اتنی ہی اہم ہے

share with us

حفیظ نعمانی


برادر عزیز سید وقار مہدی رضوی نے روزہ افطار آج شام 4 بجے لکھ کر دل کا درد ملت کے سامنے رکھ دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ یا اس طرح کی پارٹیاں روزہ کے ساتھ ایک طرح کا مذاق ہے۔ میرے اپنے ذہن کی بات یہ ہے کہ روزہ وہ ایسی اکیلی عبادت ہے جس کے بارے میں پاک پروردگار نے فرمایا ہے کہ ’’الصوم لی وانا اجری بہی‘‘ روزہ میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی دوں گا۔ یہ بات مالک دو جہاں نے نہ نماز کے بارے میں فرمائی نہ زکوٰۃ کے بارے میں نہ حج کے بارے میں اور حد یہ ہے کہ نہ جہاد اور شہادت کے بارے میں جبکہ ہر عبادت اللہ کے لئے کی جاتی ہے۔ روزہ کا افطار 15 گھنٹے کے بعد ہو یا انگلینڈ میں 18 گھنٹے کے بعد ہو یا دنیا کے کسی اور ملک میں اس کے حساب سے کم زیادہ وقت کے بعد ہو ا س روزہ کا افطار ہے جو بندہ نے صرف اللہ کیلئے رکھا اور اس کے حکم سے افطار کیا اور کرایا۔
حضور اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ جس نے رمضان میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا۔ اور افطار کرانے والے کو روزہ دار کے برابر ثواب بھی دیا جائے گا۔ اس کے باوجود روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ کسی صحابیؓ نے دریافت کیا کہ اگر کسی کا افطار کرانے کی حیثیت نہ ہو تو وہ اس ثواب سے محروم رہے گا؟ آپؐ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اس کو بھی اتنا ہی ثواب دے گا جو ایک گھونٹ دودھ یا کھجور یا پانی سے ہی افطار کرادے۔ حضور اکرمؐ نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے گا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض کوثر سے ایسا سیراب کرے گا کہ اس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ اور جو شخص اس مہینہ میں اپنے خادم کے کام میں تخفیف کردے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا۔ یہ روزہ کی وہ برکتیں ہیں کہ اس سے وابستہ ہر بات اور عمل پر اللہ تعالیٰ نے ایسے انعام کی یقین دہانی فرمائی ہے جو برسوں کی عبادت کے بعد بھی نہیں مل سکتا۔ کہا جاسکتا ہے کہ دوزخ سے نجات گناہوں سے (وہ کتنے ہی ہوں) معافی اور دوسرے روزے داروں کے برابر ثواب یعنی اگر آپ دس روزہ داروں کو افطار کرائیں تو انشاء اللہ دس روزوں کا ثواب پائیں گے۔
اب ان افطار پارٹیوں کا تصور کیجئے جو صرف دنیا کے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے کرائے جائیں اور اس میں کوئی جیّد نہ ہو کہ افطار کرنے والا روزہ دار ہے بھی یا نہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کا ماننے والا بھی ہے یا نہیں ہے؟ جس نے روزہ فرض کیا ہے اور جو افطار کرانے والے کو طرح طرح کے انعام دے گا؟ ہمیں یاد ہے کہ ایک سال میرٹھ میں حاجی یعقوب قریشی نے ایک لاکھ لوگوں کو (روزہ داروں کو نہیں) افطار کرایا تھا۔ یا بقول وقار رضوی صاحب کے شکلا جی ٹھاکر صاحب اگروال صاحب بھٹناگر صاحب شرما جی اور ورما جی کو بلاکر افطار کرائے اور ان کے ساتھ سیکڑوں میں چند روزہ دار بھی ہوں جو اپنے روزہ کی حفاظت کی فکر میں پریشان ہوں ان کی طرف توجہ بھی نہ کرے۔
تیس چالیس سال پرانی بات ہے کہ یوپی کانگریس کے صدر کا نیا نیا تقرر ہوا تھا الیکشن قریب تھا اور ٹکٹ کے بھکاری نئے صدر کے دل میں اپنا مقام بنانے میں مصروف تھے۔ ہمارے پریس میں کانگریس کا بہت کام چھپتا تھا اس سلسلہ میں ہمارا آنا جانا بھی بہت تھا کہ اتفاق سے رمضان شریف آگئے اس میں نئے صدر کو اس پر آمادہ کیا گیا کہ وہ روزہ افطار کرائیں تاکہ مسلمان ووٹ مل جائیں۔ اور پھر اعلان ہوگیا کارڈ بھی چھپ گئے اور ہر حلقہ کے اُمیدوار نے جتنے ممکن ہوئے کارڈ لے لئے۔ ہم سے متعلق دوستوں نے ضد کی کہ تم کو چلنا ہے ان سے بہت کہا کہ ہم کہیں بھی ایسے افطار میں نہیں جاتے مگر کچھ تعلقات ایسے ہیں کہ قربانی دینی پڑتی ہے۔ ہم گئے تو جاکر دیکھا کہ جتنے شرفاء، علماء، اساتذہ ندوہ اور سلطان المدارس، یونیورسٹی اور کالجوں سے متعلق اور اہم مساجد کے امام سب کھڑے ہیں اس لئے کہ کرسیوں پر پکڑکر لائی ہوئی ہندو عورتیں بیٹھی ہیں اور افطاری کے سامان پر بھوکی بلیوں کی طرح ٹوٹی پڑرہی ہیں۔ دور ایک کنارہ پر ایک ڈرم رکھا تھا جس میں شربت تھا ایک ذمہ دار کو بلاکر میں نے کہا کہ یہ جو روزہ دار کھڑے ہیں ان کو ایک ایک گلاس شربت تو دے دو یا ایک ایک کھجور اور پانی ہی دے دو وہ شربت لے کر چلے تو راستے میں ان دیویوں نے ہی چھین لئے اور وہ ایک بالٹی پانی کہیں سے لائے تو ہم سب نے افطار کیا اور ایک کمرہ میں نماز کا انتظام تھا وہاں جاکر نماز پڑھی۔ منتظمین میں جو جس کو بلاکر اور اصرار کرکے لایا تھا وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا اور کسی دوسرے پر الزام لگا رہا تھا۔ اور نئے صدر صاحب حیران کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے کہ اسے روزہ افطار کہتے ہیں؟
افطار کے بارے میں حدیث ہے کہ روزہ افطار کے پہلے جو چند لمحے ہوتے ہیں اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ ہم گناہگار ہمیشہ اس کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے گھر کے علاوہ کہیں افطار نہ کریں جہاں ہر کوئی دعا میں مصروف ہوتا ہے اور نظر گھڑی پر ہوتی ہے کیونکہ ہم اس ملک کے قائل ہیں کہ افطار میں عجلت کرو اور سحر میں تاخیر اور یہ وقت صرف اپنے گھر میں نصیب ہوسکتی ہے۔
سرکاری اور سیاسی افطار کے بارے میں شاید ہی ہمیں ایک دو جگہ کے علاوہ کہیں کسی نے دیکھا ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہاں کھانے کی ہر چیز کھجور اور پھلوں کے علاوہ جن ہاتھوں سے تیار ہوتا ہے ان کا پاکی کا معیار وہ نہیں ہوتا جو شریعت کا پیمانہ ہے۔ ایک دن کچہری کے بار میں بیٹھے ایک وکیل سے بات کررہے تھے ایک دوست بھی ساتھ تھے بار کے برابر میں پیشاب گھر تھا اس کے قریب گلاسوں میں پانی بھرا رکھا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ جو وکیل پیشاب کرنے جاتاہے وہ ایک گلاس پانی پی کر جاتا ہے اور باہر آکر نل سے ہاتھ دھوتا ہے۔ ہمارے دوست نے کہا کہ جس چیز کو پیشاب کے بعد دھونا چاہئے اسے تو دھوتے نہیں ہاتھ دھولیتے ہیں! ہوٹلوں میں افطاری کا سامان بنانے والے اور کھانے میں مرغ ہو یا گوشت ان کے حلال اور حرام کا کیا بھروسہ اس کا ایک ہی حل ہے کہ اگر کوئی غیرمسلم افطار پر بلائے تو شکریہ ادا کرکے معذرت کردینا چاہئے اور اتنا ضرور کہہ دینا چاہئے کہ روزہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی بھی ہے اور اسی لئے ہر چیز سے زیادہ نازک کیا خبر کہاں زبان سے کیا نکل جائے اور روزہ پاش پاش نہ ہو تو اس میں بال ہی آجائے۔ یہ وہ نقصان ہوگا جس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔
اس حقیر کے نزدیک اس کا صرف ایک حل ہے کہ نہ اجتماعی افطار کرایا جائے اور نہ ایسے افطار میں شرکت کی جائے نہ غیرمسلموں کو اپنے افطار میں بلایا جائے ور نہ وہ اگر بلائیں تو شرکت کی جائے۔ کیونکہ رمضان شریف کا جو روزہ ہے وہ اگر داغدار ہوگیا تو وہ نہیں ملے گا چاہے سال بھر روزہ رکھو اللہ تعالیٰ نے جن روزوں پر انعام کی بارش کا وعدہ فرمایا ہے وہ رمضان شریف کے روزے ہیں جن میں ہر نیکی کا ثواب 70 گنا ہوجائے گا۔ بڑا بدنصیب ہے وہ جو رمضان کے روزہ کی حفاظت نہ کرے یا اس کی قیمت نہ سمجھے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
04؍جون2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا