English   /   Kannada   /   Nawayathi

آزاد ہندوستان میں مسلم خواتین کا حال

share with us

عارف عزیز(بھوپال)

کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی میں عورتوں کا مردوں کے برابر حصہ ہوتا ہے ، مردوں کے ساتھ عورتیں بھی سماجی اور اقتصادی میدان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرکے آگے بڑھ سکتی ہیں، جن معاشروں میں ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ان میں عورتوں کو آگے بڑھنے کے پورے مواقع میسر نہیں ہیں، جہاں تک ہندوستان کے عام معاشرہ کا تعلق ہے تو اس میں عورتوں کی حصہ داری، دن بدن بڑھ رہی ہے لیکن مسلم معاشرہ کے بارے میں ایسا کوئی دعویٰ کرنا اس لئے سچ نہیں ہوسکتا کہ مسلمان خود ہر مورچہ پر پچھڑتے جارہے ہیں، اسی تناسب سے ان کی عورتیں بھی دوسرے سماجوں سے کافی پیچھے ہیں، عام طور پر اس کی وجہ مذہبی بتائی جاتی ہے جبکہ یہ خالصتاً اقتصادی وسماجی مسئلہ ہے، اس سچائی کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اسلام مذہب کی عورتوں کے بارے میں تعلیم پر ہم نظر ڈال لیں۔
اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو مرد کے برابر مقام دیا ہے بلکہ سماج کی تشکیل میں عورت کو مرد سے زیادہ اہمیت دی ہے، اسلام کی نظر میں عورت معمار اول کا درجہ رکھتی ہے، عورت اور مرد انسانیت کی گاڑی کے دوپہیے ہیں، کسی ایک پہیے کے بغیر انسانیت کی ترقی وعروج کا تصور نہیں کیاجاسکتا، قرآن حکیم نے عورت کے حقوق اور معاشرہ میں اس کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے اور جو بھی احکامات دےئے ہیں، ان میں عورت اور مرد دونوں برابر کے شریک ہیں، ایک موقع پر اردو کے معروف اسکالر اور شاعر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’قرآن کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں عورتوں کے حقوق اور ان کی اہمیت پر اتنا زور دیا گیا ہے کہ گویا یہ کسی عورت کا کلام ہو، ان حقوق واختیارات کی لسٹ کافی طویل ہے لہذا ان کے عنوانات پر ہی نظر ڈال لینا کافی ہوگا، اسلام نے مرد اور عورتوں میں حقوق کی مساوات رکھی ہے، عورت کی مستقل حیثیت کو تسلیم کیا ہے، سزا اور معافی میں مرد اور عورتوں کو برابر رکھا ہے، عورت دشمن کو پناہ دینے کا اختیار رکھتی ہے عورت کو اپنے شوہر کے انتخاب کے ساتھ ساتھ وراثت میں بھی حق ہے، جو اسے ماں باپ اور شوہر دونوں کی طرف سے ملتا ہے۔ اسی طرح مسلم عورت کو عزت وآبرو کی حفاظت کا حق، نکاح سے گلوخلاصی کا حق اور علم حاصل کرنے کا حق ہے جس کے تحت عورت مذہبی اور عومی تعلیم اسی طرح حاصل کرسکتی ہے، جس طرح مرد حاصل کرتے ہیں، اسلام جہیز دینے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا پھر بھی جو لوگ دیتے ہیں وہ لڑکی کے لئے ہوتا ہے جبکہ دوسرے سماجوں میں جہیز مردوں کا حق ہوجاتا ہے، اسلام نے عورتوں کی جسمانی (فزیکلی) کمزوری کا اندازہ لگاکر انہیں خاوند اور اولاد کے علاوہ، خاندان کے دوسرے افراد کی خدمت سے مبرا رکھا ہے، یہاں تک کہ عورت پر گھر کے کام وکاج کی ذمہ داری بھی عائد نہیں ہوتی، ایسے مثالی حقوق واختیارات کے باوجود مسلم عورتیں اگر آج پسماندگی کا شکار ہیں اور ان سے ہمدردی کے جاوبے جا اظہار کی ضرورت پیش آرہی ہے تو اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو پہلے بیان کی گئی یعنی مسلم قوم کی عام غریبی، مسلم عورتوں کو بااختیار وطاقتور بنانے کے ساتھ ساتھ عام مسلم مردوں کی بدحالی کی فکر بھی ہونا چاہئے، ان کے بھوکے پیٹ، کمزور جسم اور تعلیم سے محروم بچوں کا خیال بھی ضروری ہے کیونکہ اس سچائی سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ جب تک عام مسلمانوں کا حال درست نہیں ہوگا، ان کا معیار زندگی بہتر نہ بنے گا، نہ ان کی عورتوں کی حالت سدھرے گی ، نہ وہ اپنے بال بچوں کو پڑھا لکھا سکیں گی۔
آج یہ حقیقت تسلیم کرلی گئی ہے کہ جن فرقوں یا نسلی گروہوں میں آبادی بڑھنے کا تناسب زیاد ہ ہے، اس کی وجہ عام طور پر ان کی غریبی ہوتی ہے، جس کو دور کیا جانا چاہئے، مسلم خواتین سے ہمدردی جتانے کا ایک بہانہ یہ بھی ہے کہ ایک سے زیادہ شادی کی مسلم پرسنل لا میں جو اجازت ہے اس پر انگلی اٹھائی جائے لیکن دوسرے سماجوں خاص طور پر پچھڑے آدیباسیوں یا اسی طرح کے دوسرے طبقوں میں یہ رواج مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے جس کی تصدیق ہوچکی ہے ۔گذشتہ دنوں ریاست گجرات کے بارے میں ایک سروے سب کے لئے باعث حیرت ثابت ہواہے جس میں بتایاگیا تھا وہاں دوسری بیوی رکھنے کا تناسب دیگر ریاستوں کے مقابلہ میں ہندوؤں میں کافی زیادہ ہے۔ 
میں یہاں دوسروں کی مثال نہیں دیتا صرف اپنا تجربہ بیان کرتا ہوں کہ میرا خاندان جو بھوپال شہر کا ایک کافی بڑا خاندان ہے، اس کے ممبروں کی تعداد آج ساڑھے تین ہزار سے کم نہیں ہوگی، اس خاندان کی سوسالہ تاریخ میں صرف دو مثالیں ایسی سامنے آئی ہیں جن میں ہمارے خاندان کے مردوں نے ایک سے زیادہ یعنی دوبیویاں بیک وقت رکھی ہیں، اس لئے یہ سوچنا مجھے صحیح نہیں محسوس ہوتاکہ مسلم عورتوں یا مردوں کی بدحالی میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا بھی کوئی حصہ ہے۔
مسلم خواتین کے پچھڑے پن کی دوسری وجہ ان کی غریبی سے پیدا ہونے والی جہالت ہے، اس کی وجہ سے وہ اپنے مذہب کی روشن تعلیمات سے دور ہیں ان کے کام اسلام اور اس کے ضابطوں کے عام طور پر خلاف ہوتے ہیں، اگر مسلمان اپنے مذہب پر آج کاربند ہوجائیں اور اس کی اخلاقی قدروں کو اپنالیں تو جہاں اس سے ان میں خواندگی بڑھے گی کیونکہ اسلام نے تعلیم پر سبسے زیادہ زور دیا ہے وہیں سماج میں عورتوں کے اہمیت میں بھی اضافہ ہوگا، آج قانون ساز اداروں میں خواتین کے لئے ریزرویشن کا مطالبہ ہورہا ہے اور اس بارے میں دلیل یہ دی جارہی ہے کہ ہندوستان کے ڈیموکریٹک سسٹم میں ان کو پورا حق نہیں مل پارہا ہے، مگر عام عورتوں کے مقابلہ میں مسلم عورتوں کی پس ماندگی کسی سے چھپی نہیں ہے تو پھر ان کے لئے بھی ایسے انتظام پر غور کیوں نہیں کیاجاتا کہ وہ بھی اپنی آبادی کے تناسب میں چن کر پارلیمنٹ ، اسمبلی اور پنچایتوں میں پہونچ سکیں کیونکہ عام عورتوں کیلئے ریزرویشن کا فائدہ مسلم عورتوں کو ملنا موجودہ حالات میں ناممکن نہیں تودشوار ضرور ہے، میرا تو یہ بھی کہنا ہے کہ آزاد ہندوستان میں ہمدردی کی مستحق مسلم خواتین ہی نہیں عام عورتیں بھی ہیں، ان کے مسائل اور عام عورتوں کے مسائل میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، ہمارے سماج میں عورتوں کو نظر اندازکرنے کی روایت صدیوں پرانی ہے اور آج اس کے نئے نئے طریقے سامنے آرہے ہیں، یہاں لڑکی کے ساتھ اس کی پیدائش سے پہلے بدسلوکی شروع ہوجاتی ہے ، بہت سی لڑکیوں کو ماں کے پیٹ میں ہی قتل کردینا اب کئی گھرانوں کا رواج بن گیا ہے جس کی وجہ سے عورتوں کی آبادی کم ہورہی ہے اس کے علاوہ بچپن سے لیکر جوانی تک لڑکیوں کی دیکھ بھال ان کی تعلیم ، صحت اور ترقی وبہتری کے مختلف پہلوؤں کو نظر انداز کردینے کی روایت عام ہے، اس میں ہندو مسلم کی قید نہیں، تامل ناڈو اور راجستھان کی بعض برادیوں میں پیدا ہوتے ہی لڑکی کو مار دیاجاتا ہے، بچپن میں شادی کی روک تھام کے قانون کے باوجود شمالی ہند کی کئی ریاستوں میں یہ رسم آج بھی پھل پھول رہی ہے، بہت سے کنبوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو یہ کہہ کر ٹال دیاجاتا ہے کہ لڑکی کو تو دوسرے خاندان میں جاکر گھریلو عورت کی ذمہ داریاں سنبھالنا ہے لہذا اس کو اسکول بھیجنا فضول ہے، اس حقیقت کو وہ نظر انداز کردیتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرکے ان کی بیٹی ایک اچھی بیوی اور ماں بن سکتی ہے۔ ہندوستانی سماج میں جہیز کی روایت اسی بات کو ظاہر کرتی ہے کہ عورت مرد سے کمتر ہے، ا س بری رسم کی وجہ سے دلہنیں آگ کا ایندھن بن رہی ہیں، عورت کی حیثیت فریج، ٹی وی، اسکوٹر اور کار سے بھی کم ہوگئی ہے جس کے جہیز میں نہ ملنے سے اسے خودکشی پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ 
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے سماج نے جہیز، ستی، تلک اور عصمت دری جیسی سماجی برائیوں کی روک تھام نہ کی ہو، جو عورتوں کو دوسرے درجہ کا شہرہ بنادیتی ہیں، آزادی کے بعد متعدد قانون بنائے گئے، جن کا مقصد عورتوں کے ساتھ جانبداری کو ختم کرنا تھا لیکن اگر قانون بنانے سے ہی عورتوں کا رتبہ بلند ہوجاتا تو آج ان کی صورت حال اچھی ہوتی۔ اب تک کے تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون اسی وقت کامیاب ہوتا ہے جب ان کے بارے میں سماج میں بیداری ہو۔
کوئی ملک اور سماج کتنے مہذب معاشرہ کا حامل ہے، اس کا اندازہ چار باتوں سے لگایاجاسکتا ہے، اتفاق سے یہ چاروں باتیں عورت سے متعلق ہیں۔ پہلی بات آبادی یعنی مردوں اور عورتوں کا تناسب کیا ہے؟ دوسری بات عورتوں میں خواندگی کتنی ہے؟ تیسری زچگی کے دوران کتنی عورتیں موت کا شکار ہوجاتی ہیں؟ چوتھی زچگی کیلئے سہولتیں کیا کیا ہیں؟ افسوس یہ ہے کہ ہندوستان میں ان چاروں باتوں کے بارے میں وہ سمجھ پیدا نہیں ہوسکی جو ضروری تھی لہذا عورت کسی فرقہ اور مذہب سے تعلق رکھتی ہو اس کے مسائل ومشکلات ایک جیسی ہیں اور ان پر ایک ساتھ توجہ دینا چاہئے اور اس بارے میں صرف قانون بنادینا یا ان میں تبدیلی لانا کافی نہ ہوگا کیونکہ جو قانون موجود ہیں اگر ان کا صدق دلی سے نفاذ ہوجائے تو آج صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔


مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
06؍ جون 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا