English   /   Kannada   /   Nawayathi

مادری زبان بچے کے ذہن کے لئے بوجھ نہیں بنتی، اس کے وجود میں سرائیت کرجاتی ہے

share with us

عارف عزیز(بھوپال)

اب اسکول کھل رہے ہیں اورہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ بچے کیا پڑھیں کون سے مضمون لیں ، کون سی زبانیں سیکھیں اور آگے چل کر زندگی میں کامیابی حاصل کریں۔ ظاہر ہے یہ فیصلہ آسان نہیں ہوتا لیکن اس سے پہلے کہ ہم کوئی قدم اٹھائیں یہ اچھا ہوگا کہ ہمارے سامنے جو راستے کھلے ہیں ان پر غور وخوض کرلیا جائے۔ 
جن گھروں میں اردو بولی، سمجھی اور پڑھی جاتی ہے ان میں اس بات پر بھی سوچ بچار ہوتا ہے کہ کیا بچوں کو اسکولوں میں اردو بھی پڑھوائی جائے یا نہیں۔ اس سلسلہ میں کچھ لوگوں کے ذہن میں بعض سوالات بھی اٹھتے ہیں۔ ان کو یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ اردو پڑھانے سے بچے کے دماغ پر ایک مضمون کا اور بوجھ بڑھ جائے گا پھر یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اردو پڑھا کر کیا کریں گے، اردو پڑھنے سے نوکری ملے گی یا نہیں۔
لیکن اس کے برخلاف دوسرے کئی اہم سوالات بھی ہیں اردو ہمارے گھروں کی زبان ہے۔ وہ ہم آسانی سے سمجھتے ہیں اور قدرتی انداز سے بے ساختہ بولتے ہیں۔ ہم اپنے خیالات اور جذبات کا جس اعتماد کے ساتھ اردو میں اظہار کرلیتے ہیں وہ کسی اور زبان میں نہیں کرسکتے کیونکہ ہم جس طرح اپنی زبان میں اپنی ضرورت کے لحاظ سے الفاظ آسانی سے ڈھونڈ لیتے ہیں وہ کسی بھی دوسری زبان میں ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اور ہم ’’مطلب ہے‘‘ کیا کہتے ہیں ’’یعنی‘‘ کہہ کہہ کر لفظ ٹٹولتے رہتے ہیں۔
اس سلسلہ میں بعض پہلوؤں پر نیچے بحث کریں گے۔ اگر آپ اس بحث سے اتفاق رکھتے ہیں تو ان مسئلوں پر اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے بھی گفتگو کیجئے۔ اور انہیں اس پر تیار کیجئے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول میں اردو کا مضمون دلوائیں پھر بچوں کو اسکول میں اردو پڑھوانے کے علاوہ گھروں میں بھی ان کی مدد کریں اور ان میں اردو پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا کریں۔
بعض اصحاب اپنے بچوں کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں تو پوری دلچسپی رکھتے ہیں کہ وہ انگریزی اور ہندی پڑھیں لیکن انہیں اردو پڑھانے کی بات آتے ہیں وہ اس بات سے پریشان ہوجاتے ہیں کہ تین تین زبانوں کابوجھ بچوں کا ذہن کیسے برداشت کرے گا انہیں اس سے تشویش نہیں ہوتی کہ بچے کو تاریخ ، جغرافیہ، سائنس، ریاضی اور کیا کیا پڑھنا پڑے گا اور پھر جیسے جیسے بچہ اوپر کے کلاسوں میں پہونچتا جائے گا، یہ مضمون شاخ در شاخ کتنے پھلتے اور بڑھتے جائیں گے۔ ریاضی صرف جوڑنا گھٹانا نہیں رہے گی وہ الجبرا، جامیسٹری اور کتنے نئے مضامین کا احاطہ کرنے لگے گی اور بچہ ان مضمونوں کی باریکیوں میں مہارت حاصل کرے گا اور وہ ذہن پر بوجھ ہونے یا مضامین کی تعداد زیادہ ہونے کی شکایت نہیں کرے گا۔
پھر پڑوس میں کسی دوسری زبان کو بولنے والے گھرانے کو دیکھئے مثلاً کیرالہ سے آنے والے ایک خاندان کے بچے اسکول میں انگریزی پڑھتے ہیں۔ پاس پڑوس میں ہندی میں بات چیت کرتے ہیں اور گھر میں ملیالم بولتے اور پڑھتے ہیں او رکبھی شکایت نہیں کرتے کہ ان کے دماغ پر بوجھ پڑ رہا ہے۔
اس وہم کو دماغ سے نکال دیجئے کہ مادری زبان بچے کے ذہن کے لئے بوجھ ہوسکتی ہے۔ وہ اس کے سانس کے ساتھ ساتھ اس کے وجود میں سریت کرجاتی ہے۔ اپنے زبان کے الفاظ ان کے بولنے کا ڈھنگ زبان کے محاورے ، کہانیاں، لطیفے، بچوں کی ذہنی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اپنی زبان میں بولنا اس کا فطری اظہار ہے۔ اسے پنپنے کا موقع دیجئے اسی میں بچے کے خواب اور تمنائیں، پنپتی ہیں، اسی میں اس کی انفرادیت، اس کی شخصیت کا انوکھا پن ابھرتا ہے۔ اس کی مدد سے اس کے اندر کا فنکار نشوونما حاصل کرتا ہے۔ کیا آپ یہ ظلم کرنا چاہیں گے کہ آپ اپنے بچے کو ایک اچھا شاعر، ایک اچھا مقرر، ایک اچھا فنکار، ایک اچھا پیار کرنے والا انسان نہ بننے دیں اور اس کی قدرتی صلاحیتوں کو اس کی شخصیت میں جڑپکڑنے سے پہلے ان کا گلا گھونٹ دیں۔ 
اس لئے آپ بچوں کو اردو پڑھائے تاکہ انہیں اپنی مادری زبان کو پورے اعتماد کے ساتھ استعمال کرنے کی طاقت حاصل ہوسکے۔ 
یہ جھوٹ ہے کہ اردو پڑھنے والا نکما رہتا ہے اردو سے روزگار نہیں ملتا۔ روزگار کا اصول دوسرا ہے۔ مانگ ہوگی تو مانگ کو پورا کرنے کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، مانگ پیدا کیجئے تو روزگار پیدا ہوگا، اردو کی مانگ اردو بولنے والے ہی پیدا کرسکتے ہیں۔ تیلگو، بنگلہ یا مراٹھی بولنے والے یہ مانگ نہیں پیدا کریں گے۔ اردو پڑھئے اور پڑھائیے تو اردو جاننے والوں کو روزگار ملے گا۔ اردو کے اخبار پڑھیں گے تو اخبار زیادہ چھپیں گے ان اخباروں کو پڑھنے والوں کی تعداد بڑھے گی تو اشتہار دینے والے اشتہاردیں گے آپ اردو رسالے پڑھیں گے تو اردو میں لکھنے والوں کو بھی روزی ملے گی انہیں دوسرے لوگ بھی پہچانیں گے پھر وہ مشاعروں، تہذیبی مجلسوں، ریڈیو ، ٹی وی اور فلموں وغیرہ میں بھی پہونچیں گے۔ اردو کی کتابیں پڑھیں گے تو اردو کی کتابیں چھاپنے والوں، اردو کے کمپوزیٹروں ، جلدسازوں کو روزگار ملے گا کسی بھی زندہ سماج میں صرف سرکاری روزگار مہیا نہیں کراتی۔ اصل روزگار تو سماج کے اندر پیدا ہونے والی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے پیدا ہوتا ہے۔ اردو پڑھئے اور پڑھائیے تاکہ اردو کے ذریعہ اردو سے جڑے ہوئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں۔
یہ صحیح ہے کہ اردو جاننے والوں کے تناسب میں ان کے لئے مواقع کی کمی ہے۔ لیکن جو مواقع موجود ہیں ان سے پورا پورا اور بہتر سے بہتر صلاحیت کے ساتھ فائدہ اٹھانا بھی نہایت ضروری ہے۔ اس وقت یونین پبلک سروس کمیشن اور بعض دوسرے اداروں نے اردو کو وسیلہ اظہار یا بطور مضمون اختیار کرنے کی سہولت دے رکھی ہے۔ کئی صوبوں میں محکمات تعلقات عامہ (پبلسٹی دفتروں) میں بھی اردو کا استعمال ہورہا ہے۔ اخبارات کے رجسٹرار نے جو اعداد وشمار جاری کئے ہیں ، ان کے مطابق ہندوستان میں اردو میں شائع ہونے والے اخبارات ورسائل کی تعداد زبانوں کے اعتبار سے تیسرے چوتھے نمبر پر ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن وغیرہ پر اردو خبروں اور دوسرے پروگراموں کی کافی گنجائش ہے ہم اردو کے وسیلے کے ساتھ معیاری کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ تو ان مواقع میں اور توسیع ہوگی۔ بات صرف اتنی نہیں ہے کہ آپ کو ٹوٹی پھوٹی اردو آئے۔ آپ کام چلاؤ اردو زبان سے کام لیں۔ ٹوٹی پھوٹی اور کام چلاؤ ہندی اور انگریزی سے بھی کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہونچتا۔ اگر لوگ یہ سمجھ لیں کہ اردو مضمون لے کر امتحان میں آسانی سے اچھے نمبر مل جاتے ہیں تو بغیر قابلیت کے اچھے نمبر حاصل کرلینے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ آگے چل کر مایوسی ہی ہوگی۔ اس سہل پسندی سے عام لوگوں میں بھی یہ خیال پیدا ہونے لگا ہے کہ اردو میں پڑھنے لکھنے والے کوئی خاص محنت نہیں کرنا چاہتے اور وہ سماجی علوم اور سائنسی موضوعات کے بارے میں اچھی معلومات نہیں رکھتے۔ ہمیں اردو میں قابلیت پیدا کرکے اور اردو کو اعلیٰ علمی ضرورتوں کا وسیلہ بناکر اس کھوئے ہوئے اعتماد کو پھر سے بحال کرنا ہے جو اسے ۵۰۔۶۰ سال پہلے ہمارے ملک میں حاصل تھا اور شعر وادب ، صحافت وخطابت، فلم اور ڈرامے ہر حلقہ، ہر میدان میں ا ردو جاننے والوں کا پلڑا بھاری رہتا تھا، اردو زبان کی طرف ذہین طالب علموں کو متوجہ کیجئے ان میں بہترین صلاحیتیں پیدا کیجئے تاکہ ہم اپنے آپ کو بہتر مواقع کا اہل ثابت کرسکیں۔ 
یاد رکھئے! ماہرین تعلیم کی متفقہ رائے ہے کہ بچوں کی تعلیم کی شروعات ان کی مادری زبان سے کی جائے کسی زبان کا ذوق پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بچہ کو اسکول بھیجنے سے قبل کم از کم چھ ماہ اسے گھر میں اردو پڑھائیں تاکہ مادری زبان اس کی گھٹی میں پڑجائے، انسانی فطرت ہے کہ ہر ذی شعور اپنے بچوں کیلئے خود تکلیف اٹھاکر کوشش کرتا ہے کہ اس کی خاندانی وراثت اولاد میں منتقل ہوجائے، کیا اردو کو اپنی زبان کہنے کا دم بھرنے والے اپنے بچوں کو اردو پڑھاکر یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں اگرنہیں تو کیوں؟ اس سوال کا جواب کسی اور کو نہیں، ہمیں ہی دینا ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کامتفق ہوناضروری نہیں۔ 
24؍ مئی 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا