English   /   Kannada   /   Nawayathi

اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورتوں کو سب سے زیادہ حق دیا ہے: چیرمین لا کمیشن شریعت اسلامی میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے : مسلم پرسنل لا بورڈ

share with us

نئی دہلی :23؍مئی2018(فکروخبر/پریس ریلیز)مؤرخہ ۲۱؍مئی ۲۰۱۸ء بروز پیر دن کے بارہ بجے مسلم پرسنل لا بورڈ کا ایک مؤقر وفدنے بورڈ کے نائب صدر حضرت مولانا سید جلال الدین عمری ھصاحب کی قیادت میں لا کمیشن کے چیرمین جناب جسٹس بلبیر سنگھ چوہان صاحب سے ملاقات کی اس مؤقر وفد میں درج حضرات نے شرکت فرمائی:
۱۔حضرت مولانا سید جلال الدین عمری صاحب نائب صدر بورڈ ۲۔حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب سکریٹری بورڈ
۳۔حضرت مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی صاحب رکن عاملہ بورڈ ۴۔حضرت مولانا قاری محمد یعقوب خان قادری صاحب رکن بورڈ
۵۔جناب ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس صاحب رکن عاملہ بورڈ ۶۔جناب کمال فاروقی صاحب رکن عاملہ بورڈ
۷۔جناب ایم آر شمشاد ایڈوکیٹ صاحب رکن بورڈ ۸۔جناب شکیل احمد سید ایڈوکیٹ صاحب رکن بورڈ
۹۔جناب مولانا نیاز احمد فاروقی ایڈوکیٹ صاحب رکن بورڈ ۱۰۔مولانامفتی محمد اعجاز ارشد قاسمی صاحب رکن بورڈ
۱۱۔جناب نصرت علی صاحب رکن عاملہ بورڈ ۱۲۔جناب محمد ہلال صاحب دہلی
۱۳۔مولانا ڈاکٹرمحمد وقارالدین لطیفی صاحب آفس سکریٹری بورڈ
طے شدہ وقت کے مطابق لاکمیشن کے دفتر واقع لوک نایک بھون خان مارکیٹ نئی دہلی میں میٹنگ شروع ہوئی جناب جسٹس بلبیر سنگھ چوھان صاحب چیرمین لاکمیشن نے اپنی گفتگو کا آغاز استقبالیہ کلمات سے کرتے ہوئے بتایاکہ اس نشست کا مقصد یہ تھا کہ کیاکسی بھی مذہب کے مذہبی قانون کے بہتر اور مفید حصہ کو لے کر ایک نیا قانون بنایا جاسکتاہے یا ان قوانین میں کچھ جزوی ترمیم کی جاسکتی ہے کہ جس پر ہر ہندوستانی کا عمل کرنا آسان ہو اور لوگوں کا اس میں فائدہ بھی ہو اور سہولت بھی ،لیکن یہ بھی یہاں پیش نظر رکھنا ہوگا کہ اس طرح کا ڈرافٹ تیار کرتے وقت خاص طور پر دیکھنا ہوگا کہ کسی بھی مذہب کے بنیادی حصہ میں دخل نہ ہو اس لئے کہ ہمیں کسی بھی مذہب کے بنیادی قانون میں کوئی دخل نہیں دینا ہے اور ہم یونیفارم سول کوڈ پر بھی بات نہیں کریں گے۔اسی طرح وہ بنیادی معاملات جیسے طلاق ثلاثہ، ایک سے زائد شادی، حلالہ وغیرہ کے معاملات پر ہم کچھ بات نہیں کریں گے اس لئے کہ یہ معاملے عدالت میں ہیں۔ وراثت اور خاص کر یتیم پوتے کی وراثت میں کیا گنجائش ہے؟ شبنم ہاشمی کیس کے فیصلہ کا مسلم پرسنل لا پر کیا اثر پڑتا ہے؟، اس لئے کہ فیصلہ میں صاف ہے کہ آپ اپنے یا غیر یا کسی کو بھی متبنی بناسکتے ہیں اور یہ فیصلہ شریعت اسلامی میں کس حدتک اثر انداز ہے؟ اور اسلامی شریعت میں لڑکیوں کو عام طور پر لڑکوں کا آدھا اور بعض صورتوں میں الگ الگ حصہ دیاجاتا ہے تو آخر اس کی کیا حکمت ہے؟بیوہ؍مطلقہ عورت کے نفقہ اور اس کے بچوں کی کفالت اور خاص کر بچے کی کفالت اور کسٹڈی کس کے ذمہ رہے گی اور کون اس کا ذمہ دار ہوگا؟۔ اور ان سب میں اسلامی قانون کے اندر کیا گنجائش ہے ؟ اور کس طرح اس کومزید مفید بنایاجاسکتاہے؟۔
چیئرمین صاحب نے مزید کہا کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے شروع سے عورتوں کو سب سے زیادہ حق دیا ہے،اور اسلام میں ایک تہائی جائیداد کی وصیت کو نہ صرف بہتر بتایا بلکہ یہ بھی کہا کہ اسلام کا یہ سسٹم مجھے ذاتی طور پر بہت اچھا لگتاہے ۔رمضان کے بعد ایک میٹنگ اور ہم چاہیں گے اور اسمیں ہم کو تحریری جواب کی ضرورت ہوگی،انہوں نے کہا کہ ہم پہلے پانچ چھ سوالوں کی مکمل فہرست آپ کو فراہم کرائیں گے پھر آپ اطمینان سے عید کے بعد تحریری جواب دیدیں اس کے لئے ایک مرتبہ اور ہم لوگ ایک ساتھ بیٹھیں گے ۔ اور یہ بھی دھیان رھے کہ ہم پرسنل لا کے بنیادی حصہ کے تعلق سے کوئی بات نہیں کررہے ہیں، بلکہ آپسی مشورہ سے آج کی تاریخ میں ہمارے معاشرہ میں جودشواری پیش آرہی ہے اس پریشانی اور دشواری کو دور کرنے کی کیا شکل ہوسکتی ہے۔اس پر غور ہوگا۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے مؤقر وفد نے بالترتیب جواب دیتے ہوئے کہا کہ:
بیوہ اور یتیم پوتے کو اپنے شوہر یا باپ کی جائیداد میں حصہ ملیگا البتہ دادا اپنی جائیدادمیں سے بہو اور پوتے کو بھی دے سکتا ہے اور اگر اس نے اپنی زندگی میں نہیں دیا تو بعد میں کیسے ملیگا۔ اگر دادا نے وصیت کی ہو تو ملیگا، نفقہ اور وراثت دونوں الگ الگ چیز ہے۔ اور بیوہ مائیکہ اور سسرال دونوں گھروں سے اسی طرح جڑی اور بندھی رہتی ہے اور اپنے باپ کی جائیداد میں وہ خود حصہ دار ہوتی ہے، اور اسلام میں بیوہ کا تعلق اپنی سسرال سے ختم نہیں ہوتا۔ اسلام میں عورت پراخراجات کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے۔ عورت کو کئی طرح سے فائدہ ملتا ہے شوہر کی جائیداد یا چھوڑی ہوئی جائیداد اولاد کی کمائی، باپ کی جائیداد میں وہ حصہ دار ہوتی ہے۔ عورت کے نفقہ کی ذمہ داری صورتحال کے پیش نظر بھائی اور باپ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ لیکن جو شریعت کے پابند ہیں ان کو اللہ نے یہ حق بھی دیا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی ایک تہائی حصہ پوتا اور بہو کے نام لکھ کر دے سکتا ہے۔ اور اسکو کسی نے نہیں روکا ہے شرعاً وہ محجوب ہے اور دادا کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرکے ایک تہائی لکھ سکتا ہے اور دے سکتا ہے۔اسلام مذہب ہم سب کی سوچ اور رحم وکرم سے بہت اوپر ہے۔
ایک جوان لڑکی حادثاتی طور پر بیوہ ہوجاتی ہے تو اس کی شادی سے پہلے جو پوزیشن تھی وہی پوزیشن اسکی رہے گی اور اگر بچے بھی ہیں تو بھی وہ اپنے والدین کے پاس جائے گی اور اگر اس بیوہ کے والدین اقتصادی طور پر اس کے متحمل نہ ہوں گے تو بھی لوگوں نے مختلف لوگوں کی ذمہ داریوں کے مطابق سب لوگ اسکو ادا کریں گے۔عورت پر اسلامی قانون میں کوئی ذمہ داری نہیں ہے اس لئے جائیداد میں اسکو الگ الگ حصہ ملتا ہے، مختلف صورتوں میں اور اسکو باپ شوہر اور اولاد کئی طریقوں سے جائیدا میں حصہ ملتا ہے۔تمام کی تمام مالی ذمہ داری باپ کی ہے اس ذمہ داری کے بعد جب باپ بوڑھا ہوجاتا ہے اور کوئی کام نہ کرسکتا ہے تو میاں بیوی دونوں کا حصہ برابر کا ہوگا اس لئے کہ جس بنیاد پر مرد کو دو حصہ کا مالک بنایا گیا تھا وہ اب اس کا متحمل تو ہے نہیں۔ مسلم پرسنل لا ہمارا بنیادی حق ہے اسے نہ چھیڑیں۔
اسلام بیوہ سے شادی کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور سابقہ شوہر کے بچوں کو بھی ساتھ لینے کی ترغیب دیتا ہے، اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں لوگ ایسی عورتوں سے شادی کرنے کو غلط نہیں سمجھتے۔ وفد کی طرف سے یہ بھی واضح کیا گیا کہ آپ کے کہنے کے باوجود کہ آپ پرسنل لا پر گفتگو نہیں کرنا چاہتے ہیں اور آپ نے تمام نکات پرسنل لا سے متعلق بیان کیے۔ ہم یہ بات واضح کردینا چاہتے ہیں جہاں تک مسلم پرسنل لا کا تعلق ہے یہ قرآن و سنت پر مبنی ہے لہٰذا اس میں کسی تبدیلی کے ہم ہرگز بھی مجاز نہیں ہیں۔ دستور ہند کی دفعہ 25 میں ہمیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، پرسنل لا مذہب کا جزولاینفک ہے۔ دستور ہند میں واضح طور پر پرسنل لا کو مکمل آزادی فراہم کی گئی ہے۔ بھارت ایک تکثیری معاشرہ ہے، کثیر تہذیبی اور کثیر مذہبی ملک ہے۔ اس کی ارتقاء و ترقی اس وقت ممکن ہے جب یہاں موجود تمام تہذیبی اکائیوں کو مکمل آزادی ہو۔
اسلام میں گارجین شپ کو سمجھنا ضروری ہے بغیر اس کو سمجھے آپ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ بچوں کی کفالت اور تربیت کے سلسلہ میں اسلام نے مربوط انداز میں اسکی ترتیب بتائی ہے، ہمیں پہلے اسکو سمجھنا ہوگا۔کسٹڈی تو تبدیل ہوسکتی ہے لیکن گارجین شپ تبدیل نہیں ہوسکتی ہے۔ ہم اس پر پوری تفصیل کے ساتھ مسودہ بناکر آپ کو پیش کریں گے۔ اسلام میں کفالت ایک مستقل موضوع ہے اس کا مطلب ہے کہ جس طرح آپ اپنے بچوں کی کفالت کرتے ہیں نان و نفقہ اور تعلیم و تربیت وغیرہ ٹھیک اسی طرح اس متبنی کی بھی کفالت ہوگی۔ہمارے یہاں زکوۃ کا ایک نظام ہے اور اس وقت اسی زکوۃ کی رقم سے پورے ملک میں مدارس کا اتنا بڑا اہم نیٹ ورک چل رہا ہے، وہاں زکوۃ کے پیسوں سے غریبوں کی تعلیم و تربیت مع قیام و طعام کے سارا کچھ مدرسہ برداشت کرتا ہے وہ بچے پڑھتے ہیں اور سماج کو ایک نئی دشا دیکھانے کا کام کرتے ہیں۔جب اسلام کے بنائے نظام زکوۃ سے بڑے بڑے مدارس چل سکتے ہیں تو اس کی کفالت کا مسئلہ تو بہت چھوٹا ہے شریعت نے جس کو جس قدر ذمہ داری دیدی لوگ اسے مکمل کرتے ہیں،کفالت اور متبنی دونوں الگ الگ ہے زیادہ تر لوگ کفالت کو سمجھتے نہیں وہ اسکو متبنی بھی مان لیتے ہیں۔ تحریری شکل میں سوال ملے پھر ہم لوگوں کی طرف سے تحریری جواب دیا جائیگا۔
اخیر میں چیئرمین صاحب نے یقین دہانی کرائی کہ وہ بہت جلد سوالات مسلم پرسنل لا بورڈ کو فراہم کرادیں گے۔
جاری کردہ

آفس سکریٹری دفتر بورڈ

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا