English   /   Kannada   /   Nawayathi

کرناٹک نے دکھائی فسطایت سے نجات کی راہ

share with us

عبید اللہ ناصر 

صدر کانگرس کے طور پر راہل گاندھی کا سب سے اہم سیاسی امتحان گجرات میں ہوا تھا جہاں کے اسمبلی الیکشن کانگرس نے اپنی مضبوط موجودگی درج کرائی تھی حالانکہ گجرات بی جے پی کا سب سے مضبوط قلعہ ہے لیکن راہل کی قیادت میں کانگریس نے اس قلعہ میں شگاف ڈالنے میں کامیابی حاصل کی اور بی جے پی بمشکل اپنا یہ ناقابل تسخیر سمجھا جانے والا قلعہ بچا پائی تھی 150یہاں کانگریس کی اس کامیابی سے اس کے تن مردہ میں ایک نئی جاں پڑ گی کانگریسی کارکنوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ھوا اور بی جے پی کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم ٹوٹ گیا 150اس کے بعد کرناٹک اسمبلی کا الیکشن ہوا یہاں کانگرس کے سامنے اپنی حکومت والی ریاست میں دوبارہ الیکشن جیتنا ایک بڑا چیلنج تھا لیکن وزیر اعلی سدارمیا نے بہترین قلعہ بندی کر کے کانگرس کو ایک مضبوط پوزیشن پر کھڑا کر دیا انکی قلعہ بندی کی کاٹ کے لئے بی جے پی کے پاس فرقہ وارانہ کارڈ کھلنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا اس نے اس کے لئے اتر پردیش کے فائر برانڈ ہندتو وادی وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ کو میدان میں اتارا جنہوں نے اپنے زور خطابت میں ٹیپو سلطان جیسے ایک حکمران کو بھگوان ہنومان کے برابر کھڑا کر دیا ادھر وزیر اعظم نریندرا مودی نے جنگ آزادی کی فوج کانگریس کو کتے سے حب الوطنی کا سبق لینے کا مشورہ دینا شروع کر دیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں محمد علی جناح کا فوٹو بھوت بنا کے عوام کے سامنے پیش کیا گیا غرض الیکشن جتنے کے لئے بی جے پی ہر حربہ استعمال کر ڈالا کرناٹک میں کانگریس کی حکومت ہونے کی وجہ سے حکومت مخالف رجحان کا فائدہ بھی بی جے پی کو ملا 3 ایم یعنی منی میڈیا اور مین پاور کی طاقت ہمیشہ سے اس کے پاس رہی ہے کہا جاتا ہے کہ کرناٹک اسمبلی الیکشن میں بی جے پی نے قریب دس ہزار پانچ سو کروڑ روپیہ خرچ کیا وزیر اعظم کے دوروں اور انکے جلسوں کے انتظامات کا سرکاری خرچ الگ 150

کرناٹک کے انتخابی میدان میں کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ سابق وزیر اعظم دیوے گوڈا کی جنتا دل سیکولر بھی میدان میں تھی جسکا بی ایس پی سے سمجھوتا تھا ووکالیگا برادری پر اس پارٹی کا خاصہ اثر ہے اچھا خاصہ مسلم ووٹ بھی اسے ملتا ہے اس طرح سہ رخی مقابلہ میں بی جے پی رکنی ایوان میں سیٹیں لے کر نمبر ایک پارٹی بن گی کانگریس کو اور جنتا دل سکولر کو سیٹیں ملیں ایک سیٹ بی ایس پی کو اور ایک سیٹ آزاد امیدوار کو ملی کانگریس اگر چہ دوسرے نمبر پر رہی لیکن اسکے ووٹوں کا تناسب اور مجموعی تعداد کے لحاظ سے نمبر ایک پر رہی 150 نتایج آنے کے بعد کانگریس نے جس تیزی سے قدم اٹھایا اور بی جے پی کی گھیرابندی کر دی اس سے بی جے پی بھو چکی رہ گی اب تک اس محاز پر وہ کانگرس کو پچھاڑتی آتی رہی ہے گوا میگھالیہ منی پر یہاں تک کہ بہار میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود وہ کانگریس کو اقتدار سے دور رکھنے میں کامیاب رہی کیونکہ راج بھون پر اسکا قبضہ تھا کرناٹک میں اس نے اپنے سابق کھیل کو پلٹنے کی کوشش کی جبکہ اس سے پہلے ہی کانگریس نے تیسرے نمبر پر آئی جنتا دل سیکولر کے لیڈر کمارا سوامی کو وزیر اعلی بنانے کا فیصلہ کر کے راج بھون کو اس کی اطلاع بھی دے دی تھی گورنر کے سامنے پوزیشن بالکل صاف تھی ایک طرف سب سے بڑی پارٹی تھی جس کے پاس اکثریت نہیں تھی دوسری طرف دو پارٹیوں کا گٹھبندھن تھا جس کے پاس وازہ اکثریت تھی سپریم کورٹ بھی روکلنگ دے چکا تھا کہ ایسے حالات میں گورنر کو چناؤ بعد کے گٹھبندھن کو حکومت سازی کا موقع دینا چاہئے لیکن گورنر صاحب نے اینی اصولوں پر سابق پریوار آر ایس ایس سے وفاداری کو ترجیح دی اور بی جے پی کے یدورپا کو وزیر ا علی کا حلف دلوا کر وہیں پندرہ دنوں کا طویل وقفہ اکثریت ثابت کرنے کے لئے دے دیا یہاں پھر کانگریس نے تیزی سے کاروائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جہاں رات میں ہی چیف جسٹس نے خصوصی سہ رکنی بنچ تشکیل کر دی جس نے صبح معاملہ کی سماعت کی بنچ نے یدورپا کی حلف برداری تو نہیں روکی لیکن انھیں صرف دو دن کی مہلت دی اکثریت ثابت کر نے کے لئے۔ ادھر بی جے پی کے تھیلی شاہوں نے اپوزیشن کے نو منتخب ممبران اسمبلی کومبینہ طور سے سو کروڑ روپیہ نقد اور وزارت کی کرسی کی پیش کش کی اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کے لئے اپنے مبران کو بی جے پی کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے کانگریس اور جنتا دال ایس نے اپنے ممبروں کو دوسری ریاست منتقل کر دیا ممبروں کی خریدداری کی کوشش سے متعلق کی ویڈیو بھی کانگریس اور جنتا دال ایس نے جاری کے ہیں 150

بہر حال اپنی تمام تر کوششوں اور تکڑم بازی کے باوجود یدورپا ایوان میں اپنی اکثریت ثابت نہیں کر چکے اور پہلی بار بی جے پی کپ پتہ چلا کہ اگر کانگریس کرنے پر تل جائے تو وہ اسکی ہر چال کا اسی طرح منہ توڑ جواب دے سکتی ہے 150بی جے پی کی اس دوغلی پالیسی کے خلاف ان تمار ریاستوں میں سگبگاہٹ شروع ہو گی جہاں بی جے پی گورنر کی مدد سے سب سے بڑی پارٹی کو حکوممت بنانے سے روک دیا تھا ان میں گوا میگھالیہ منی پور اور بہار شامل ہیں یہاں بڑی پارٹیوں کے لیڈروں نے گورنر سے ملاقات کر کے کرناٹک کی طرز پر انھیں حکومت بنانے کا موقعہ دینے کا مطالبہ کیا ظاہر ہے اسکی کوئی حیثیت نہیں ہوگی لیکن کم سے کم مرکز کے اشاروں پر ناچنے والے گورنروں کو آئنہ تو دکھا ہی دیا گیا ۔
کرناٹک کے ناٹک کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ اس نے بی جے پی کی تکڑم بازی اسکی دولت کی طاقت اور راج بھون میں بیٹھے اپنے گرگوں کے ذریعہ آئین اور جمہوری قدروں کی پامالی کا جو نا قا بل تسخیر سلسلہ شروع کیا تھا اسکی ہمیشہ کامیاب ھو جانے کا بھرم توڑ دیا یہ غلط فہمی بھی دور ہو گی کہ کانگریس بی جے پی کو اسکی ہی ماند میں شکست نہیں دے سکتی اور سب سے بڑی بات یہ کہ سبھی علاقائی پارٹیوں کو احساس ہو گیا کہ اگر وہ بی جے پی کے خلاف متحد نہ ہوئیں تو آئینی اصولوں کی یونہی پامالی ہوتی رہیگی جسکی سب سے بڑی قیمت انھیں ہی ادا کرنی پڑیگی کانگریس نے کرناٹک میں جس فراخدلی کا ثبوت دیا ہے اس سے علاقائی پارٹیوں میں اس کی قبولیت لازمی طور سے بڑھیگی اور وہ فسطائی فرقہ پرست بی جے پی کے خلاف ایک مضبوط محاز بنانے میں اپنا کردار ادا کریگی 150اس وقت ملک کی سب سے بڑی ضرورت فسطائی فرقہ پرست اورایک نا اہل حکومت کو ہٹانیکی ہے جس نے ملک کا سماجی شیرازہ بکھر دیا ہے جس کے دور میں ملک کی سرحدیں محفوظ نہیں جسکے دور میں بنک کنگال ہو گئے ہے ملک کی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا چھوٹے اور متوسط کاروباری ہی نہیں بڑے کاروباری بھی سر پکڑے بیٹھے ہیں کسان خود کشی کر رہے ہیں بس ادانی امبانی عیش کر رہے ہیں۔کرناٹک نے راہ نجات دکھا دی ہے اب اس پر چلنا سیاسی پارٹیوں کی قومی ذمہ داری ہے 

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ 
22؍ مئی 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا