English   /   Kannada   /   Nawayathi

نعرہ وکاس کا اورسیاست نفرت کی 

share with us

محمد صبغتہ اللہ ندوی 

وکاس کا نعرہ اورنفرت کی سیاست 'منھ میں رام بغل میں چھری والی کہاوت کی طرح ہے۔آج ملک میں وکاس کا جو حال ہیوہ کسی سے مخفی نہیں۔ ہرطرف بے روزگاری پھیلی ہے، اب تو روزگاردینے سے حکومت اپنیہاتھ کھڑیکررہی ہے۔مہنگائی کی تو جیسے عادت سی ڈال دی گئی ، کسانوں کی بات ہوتی ہے لیکن ان کیمسائل حل نہیں کئے جاتے، اس وقت کسان جتنے پریشان تھے اتنے کبھی نہیں تھے ااور ان کی خودکشی کی شرح بڑھ رہی ہے۔موجودہ سرکار میں روپئے کی قدر میں گراوٹ کانیا ریکارڈ بناہے،ایک امریکی ڈالرتقریبا 69 روپئے کیبرابر ہوگیا۔ نوٹ بندی ہوگئی ، نئے نوٹ آگئے ، ٹیکس کا نیا سسٹم بن گیا اورجی ایس ٹی لاگوہوگیا لیکن بدلے میں ملک کو شرح ترقی میں گراوٹ اورعوام کو بے روزگاری ملی۔وہ بہانہ بھی نہیں رہاکہ ریاستوں میں اپوزیشن پارٹیوں کی حکومت کی وجہ سے ترقیاتی کام منظم طریقے سے نہیں ہوپاتا۔اس وقت 20 ریاستوں میں بی جے پی اپنے بل بوتے پر اقتدارمیں ہے یا حلیف پارٹیوں کیساتھ حکومت کررہی ہییعنی مرکز کیساتھ 70 فیصد ملک پر اس کی حکومت ہے پھر بھی وکاس کا کام نہ ہو اس کا مطلب یہ ہواکہ حکومت نیاپنا اوراپنے لوگوں کا فائدہ زیادہ سوچا اوراسی کو سامنیرکھ کر کام کیا اورملک وعوام کا فائدہ کم سوچا اسی لئے ان کا نقصان ہوا۔جس وکاس یاوکاس کے نام نہاد ماڈل گجرات کینام پر 2014 کے پارلمانی انتخابات میں ووٹ مانگاگیاتھا اورتقریباایک تہائی ووٹوں کی بدولت مودی سرکاربنی تھی وہ وکاس نہیں ہوا یا حکومت نے جیساسوچا تھا حالات ویسے نہیں بنے تو اب کس منھ سے لوگوں سے ووٹ مانگیں گے اس لئے حکمت عملی بدل دی گئی۔لوگوں کو فریب میں مبتلا کرنے کیلئے نعرہ تو وہی وکاس ہے لیکن نفرت کی سیاست کی جارہی ہے۔ سماج میں نفرت کے یج بوئے جارہے ہیں اوراس کی فصل کاٹی جارہی ہے۔ہندو۔مسلم کرکیلوگوں کو بانٹاجارہاہے، دلتوں کے گھرکھانا کھانے کا ڈرامہ کیا جارہا ہے اوران کو ماراپیٹاجارہا ہے۔ڈاکٹربھیم راؤامبیڈکر کی سیاست کی جاتی ہے اوران کی مورتیاں بھی توڑی جاتی ہیں۔دلتوں کو اعلی ذاتوں کیعلاقوں سیبارات تک نکالنیکیلئیاجازت لینی پڑتی ہے۔کانگریس مکت بھارت کی بات کی جارہی ہے جبکہ کانگریس بی جے پی مکت بھارت کی بات کبھی نہیں کہتی۔2019 میں ڈراس قدر ہیکہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے جیتنے کی صورت میں وزیر اعظم بننے کی بات کیا کہہ دی بی جے پی میں سنسنی پھیل گئی جیسے یہ ہونے جارہا ہے جبکہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ مرکز میں اگلی حکومت کس کی بنے گی؟
ایک طرف وزیراعظم نریندرمودی 22 ستمبر2014 کو سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندوستان کا مسلمان ملک کیلئے جیئے گا اورملک کیلئے مریگا ملک کا براہوایساکچھ بھی نہیں چاہے گا یعنی غداری نہیں کریگا اوردوسری طرف ان کی پارٹی کے لیڈر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جناح کی تصویر پر آسمان سرپراٹھالیتے ہیں اورمسلمانوں کی دیش بھکتی پر شبہ کیا جاتا ہے۔ ابھی 29 اپریل 2018 کو من کی بات کی 43 ویں کڑی میں وزیراعظم نے کہاتھا کہ پیغمبرمحمد صاحب کی تعلیم اوران کے پیغام کو یادکرنیکا موقع ہے اوران کی زندگی سے رہنمائی حاصل کرکے مساوات اور بھائی چارے کے راستے پر چلنا ہماری ذمہ داری ہے لیکن دوسری طرف ان کی حکومت پیغمبر اسلام کے شرعی قانون طلاق ، تعددازدواج اورحلالہ وغیرہ کو ختم کرنے اورہندوستانی مسلمانوں کو غیرشرعی قانون کا پابند بنانے کا کام کررہی ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ جب نام نہاد گؤرکشکوں نے مسلمانوں کو مارنا اورقتل کرنا شروع کیاتو وزیراعظم نے ایک لفظ بھی نہیں کہالیکن جب دلتوں کو مارنا شروع کیا تو وزیراعظم نے باقاعدہ کہا کہ مارنا ہیتو مجھے مارومیرے دلت بھائیوں کو مت مارواس وقت بھی انہوں نے دلتوں کیساتھ مسلمانوں کا تذکرہ نہیں کیا جبکہ زیادہ حملے مسلمانوں پر ہورہے تھے۔نفرت کی سیاست کی سب سے گھناؤنی تصویر سب سے گھناؤنے کٹھوعہ کے واقعہ میں دیکھنے کو ملی جب ایک معصوم بچی کو انصاف اورقصورواروں کو سزادلانے میں دیگرکیساتھ بی جے پی کے لیڈروں نے رکاوٹ کھڑی کی اوراحتجاج کیا صرف اس بنیاد پر کہ قصوروارہندوہیں اورمعصوم بچی مسلم۔ یہ وزیراعظم کے نیوبھارت کا وہ بھیانک چہرہ ہے جسے ملک بھر میں کم از کم وہ دیکھنا پسند نہیں کریگا جس کیاندرذرا بھی انسانیت ہوگی یا انصاف پسند ہوگا۔کیا اب ہندوستان میں ایسے دن آگئے کہ جرائم کے جواز اورعدم جواز کا فیصلہ عدالت سے باہر مذہب کی بنیاد پر ہوگا ؟نہایت ہی شرم کی بات ہے۔
سرکار کہتی ہیکہ مذہبی رسوم اورعبادتوں کیلئے سرکاری مراعات یا سبسڈی نہیں دی جاسکتی اس کے نام پر حج سبسڈی ختم کرتی ہے اوردوسری طرف ہندوؤں کی مذہبی یاتراؤں ، تہواروں اور پروگرام کیلئے پورے ملک میں فنڈز الاٹ کئے جاتے ہیں ،عدالت کیااعتراض بلکہ کالعدم قراردیئے جانے کے باوجود مہاراشٹرمیں بی جے پی سرکارقانون سازی کرکے مراٹھوں کو ریزرویشن دیتی اورکورٹ کی اجازت اورصحیح ٹھہرائے جانے کے باوجود مسلمانوں کو ملے ریزرویشن ختم کردیتی ہے۔ہریانہ میں سڑکوں پر جاگرن ہوتا ہے اوراسمبلی جین منی پروچن کرتے ہیں کوئی ہنگامہ یا اعتراض نہیں لیکن مسلمان جمعہ کی نماز سڑکوں یا پارکوں میں پڑھیں تو آسمان سر پر اٹھالیاجاتاہے اورکوئی نہیں کہتاکہ جن 19 مساجد پر ناجائز قبضہ ہے ان کو خالی کراکے مسلمانوں کے حوالے کردیا جائے تاکہ وہ وہاں نماز پڑھ سکیں۔ سرکار کہتی ہیکہ سب کا ساتھ سب کا وکاس لیکن جب حقوق کی بات آتی ہے تو اقلیتوں سے ان کیاعلی تعلیمی ادارے جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ چھیننے کی کوشش کرتی ہے۔اس کیلئے کبھی پچھلا حلف نامہ واپس لیتی تو کبھی نیا حلف نامہ داخل کرتی ہے۔بی جے پی کو مسلمانوں کا ووٹ چاہئے ، وہ مانگتی بھی ہے اورمسلمان ووٹ دیتے بھی ہیں لیکن جب الیکشن میں مسلمانوں کو ٹکٹ دینے کی بات آتی ہے تو ایک بھی ٹکٹ پارٹی نہیں دیتی ۔اترپردیش میں بھی سب نے دیکھا کہ 18 فیصد آبادی کے باوجود پارٹی کا ایک بھی امیدوار مسلم نہیں تھا یہی حال گجرات اورکرناٹک میں رہا جہاں بالترتیب دس اورسولہ فیصد آبادی ہے لیکن کسی مسلم کوٹکٹ نہیں۔ جب مسلم امیدوار دوسری پارٹیوں کے ٹکٹ پر جیتتے ہیں توبی جے پی انہیں ٹکٹ کیوں نہیں دیتی جبکہ امیدواری کیدعویدار ہوتے ہیں ؟ اس کی وجہ سے وزیربنانے کے لئے ایک مسلم چہرہ تک نہیں ملتا۔ صرف دوچارشوپیس مسلمان رکھ لینے سے سب کا ساتھ اورسب کا وکاس نہیں ہوجاتااس کیلئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلیں اوران پر یقین کریں ۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ۔
19؍ مئی 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا