English   /   Kannada   /   Nawayathi

کرناٹک...آزمائش کے 15دن!

share with us

از : ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز 

کرناٹک میں یدی یورپا نے چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف تو لے لیا مگر ڈرامہ جاری ہے۔ کانگریس۔جے ڈی ایس راتوں رات سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے‘ مگر عدالت عالیہ نے گورنر کے فیصلے پر روک لگانے سے انکار کردیا۔ اور ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کی مہلت دے دی۔ کانگریس اور جنتادل کے ریاستی اور قومی سطح کے قائدین جن میں سابق وزیر اعظم دیوے گوڑا اور کانگریس کی قدآور شخصیت غلام نبی آزاد شامل ہیں۔ کرناٹک اسمبلی کے سامنے گاندھی مورتی کے سائے میں احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس میں وہ دو آزاد امیدوار اور جنتادل ایس کے لاپتہ امیدوار بھی شامل ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ یہ بی جے پی کیمپ میں شامل ہوگئے ہیں۔آزاد امیدوار ناگیش اپنے بازو پر سیاہ پٹی باندھے دھرنے میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریسی ایم ایل اے آنند سنگھ بی جے پی کے شکنجے میں ہیں۔یدی یورپا نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل ہے۔اگر یہ آزاد امیدوار واقعی کانگریس کے ساتھ ہیں تو ایوان اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لئے بی جے پی کو آزمائشی مراحل سے گذرنا ہوگا۔ کل کے لاپتہ آزاد امیدوار آج کانگریس کے احتجاج میں شامل ہیں آیا واقعی ہمدرد ہے یا پھر وہ اس احتجاج میں شامل ہوکر بی جے پی کے لئے کام کررہے ہیں۔ اس بات کا یقینی طور پر جائزہ لیا جائے گا کیوں کہ بی جے پی کا اب اصل ہدف کانگریس اور جنتادل ایس کے ارکان کی تائید حاصل کرنا ہے‘ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ان کا کوئی آدمی اس کیمپ میں شامل رہے۔ یاد رہے کہ آزاد امیدواروں نے 16؍مئی کو بی جے پی کی حمایت کرنے کا تحریر طور پر اعلان کیا تھا ۔ خیر اب کانگریس‘ جنتادل ایس کے ارکان اسمبلی کو کیرالا لے جایا جارہا ہے جہاں وہ ایک ریسورٹس میں رہیں گے تاکہ بی جے پی کی سبوتاج کی کاروائی سے انہیں محفوظ رکھا جائے۔ یقیناًان کی ہر حرکت پر نظر رہے گی بلکہ یا تو ان کے موبائلس بھی ان سے لے لئے جائیں گے یا پھر ان کے کالس ٹیپ کئے جائیں گے۔ آنے والے پندرہ دن بہت ہی آزمائشی ہے بی جے پی کے لئے بھی اور کانگریس‘جنتادل ایس کے لئے بھی۔ اور یہ سسپنس تب تک برقرار رہے گا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں
ایڈی یورپا اور کمارا سوامی دونوں ہی نے انتخابی نتائج کے بعد گورنر وجوبھائی والا سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کرکے حکومت تشکیل دینے کا دعویٰ کیا تھاکہ انہیں ایک آزاد کے پی جے پی اور بی ایس پی کے منتخب ارکان کی تائید حاصل ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھاکہ سات کانگریسی ارکان ان کے ساتھ ہیں اور 224رکن اسمبلی میں قطعی اکثریت ثابت کرنے کے لئے درکار 112میں سے 104ارکان ان کے اپنے ہیں۔ دوسری طرف کمارا سوامی نے کانگریس کے 77ارکان کی حمایت کا دعویٰ کیا تھا اور بتایا تھا کہ 115ارکان کے پاس ہیں۔ اس دوران جنتادل ایس ارکان کے اجلاس میں دو ارکان غائب نظر آئے تو کانگریس ارکان کے اجلاس سے بھی دو ارکا ن ندارد تھے جس سے بی جے پی کیمپ میں جشن اور کانگریس‘ جنتادل ایس میں سراسیمگی کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ 
بی جے پی کی جانب سے جنتادل کے ارکان کو سو سو کروڑ روپئے کے ساتھ وزارت کی پیشکش کے الزامات بھی کئے تھے۔ کانگریس کا الزام ہے کہ بی جے پی جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔ریاستی گورنر نے تیقن دیا تھا کہ دستور کی روشنی میں کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ واجوبھائی والا نے جو فیصلہ کیااس کی توقع تھی۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ وجو بھائی والا ہیں کون؟ یہ سنگھ پریوار اور جن سنگھ سے ابتداء ہی سے وابستہ رہے۔ راجکوٹ سے گجرات اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے۔ گجرات کی وزارت میں رہے‘ فینانس کا قلمدان بھی ان کے پاس رہا۔ اور وہ ریاستی اسمبلی میں اسپیکر بھی رہے۔ مودی یا بی جے پی سے جذباتی لگاؤ و ہمدردی کی گئی ہے تو فطری بات ہے۔ کرناٹک کے سیاسی تعطل کو ختم کرنے کے لئے گورنر کے پاس کئی طریقہ تھے‘ مگر 2006 میں سپریم کورٹ کی رولنگ کی روشنی میں اصولی اعتبار سے انہیں مخلوط جماعتوں پر مشتمل وفاق کو جو اکثریت ثابت کرسکتے ہیں‘ تشکیل حکومت کی دعوت دینی چاہئے تھی۔
کرناٹک میں کانگریس اور جنتادل ایس کو آج کی تاریخ میں اکثریت حاصل ہے ممکن ہے کہ گورنر کی جانب سے تاخیر کی وجہ سے اگلے چند دنوں میں یہ اکثریت اقلیت میں بدل جائے جیسا کہ عموماً ہوتا ہے۔ ویسے منی پور اور گوا میں چند ماہ پہلے ہی کی بات ہے‘ مودی جی کے گورنرس نے اکثریتی موقف رکھنے کے باوجود کانگریس کے مقابلہ میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کو تشکیل حکومت کی دعوت دے دی۔ گوا الیکشن 2017ء میں 40رکنی اسمبلی میں کانگریس 18 نشستوں کے ساتھ واحد اکثریتی موقف کی حامل جماعت تھی جبکہ بی جے پی کے پاس صرف 13نشستیں۔ گورنر مرودلہ سنہا نے کانگریس کو نظر انداز کیا اور بی جے پی کو ایم پی پی‘ گوا فارورڈ پارٹی اور تین آزاد امیدواروں کے ساتھ تشکیل حکومت کی دعوت دے دی۔ گورنر سنہا نے بعد میں وضاحت کی کہ وہ رات بھر انتظار کرتی رہی کہ کانگریس کے ارکان ان سے ملاقات کریں گے اور تشکیل حکومت کا دعویٰ کریں گے۔ انہوں نے مہلت مانگی جو انہیں دی گئی۔ اس کے باوجود وقت پر دعویٰ پیش نہیں کرسکے۔ مردولہ سنہا پر ممتاز قانون داں فالی نریمان نے تنقید کی۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک بھی گیا جہاں چیف جسٹس کیہر نے کانگریس ارکان کو آڑے ہاتھوں لیا اور یہاں تک کہاکہ انہیں چاہئے تھا کہ وہ دھرنا پر بیٹھ جاتے۔ کانگریس پر انہوں نے تنقید کی‘ انہوں نے چیف جسٹس کو گورنر بنادیا۔
منی پور میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا جہاں گورنر نجمہ ہپت اللہ نے 60رکنی اسمبلی میں 28نشستیں حاصل کرنے والی کانگریس کو نظر انداز کرتے ہوئے 21رکنی بی جے پی کو حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی۔ اب کرناٹک میں کیا ہوگا‘ اگر بی جے پی کو واحد اکثریتی جماعت کے طور پر دعوت دی جاتی ہے تو گوا اور منی پور میں بی جے پی کے گورنرس نے جو کیا اس پر پہلے بھی سوال اٹھے تھے ایک بار پھر اٹھ سکتے ہیں اور جنتادل۔کانگریس نے ویسے بھی راج بھون کے روبرو دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ اگر گورنر کانگریس۔جنتادل کو تشکیل حکومت کی دعوت دیتے ہیں تو بی جے پی بھی احتجاج کرسکتی ہے۔ گورنر کی جانب سے دستوری اصولوں، قواعد و ضوابط کے مطالعہ کے بہانے تاخیر سے بڑے پیمانہ پر ارکان اسمبلی کا انحراف اور ان کی بولی لگنی شروع ہوسکتی ہے۔ اور دونوں صورتوں میں بھی کرناٹک میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے جس کے نتیجہ میں گورنر راج بھی نافذ کیا جاسکتا ہے اور مزید افراتفری، سیاسی انتشار سے بچنے کے لئے دوبارہ الیکشن کے بھی امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر یہ بات طئے ہے کہ ہندوستان کو کانگریس سے مکت کرنے کی مہم جاری رکھنے کیلئے بی جے پی بہرقیمت کرناٹک میں اپنی حکومت تشکیل دینا چاہے گی چاہے اس کے لئے دستور کی دھجیاں ہی کیوں نہ اڑانی پڑے۔ اس کے علاوہ کانگریس نے الیکشن ہارتے ہوئے بھی جس طرح سے بازی پلٹنے کی کوشش کی ہے‘ اس سے مودی، امیت شاہ اور بی جے پی کو زبردست دھکہ لگا ہے اور اگر کانگریس یہ بازی جیت جاتی ہے تو مودی امیت شاہ اپنے آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کرسکیں گے۔ کانگریس نے بہت ہی شاطرانہ چال چلی ہے‘ ایک تو بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش، دوسرے حکومت نہ بننے کی صورت میں بھی بی جے پی کے خلاف مضبوط اپوزیشن تیار کرلی ہے جو ایوان اسمبلی میں بی جے پی کی ہر کاروائی کے آگے رکاوٹ کھڑی کرسکتی ہے۔ الیکشن کے بعد دونوں ہی جماعتوں کو اپنی اپنی غلطیوں کا احساس ہورہا ہے۔ اگر دونوں الیکشن سے پہلے ہی مفاہمت کرلیتے تو بی جے پی کی ہوا نہیں چلتی اور سدارامیا کو جنتادل ایس کے خلاف شکست کا سامنا کرنا نہیں پڑتا۔ خیر جو بھی ہوا اچھی ہوا اس سے کانگریس اور دوسری جماعتیں سبق لے سکتی ہیں۔ 2019ء سے پہلے وہ مفاہمت کرسکتی ہیں۔
کرناٹک میں اگر گورنر کا رول مثبت نہ رہا تو اس میں کوئی حیرت یا تعجب کی بات نہیں ہے اور خود کانگریس کو بھی اس پر زیادہ تنقید کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے کیوں کہ کانگریس نے بھی اپنے دور میں گورنرس کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں‘ جیسے مسز اندرا گاندھی کے دور میں 16؍اگست 1984ء کو این ٹی آر کو اس وقت کے گورنر رام لال نے کھڑے کھڑے برطرف کردیا کہ وہ اپنی اکثریتی تائید سے محروم ہوگئے ہیں۔ این بھاسکر راؤ جو این ٹی آر کے کبھی دست راست اور وزیر فینانس تھے انہوں نے کانگریس کے آلہ کار کے طور پر شرمناک رول ادا کیا اور منحرف ارکان کے ساتھ مل کر گورنر کی مدد سے اپنی حکومت تشکیل دی جو صرف ایک مہینہ چل سکی۔ یوں تو بھاسکر راؤ نے اپنے ایک ماہ کے اقتدار کے دوران اقلیتوں کے لئے کچھ اقدامات ضرور کئے تاہم ان کا ایک مہینہ کا اقتدار لاء اینڈ آرڈر کا بدترین دور ثابت ہوا۔ پہلی مرتبہ حیدرآباد کے نئے شہر میں فسادات ہوئے۔ بہرکیف این ٹی آر نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر کانگریس اور اندرا گاندھی کی ایمیج کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر تار تار کردیا۔ فاروق عبداللہ کے ساتھ بھی یہی تاریخ دہرائی گئی جب ان کے اپنے بہنوئی غلام محمد شاہ نے کانگریس کے آلہ کار بنتے ہوئے فاروق عبداللہ کے وزراء اور ارکان کو اپنے کیمپ میں شامل کیا ہندوستان کی تاریخ کے بدنام ترین گورنر اور اڈمنسٹریٹر جگموہن نے فاروق عبداللہ کو راج بھون طلب کیا اور انہیں ان کی حکومت کی برطرفی کی اطلاع دی۔ فاروق عبداللہ نے بھی زبردست تحریک چلائی تھی۔ کچھ عرصہ بعد فاروق عبداللہ اقتدار پر واپس ہوئے اور پھر راجیو گاندھی اور فاروق عبداللہ کی دوستی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔
کانگریس نے ماضی نے جو کام کیا لگتا ہے کہ اس کے بعض اچھائی نہ سہی برائیاں اپنانے کی بی جے پی کوشش کررہی ہے۔ کرناٹک الیکشن کو 2019ء کے الیکشن کا ریفرنڈم کہا گیا اور اگر ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو بی جے پی کانگریس کو بہت نقصان پہنچایا۔ بدقسمتی سے وہ قطعی اکثریت سے محروم رہے۔ بی جے پی نے ہر وہ حربہ اختیار کیا جو وہ کرسکتے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جناح کی تصویر کا تنازعہ ہو یا ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش تقاریب کے جشن منانے پر اعتراضات یا کوئی اور مسئلہ بی جے پی نے ہندو ووٹ بینک کے استحصال کا موقع جانے نہیں دیا۔ نریندر مودی، امیت شاہ نے زبردست مہم چلائی۔ راہول گاندھی بھی پیچھے نہیں رہے‘ مودی اور ان کے رفقاء کے الفاظ سے ہندوتوا طاقتیں جوش میں آتی رہیں‘ اور راہول گاندھی خود کو ہندو ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ راہول گاندھی کو کانگریس کی صدارت ورثے میں ملی ہے۔ مودی نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ اپنے بل بوتے پر حاصل کیا ہے۔ وہ اچھے مقرر ہیں‘ عام آدمی کے نفسیات سے واقف ہیں۔ ان کے جذبات کو سمجھتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ الفاظ سے کیسے کھیلا جائے۔ راہول گاندھی اگرچہ کہ عمر کے اعتبار سے سنجیدہ ہوچکے ہیں‘ تاہم ان کی تقاریر میں جوش و خروش کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ نہ تو وہ خود جوش میں آتے ہیں اور نہ ہی سامعین کو جوش میں لاتے ہیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں۔ 
17؍ مئی 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا