English   /   Kannada   /   Nawayathi

ماہ رمضان ، اصلاحِ نفس اور انسانی اقدار کا اسلامی تصور

share with us

غلام مصطفی رضوی 

تزکیۂ نفس اور طہارت قلب کا موسمِ بہار ’’رمضان المبارک‘‘ کی آمد آمد ہے۔ یہ مہینہ در اصل تربیتِ انسانیت کا موقع فراہم کرتا ہے۔ دنیا میں انسانی اقدار اور Human Valuesکا تصور کسی مذہب میں نہیں، اس کا خیال صرف اسلام نے رکھا۔ اسلام فطری تقاضوں کو ملحوظ رکھتا ہے۔ نفسِ انسانی جو گناہوں اور فواحشات پر مائل رہتا ہے جسے’’ نفسِ امارہ‘‘ کہتے ہیں اس کی اصلاح کے لیے رمضان المبارک جیسا مہینہ عطا کیا گیا۔ کیا دنیا کے کسی مفکر نے اصلاحِ نفس کو ملحوظ رکھا؟ ماہرین نفسیات نے تو انسانی اقدار کی تباہی کے لیے جو افکار وضع کیے ان میں تسکینِ نفس کا پورا خیال رکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا میں حیوانیت کو فروغ ملا، انسانیت کی قبا تار کرنے والے وہ لوگ ہیں جنھیں اہلِ علم ہونے کا زعم ہے!
اسلام نے نفس کی اصلاح کو مقدم رکھ کر انسانیت پر احسان کیا۔پھر بھلا جو نفس کی اصلاح کو مقدم رکھتا ہو وہ کیسے انفاس کے لہو پر خوشی منائے گا؟ اسلام نے انسانی لہو کی جو قدر و قیمت متعین کی ہے وہ بڑی انمول ہے۔ قرآن مقدس کی تعلیم تو یہی ہے جس نے ایک نفس انسانی کو جِلا لیا اس نے گویا پوری انسانیت کو زندہ کیا:
مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً (سورۃ مآئدۃ:۳۲)’’جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیااورجس نے ایک جان کو جِلا لیا اس نے گویا سب لوگوں کو جِلا لیا۔‘‘
اسلام انسان کو نہیں مٹاتا ہے بلکہ حیوانیت کو ختم کر کے نفس کو پاکیزگی عطا کرتا ہے۔ ایک بندہ رمضان المبارک میں صبح صادق سے غروب آفتاب تک بھوکا رہ کر در اصل اپنے نفس کی اصلاح کرتا ہے۔ روزہ مظلوموں کے دکھ درد کا احساس پیدا کرتا ہے۔ انسانی تربیت کا ایسا مہینہ کسی ادیان و ملل میں نہیں۔
آج دنیا کا ایک مسئلہ غربت ہے۔ رزاق مطلق نے سبھی کا رزق متعین کر دیا ہے لیکن دنیا پر آمرانہ طرز حکومت رائج کرنے والی وہ قوتیں جنھیں Super Powerہونے کا بڑا گھمنڈ ہے وہ کم زور ملکوں کو طاقت ور بنتے نہیں دیکھ سکتے! وہ افریقہ اور اس جیسے پسے ہوئے ممالک جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ’’مصنوعی‘‘ قحط مسلط کر کے دنیا کو مسائل سے دوچار کر رہے ہیں۔ فلسطین جو مسلم ممالک سے گھرا ہے اس پر جو غربت ڈالی گئی وہ قدرتی نہیں ، اُن پر تھوپی ہوئی ہے۔ جب کہ انھیں فلسطینیوں کی زمین پر قابض غاصب اسرائیل تمام تر مادی سہولتوں اور انسانی قبائیں تار تار کرنے والے اوزار سے لیس ہے، اسے پوری طاغوتی قوتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔دنیا کو ظلم و دہشت گردی کا شکار بنانے والے سب کے سب اسلام کے دشمن ہیں۔ اور در حقیقت مسلمان ’’دہشت زدہ‘‘ اور ’’دہشت گردی کے شکار‘‘ ہیں۔ اسلام نے تو صبر و استقامت کی تعلیم دی ہے۔ ایک پورا مہینہ ہی مختص کر دیا ہے جس میں صرف تربیت کے لحاظ سے درجنوں گوشے پیش کیے جا سکتے ہیں۔مسلمان روزے کے ذریعے ایک طرف قرب الٰہی حاصل کرتا ہے تو دوسری طرف روزے کی لذت سے اس بھوک کا اندازا کرتا ہے جو غریبوں کی اضطراری بھوک ہوتی ہے اس طرح درد و دکھ کا احساس زندگی کو متوازن بناتا ہے۔ انسانیت آشنا کرتا ہے۔
جو مذہب صبر سکھاتا ہو، درسِ حیات فراہم کرتا ہو، انسانیت کے لیے درد و دکھ جھیلنے کی عملی تربیت دیتا ہو وہ کیسے غیر انسانی فعل ’’دہشت گردی‘‘ کی تعلیم دے سکتا ہے؟ ہاں! حقیقت واقعہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان ہی ظلم کا شکار ہیں۔ افریقہ کے علاقوں میں ایتھوپیا اور اس سے ملحق ممالک میں مسلمانوں کو زندگی کے وسائل سے عاری کر دیا گیا ہے۔ عراق و افغانستان،شام و فلسطین و پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں کو دہشت گردی کا شکار بنا کر موت کی نیند سلا دیا گیا۔ان کے خون کا حساب کون دے گا؟اور ان کے خون کے ذمہ دار کون لوگ ہیں؟ وہی جو مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام دھرتے ہیں۔
مسلمان صابر و شاکر ہیں۔ استقامت کی تعلیم رسول کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دی ہے۔ اور یہی باتیں مخالفینِ اسلام کی نگاہوں میں کھٹکتی ہیں۔ اسلام کی مقبولیت کا گراف بڑھتاجا رہا ہے جس سے خیمۂ مخالفین میں ہنگامہ برپا ہے، وہ اسلام کے دشمن ہیں، وہ انسانیت کے دشمن ہیں، اگر وہ دہشت گردی کے مخالف ہوتے تو ظلم ختم کرتے لیکن ان کی اسلام سے نفرت کا یہ حال ہے کہ کہیں حجاب پر پابندی لگائی جارہی ہے تو کہیں داڑھیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کیا اب بھی ہم نہیں جاگیں گے؟ رمضان المبارک تو مسلمان کو مسلمان بناتا ہے۔ اسلام کی سچی راہ پر ڈال جاتا ہے۔ آئیے عزم کریں کہ دنیا اسلام کی جتنی مخالفت کرے گی ہم اسلامی احکام پر اتنا ہی عمل کریں گے۔ ایک سچا مسلمان بن کر دنیا کو بتا دیں گے کہ اسلام ہی نجات دہندہ ہے، اسلام ہی مسائل کا حل ہے۔اسلام پر اگر استقامت اختیار کر لی جائے تو اسلامی تمدن کے آثار مٹانے والے دم توڑدیں گے۔ وہ اسلام کے دشمن ہیں تو ان کا جواب یہ نہیں کہ ہم جدیدت یا Modernizationکو اختیارکر لیں، اسلام پر استقامت اختیار کرنا یہ اصل جواب ہے۔آج کے معاشرے کو اسی کی ضرورت ہے اس لیے بھی کہ دنیا کے مسائل کا حل صرف اسلام میں ہے اور اسلامی فکر و خیال کی تشکیل کے لیے ماہ مبارک رمضان ایک تربیتی پیریڈ ہے۔ جس سے استفادہ نہ کرنا بڑی محرومی ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں۔ 
17؍ مئی 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا