English   /   Kannada   /   Nawayathi

تاریخ سے کھلواڑ کیوں کر رہے ہیں پی ایم مودی؟

share with us

 

رويش کمار

مترجم: محمد اسعد فلاحی

ضروری ہے ایسے کسی بھی شخص کو جو نہرو اور بھگت سنگھ کے تعلق سے غلط معلومات رکھتا ہو، یا ایسی معلومات رکھتا ہو جسے غلط طریقے سے پیش کیا جا سکے، ایسے قابل شخص کو فوری طور پر ان لوگوں سے رابطہ کرنا چاہیے جو وزیر اعظم کی تقریر کے لیے ریسرچ کرتے ہیں یا پھر براہ راست وزیر اعظم ہی سے رابطہ کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قابل شخص تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہو یا پھر وہ جانتا ہو جو تاریخ ہی میں نہ ہو۔
وہاٹس اپ یونی ورسٹی میں نہرو اور بھگت سنگھ ایک مستقل چیپٹر ہیں۔ وهاٹس اپ یونی ورسٹی میں نہرو کے بارے میں اتنا جھوٹ پھیلایا جاتا ہے کہ آپ صحیح کرتے کرتے اتنا تھک جائیں گے کہ خود کو جھوٹا قرار دے دیں گے۔ آپ صحیح کر ہی نہیں سکتے، کیوں کہ آپ ایک بار صحیح کریں گے اور وہ غلط معلومات بار بار بھیجتے رہیں گے۔ کرناٹک انتخابات میں جس طرح نہرو کا ذکر آیا اور ان پر تنقید ہوئی، اس کے بعد بھی وزیر اعظم نے نہرو اور بھگت سنگھ کو لے کر کچھ ایسا کہا جس سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم کے یہاں بھی وہاٹس اپ یونی ورسٹی یعنی تاریخ کی غلط معلومات کو لے کر کافی کچھ ملتا ہے۔ آپ پہلے سنیے کہ کرناٹک کے بیدر میں وزیر اعظم مودی نے کیا کہا۔
ایک تو یہ سوال ہی عجیب ہے کہ کانگریسی نیتا ملنے گیا یا نہیں۔ اُس دور میں سردار پٹیل بھی اتنے ہی کانگریسی تھے جتنے نہرو تھے۔ کیا یہ سوال سردار پٹیل سے بھی ہے، کیا یہ سوال راجیندر پرساد سے بھی ہے، سبھاش چندر بوس سے بھی ہے۔ کیا یہ سوال ہو سکتا ہے کہ نہرو جو اپنی زندگی کے 9 سال جیل میں رہے، ان سے ملنے کون کون گیا؟ اس کا جواب دینے میں دس بیس صفحات بھرے جا سکتے ہیں۔ پر اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم نے یہ کہا کہ انہوں نے جتنی تاریخ پڑھی ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ انہوں نے کچھ تو تاریخ پڑھی ہے۔
وزیر اعظم نے نہرو کا نام نہیں لیا مگر کانگریسی خاندان کہا۔ کیا نہرو نے شہید بھگت سنگھ، بٹو كیشور دت سے جیل میں ملاقات کی تھی۔ ایک تو ویسے ہی بھارت کے کالجوں میں تاریخ سے لے کر تمام موضوعات کے کئی ہزار استاد نہیں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تاریخ کو لے کر وزیر اعظم کے کچھ بیانوں پر بحث کی جائے تاکہ لوگ ان کی بات کو ہی تاریخ کی کتاب نہ سمجھ بیٹھیں۔ بہت سے بچے ان فین ہیں۔ اگر وہ اس غلط تاریخ کو ہی صحیح مان لیں تو یہ اچھا نہیں ہو گا۔ Selected Works Of Nehru Volume 4 صفحہ 13 پر عنوان ہے بھگت سنگھ اور بٹوكیشور دت کی بھوک ہڑتال۔
5 جولائی 1929 کو لکھا نہرو کا خط
میں کل سینٹرل جیل گیا تھا۔ سردار بھگت سنگھ، مسٹر بٹوكیشور دت، مسٹر جتن ناتھ داس اور لاہور کیس کے تمام ملزمان کو دیکھا جو بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔ کئی دنوں سے انہیں جبراً کھلانے کوشش ہو رہی ہے۔ کچھ کو اس طرح جبراً کھلایا جا رہا ہے کہ انہیں چوٹ پہنچ رہی ہے۔ جتن داس کی حالت کافی نازک ہے۔ وہ بہت کم زور ہو چکے ہیں اور چل پھر نہیں سکتے۔ بول نہیں پاتے، بس بدبداتے ہیں۔ انہیں کافی درد ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس درد سے نجات پانے کے لیے جان دے دینا چاہتے ہوں۔ ان کی حالت کافی سنگین ہے۔ میں نے شِو ورما، اجے کمار گھوش اور ایل جئے دیو کو بھی دیکھا۔ میرے لیے اس طور پر ان بہادر نوجوانوں کو اس صورتِ حال میں دیکھنا بہت تکلیف دہ تھا۔ مجھے ان سے مل کر یہی لگا کہ وہ اپنے عہد پر قائم ہیں۔ چاہے جو نتیجہ ہو۔ بلکہ وہ اپنے بارے میں ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ سردار بھگت سنگھ نے انہیں وہاں کی حالت بتائی کہ قتل کے جرم کے علاوہ تمام سیاسی قیدیوں سے مخصوص رویہ ہونا چاہیے۔ مجھے پوری امید ہے کہ ان نوجوانوں کی عظیم قربانیاں کامیاب ہوں گی۔
تو جیل میں نہرو نے بھگت سنگھ بٹوكیشور دت اور جتن داس سے ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد بھی وزیر اعظم نے سوالوں کے اسٹائل میں بات رکھ دی۔ یہ بھی جوڑ دیا کہ کوئی سدھار کرے گا تو میں تیار ہوں۔ انہیں پتہ ہے کہ زیادہ تر گودی میڈیا کوئی سدھار نہیں کرے گی، جو کرے گی بھی وہ شاید بیدر کی ریلی میں شامل اس عوام تک شاید ہی پہنچے، جس کے بیچ وزیر اعظم نے تاریخ کو لے کر غلط بياني کی ہے۔
اس لیے ہم انہیں بتا رہے ہیں اور آپ کو بھی بتا رہے ہیں کہ تاریخ کے بارے میں وزیر اعظم مودی جب بھی کچھ کہیں، ان کی بات کا یقین کرنے سے پہلے چیک کر لیں اور سیاق و سباق کی جانچ کر لیں۔ کرناٹک انتخابات میں اس سے پہلے وزیر اعظم ایک اور غلطی کر چکے ہیں۔ جب انہوں نے نہرو، فیلڈ مارشل كری یپا اور جنرل تھميا کا سیاق و سباق پیش کیا تھا۔ اس کے حقائق کی بنیاد پر تنقید ہوئی۔ اس کے بعد بھی یہ غلط بیان آیا ہے۔ اس میں تو سدھار نہیں کیا لیکن ایک اور غلطی کرکے، جھوٹ بول کر کہہ دیا کہ آپ بتائیں گے تو سدھار کر دیں گے۔
اب یہی کوئی وزیر اعظم سے پوچھ دیتا کہ آر ایس ایس كے کیشو بلی رام ہیڈگوار یا گولوالکر نے بھگت سنگھ سے ملاقات کی تھی تب وزیر اعظم کیا جواب دیتے۔ سوال تو آزادی کی لڑائی میں سنگھ کا اہم کردار نظر نہ آنے کو لے کر بھی اٹھتا ہے۔ کیا اس کا جواب وزیر اعظم کسی ریلی میں دیں گے یا کلاس روم میں پڑھنا پڑھانا ہوگا۔ سردار پٹیل نے بھگت سنگھ سے ملاقات نہیں کی تو کیا وزیر اعظم مودی اسے لے کر عوام سے سوال کریں گے۔ 2014 کے انتخابات میں آپ کو یاد ہوگا کہ وہ خود کو چوکیدار کہتے تھے اور اپنے آُ کو خادم کہلانا پسند کرتے تھے۔ ان کے بہت سے بیانات میں اس کا ذکر آیا کہ وہ خود کو وزیر اعظم کے طور پر نہیں، خادم کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ لیکن جب نومبر 2014 کے مہینے میں پروفیسر سلل مشرا کے ساتھ میں تین مورتی بھَوَن گیا، نہرو اور ان کے دور پر بات کرنے کے لیے تو ایک بورڈ دکھا۔ جو بات وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر مودی کہہ رہے تھے وہی بات نہرو کہہ چکے تھے۔
کیا یہ محض اتفاق رہا ہوگا کہ نہرو خود کو پہلا خادم کہلانا چاہتے تھے۔ مودی بھی خود کو خادم کہلانا چاہتے تھے۔ کہیں وزیر اعظم مودی نہرو کی اس بات سے متاثر تو نہیں ہو گئے تھے۔ وہاٹس اپ یونی ورسٹی میں نہرو کو لے کر، نہرو اور دیگر نیتاؤں کے ساتھ ان کے تعلقات کو لے کر افواہیں پھیلائی جاتی ہیں، مگر اب یہ افواہیں وزیر اعظم کی تقریر کا حصہ بننے لگی ہیں۔ اب میں سردار پٹیل اور نہرو کا اسٹیٹمینٹ پڑھنا چاہتا ہوں جو انہوں نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں کہا تھا۔ نہرو نے بھگت سنگھ کے پھانسی کے بعد کہا، ہم بھگت سنگھ کو بچا نہ سکے ہماری اس کم زوری پر ملک دکھی ہوگا۔ جب حکومت ہم سے معاہدے کی بات کرے گا تو ہمارے اور اس کے درمیان بھگت سنگھ کی لاش بھی پڑی ہوگی ۔
یہ نہرو نے بھگت سنگھ کے بارے میں کہا تھا۔ ابھيودئے میگزین جسے برطانوی حکومت نے ضبط کر لیا تھا، اس کے 8 مئی 1931 کے شمارے میں نہرو کا بھگت سنگھ پر مضمون چھپا تھا۔ عنوان تھا تیاگی بھگت سنگھ۔
یہ کیا بات ہے کہ یہ لڑکا یکایک اتنا مشہور ہو گیا اور دوسروں کے لیے رہنما بن گیا۔ مہاتما گاندھی، جو عدم تشدد کے دوت ہیں، آج بھگت سنگھ کی عظیم قربانی کی تعریف کرتے ہیں۔ ویسے تو پشاور، شولاپور، ممبئی اور دیگر مقامات میں سینکڑوں آدمیوں نے اپنی جان دی ہے۔ بات یہ ہے کہ بھگت سنگھ کی قربانی اور اس کی بہادری بہت اونچے درجے کی تھی۔ لیکن اس محرک اور جوش کے وقت بھگت سنگھ کا احترام کرتے ہوئے ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ ہم نے عدم تشدد کے راستے سے اپنے مقصد کے حصول کا فیصلہ کیا ہے۔ میں صاف کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے اس راستہ اختیار کرنے پر ذرا بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی ہے، لیکن میرا تجربہ ہے کہ تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے ملک کے اعلی درجے کا مفاد حاصل نہیں ہو سکتا اور اس سے ماحول فرقہ وارانہ ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہندوستان کے آزاد ہونے کے پہلے ہمیں کتنے بھگت سنگھوں کو قربانی کرنا پڑے گا۔ بھگت سنگھ سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ ہمیں ملک کے لیے بہادری سے مرنا چاہیے۔
نہرو جو بھگت سنگھ کی قربانی کو کبھی کم نہیں مانتے، تب بھی نہیں جب وہ ان کے خیالات یا راستے سے اپنے فاصلے بھی صاف کرتے ہیں۔ ٹھیک یہی بات سردار پٹیل بھی کرتے ہیں۔ وہ بھی بھگت سنگھ کی تعریف کرتے ہیں مگر ان کے راستے سے خود کو الگ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
نوجوان بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کی پھانسی سے سارا ملک پریشان ہو گیا ہے۔ میں ان بہادروں کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کر سکتا۔ سیاسی قتل دوسرے قسم کے قتل سے کم قابل مذمت نہیں ہے، اس میں مجھے تو کوئی شک نہیں پر سردار بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی حب الوطنی، جرأت اور بہادری کا قائل ہوں۔ پھانسی کی سزا منسوخ کرنے کے لیے جو عرضی پورے ملک نے کی تھی، اس کے انکار سے موجودہ حکومت کی بے دردی اور غیر مساویانہ رویہ جس طرح ظاہر ہوا ہے، ویسے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن ذہنی الجھن کے دباؤ میں ہمیں اپنے فرض سے ذرا بھی مغفل نہ ہونا چاہئے، ان بہادر دیش بھکتوں کی روح کو شانتی ملے۔
کیا ہوگا اگر کوئی نیتا کسی ریلی میں وزیر اعظم کی طرح جاکر کہنے لگے کہ سردار پٹیل اور نہرو کا سب سے بڑا جرم یہی تھا کہ انہوں نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے راستے پر تنقید کی۔ اپنا راستہ چھوڑ کر ان کا راستہ نہیں اپنایا۔ کیا اس طرح سے تاریخ کا حساب ہو گا، وہ بھی وزیر اعظم اس طرح حساب کریں گے۔ کیا بھگت سنگھ کے راستے سے الگ کرتے ہوئے سردار پٹیل یا نہرو نے ان کی توہین کی تھی۔ مدن موہن مالویہ نے بھی بھگت سنگھ سے اپیل کی تھی۔ انہوں نے بھی بھگت سنگھ کے تشدد کے راستے سے خود کو الگ کیا اور نوجوانوں کو اس راستے پر نہ جانے کا مشورہ دیا تھا۔ مدن مالویہ نے لکھا تھا کہ، بھگت سنگھ وغیرہ کی پھانسی سے ایک بات زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ غیر ملکیوں کی حکمرانی میں ہندوستان کو عزت حاصل نہیں ہوسکتی۔ بھارت میں ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ مہاتما گاندھی جیسے عالمی شہرت یافتہ شخص کے درخواست کرنے پر بھی پھانسی کی سزا ختم نہیں کی گئی۔ وائسرائے نے ان کی درخواست پر توجہ نہیں دی۔
ہم نے یہ معلومات چمن لال کی سمپادت كرانتی وير بھگت سنگھ، ابھو دئے اور بھوشیہ سے لی ہے جسے لوك بھارتی پبلشنگ ہاؤس نے شائع کیا ہے۔ وزیر اعظم مودی بنگال کے انتخابات میں جاتے ہیں اور نہرو پر بوس کی توہین کا الزام جڑ دیتے ہیں، گجرات انتخابات میں جاتے ہیں تو سردار پٹیل کی بات کرنے لگتے ہیں، کبھی نہرو پر بھگت سنگھ کی توہین کی بات کرنے لگتے ہیں۔ شہیدوں اور جنگ آزادی کے ہیرؤں کی عزت و توہین کی سیاست سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔اس سے نہ تو سردار پٹیل کی قدر بڑھتی ہے نہ ہی نہرو کی توہین ہوتی ہے۔ یہ بات وزیر اعظم کو سمجھنا چاہئے کہ وہ جو بھی کہیں کم سے کم تاریخ کے ساتھ اور حقائق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔
یہ سوال بھی وہاٹس اپ یونیورسٹی کے لیول کا ہے۔ کیا سیلولر جیل میں خاندان یا کسی بھی رکن کو قیدیوں سے ملنے دیا جاتا تھا۔ نہیں دیا جاتا تھا۔ ابھی رہی بات کہ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ریل راستے سے انہیں لے جایا جا رہا تھا تو کوئی کانگریسی خاندان ساورکر سے ملنے گیا تھا۔ اس سوال کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اس وقت کا کانگریسی خاندان کچھ اور تھا۔ وہ گاندھی خاندان نہیں تھا، تو کیا یہ سوال سردار پٹیل سے بھی ہے، آچاریہ کرپلانی، نیتا جی بوس سے بھی ہے۔ کس کس سے ہے۔ ساورکر، بھگت سنگھ سے کیوں نہیں ملنے گئے یا بھگت سنگھ ساورکر سے کیوں نہیں ملنے گئے، ان سوالات سے تاریخ کا تعین نہیں کر سکتے۔ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔
وزیر اعظم کو اب لگتا ہے کہ مشیر نہیں، مؤرخ کی ضرورت ہے وہ بھی جو کم از کم پڑھا لکھا ہو۔ وهاٹس اپ یونی ورسٹی سے پڑھ کر نہ آیا ہو۔ بھارت کے وزیر اعظم اگر اس سطح پر آئیں گے تو پھر سیاست میں کیا رہ جائے گا۔ ان کا اشارہ لالو یادو اور راہل گاندھی کے درمیان ملاقات کو لے کر تھا۔ پھر وزیر اعظم مودی لالو یادو کے ساتھ اس تصویر میں کیا کر رہے ہیں۔ 21 فروری 2015 کی یہ تصویر اٹاوہ کی ہے، جب ملائم سنگھ کے پوتے سے لالو یادو کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی۔ اپنی بیٹی کا تلک لے کر لالو یادو اٹاوہ آئے تھے، اور وزیر اعظم بھی اس میں شامل ہوئے تھے۔ اس وقت بھی لالو یادو سزايافتہ ہو چکے تھے۔ 2013 میں انہیں 5 سال کی سزا ہوئی تھی اور 11 سال تک کے لیے انتخاب لڑنے پر روک لگا دی گئی تھی۔ اسی اپریل کے مہینے میں راہل گاندھی نے ہسپتال میں علاج کرا رہے لالو یادو سے ملاقات کی۔ کیا جیل میں کسی سے ملنا گناہ ہے، یہ کہاں لکھا ہے، تو پھر وزیر اعظم لالو یادو کی بیٹی کے تلک میں کیوں گئے، تب بھی تو سزا ہو چکی تھی۔
تاریخ کو ایسے مت دیکھیے۔ اس کی بہت باریکیاں ہوتی ہیں۔ جو ہو رہا ہے اس پر بات نہیں ہو رہی ہے، جو ہو چکا ہے اس پر بات ہو۔ سیاست میں بھی ہو، لیکن جھوٹ کے سہارے نہیں۔ اگر وزیر اعظم تاریخ کو لے کر اس طرح سے کریں گے تو پھر کیا بچے گا۔ آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کیا ضرورت ہے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ عوام پر غلط اثر پڑے گا، کیا وہ جھوٹ بول کر اپنی انتخابی کامیابی میں چار چاند لگانا چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ انہیں کرنا پڑے گا، باقی ہم تاریخ کو بہتر بنانے کی ان کی خواہش پوری کرتے رہیں گے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ 
13؍ مئی 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا