English   /   Kannada   /   Nawayathi

اتر پردیش میں انکاؤنٹر کے نام پر قتل، مرنے والوں میں اکثر دلت اور مسلمان

share with us

یوپی:09؍مئی 2018(فکروخبر/ذرائع)ریاست اتر پردیش میں لگاتار جاری انکاؤنٹر پر اب سوال اٹھنے شروع ہوگئے ہیں۔حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے دعوی کیا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں میں انکاؤنٹر کے نام پر مخصوص برادری سے تعلق رکھنے والوں کا قتل ہوا ہے۔سیٹیزن اگینسٹ ہیٹ ( سی اے ایچ ) نامی کی ایک تنظیم نے یوپی میں جاری انکاؤنٹر  پر سوال کھڑا کیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ قتل کیے جارہے افراد میں اکثر مسلمان اور دلت ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی)کی آزاد تحقیقاتی ٹیموں سے جانچ کرائی جانی چاہئے۔سپریم کورٹ کے وکیل اور سماجی کارکن پرشانت بھوشن نے بھی اتر پردیش میں ہوئے انکاؤنٹر کو قتل قرار دیا ہے۔ پرشانت بھوشن کا بھی کہنا ہے کہ معاملے کی تحقیقات این ایچ آر سی کو کرنی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایسے معاملوں کی تحقیقات محکمہ پولیس کے سینئر افسر ہی کرتے ہیں جسے آزادانہ جانچ نہیں کہا جا سکتا۔قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش میں یوگی حکومت کو ایک برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ گزشتہ 12 مہینے میں ریاست میں 1200 سے زیادہ انکاؤنٹر ہوئے ہیں جن میں 50 سے زائد بدمعاشوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ اتنے انکاؤنٹر کے باوجود یوپی میں جرائم میں کچھ کمی نہیں آئی ہے۔انکاؤنٹر پر سوال اٹھنے کی سب سے اہم وجہ ایک ہی طریقے کا ایف آئی آر درج کرایا جانا ہے۔ اکثر ایف آئی آر میں بدمعاشوں کے بھاگنے اور روکے جانے پر گولی چلانے کی بات کہی گئی ہے۔آگے درج ہوتا ہے کہ جوابی کارروائی میں پولیس نے گولی چلائی اور بدمعاش کو مار گرایا جبکہ اس کے ساتھی موقع واردات سے فرار ہونے میں کامیاب رہے۔قومی حقوق انسانی کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک جنوری 2005 سے 31 اکتوبر 2017 تک یعنی گزشتہ 12 برسوں میں ملک بھر میں 1241 فرضی انکاؤنٹر کے معاملے سامنے آئے ہیں، ان میں اکیلے 455 معاملے اتر پردیش پولیس کے خلاف تھے۔

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا