English   /   Kannada   /   Nawayathi

نماز کے روحانی اور جسمانی فائدے

share with us

محمد عارف رضا نعمانی مصباحی


اس دنیا میں تمام مذاہب کے ماننے والے لوگ اپنے اپنے طریقے سے عبادت کرتے ہیں،لیکن مسلمانوں کی عبادتیں دوسروں سے مختلف ہیں۔اسلام کی عبادات پرغور و فکر کرنے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ عبادتیں مقاصد سے خالی نہیں ہیں۔ان میں آخرت کے ساتھ ساتھ دنیاوی فائدے بھی ہیں؛جیسے صحت کی حفاظت ،وقت کی پابندی ،جماعت میں مساوات و برابری کا درس اور طہارت و پاکیزگی وغیرہ ،چاہے ظاہری ہو یا باطنی۔ 
عبادتوں میں سب سے پہلامرحلہ نماز کا آتا ہے ،جوہربالغ مرد و عورت سب پرفرض ہے۔یہ تما م عبادتوں میں سب سے افضل ہے۔اس میں اللہ کی رضا بھی شامل ہے اوریہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ہے ۔یہ برائیوں سے روکتی ہے،ساتھ ہی اچھے کردار والا بناتی ہے۔اللہ عزوجل نے قرآن مقدس میں متعدد بار نماز کا حکم دیا۔اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :
ترجمہ: "اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ"۔( سورہ طٰہ آیت نمبر ۴۱،ترجمہ:کنزالایمان)
یہ آیت کریمہ بتاتی ہے کہ اللہ عزوجل کی یاد نماز پڑھنے میں ہے او ر اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔قیامت میں سب سے پہلے مومنوں سے نماز کے بار ے میں ہی سوال ہوگا۔ اس سے نماز کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔نماز اگر بچپن ہی سے پڑھی جائے تو یہ وقت کا پابندبنا دیتی ہے۔وقت کی پابندی اور اس کی حفاظت انسان کو بلندی کی طرف لے جانے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ نمازی ،اس کی وجہ سے ہر وقت صفائی اور پاکیزگی کا اہتمام کرتا ہے۔صفائی صحت و تندرستی کے لیے ضروری ہے۔ نما زمیں رکوع ، سجود اور قعود کی وجہ سے جسم کے تمام اعضا متحرک ہو جاتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ نمازصرف اللہ کی رضا حاصل کرنے اورآخرت میں کامیابیوں سے ہمکنار ہونے کے لیے ہے ،نہ کہ جسمانی ورزش کے لیے۔یہ تو اللہ عزوجل کا احسان ہے کہ نماز پڑھنے کی وجہ سے نمازی کی صحت سلامت رہتی ہے۔
میڈیکل سائنس کے لحاظ سے دن میں پانچ وقت نماز میں اٹھنابیٹھنا صحت کیلیے بہت مفید ہے۔ جس طرح ورزش کرنے میں اعضا حرکت کرتے ہیں،اسی طرح نماز کی ادائیگی میں بھی اعضا حرکت میں آجاتے ہیں۔ایک بڑافائدہ یہ بھی ہے کہ نماز خون میں موجود کولیسٹرول یعنی چربی کو کم کرتی ہے۔اس کے علاوہ دل کے دورے ،مخبوط الحواسی ،ذیابیطس (شوگر)وغیرہ امراض سے بھی بچاتی ہے۔نمازپڑھنے سے ذہنی سکون کے ساتھ ساتھ کئی قسم کی نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں بھی دور ہوتی ہیں۔نمازجسمانی پٹھوں میں توازن قائم رکھتی ہے۔کمر کاتناؤ ،تیز درد اور ذہنی تنا ؤ کو کم کرتی ہے۔سیدھے کھڑے ہونے کی حالت سے جھکنا(خاص طور سے فجر میں ) ،دو زانو بیٹھنا مٹاپا دورکرنے میں بہت مددگارہے۔دو ،تین یا چار رکعتوں میں سلام پھیرنا گردن اور چہرے کے پٹھوں کے پھیلنے اورسکڑنے کے عمل کو بہتر بناتاہے۔آگے جھکنا ،پھر کھڑاہونا،کندھوں اور ریڑھ کے پٹھوں میں توازن قائم کرتا ہے ۔ اگر کوئی صحیح طور پر یعنی مکمل یکسوئی اور خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرتاہے تو اسے قدرتی طور پر سکون حاصل ہوتا ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
ترجمہ کنزالایمان : "سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔(سورہ رعد 13،آیت نمبر28)
بندے اللہ کی یاد ہی سے چین پاتے ہیں۔جب بندہ دنیا وی خیالات سے اپنے آپ کو دور کرکے اللہ کی بارگاہ میں آتا ہے اور نماز پڑھ کردعائیں کرتا ہے تو اس کے سبب اپنے دل میں ایک خوشی محسوس کرتا ہے اور مصائب و آلام سے نجات پاتا ہے ۔یہ خوشی کیا ہے؟یہی تو چین ہے جو اللہ عزوجل کی طرف سے بندہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ذکر سے دلوں میں قوت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔خود اعتمادی حاصل ہوتی ہے اور دنیاوی افکارسے چھٹکارا ملتا ہے۔ بہت سے ظاہری و باطنی امراض دل کی گڑبڑی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے ؛ناگہانی موت ،صدمے،حسد ،لالچ اور دنیا کی محبت وغیرہ۔جب دل ٹھیک ہوگا تو سب کچھ ٹھیک ہوگا۔ حکما ء فرماتے ہیں؛ آرام سے زندگی گزارنا چاہتے ہو تو دل سے لالچ نکال دو۔ ایک دوسرا قول ہے کہ زندگی میں سکون چاہتے ہو تو وعدے کم کرو۔اس سے بہتر دل کا علاج اور کیا ہو سکتا ہے ؟ 
مغرب میں یوگا(ایک قسم کی ورزش)بہت مقبول ہورہا ہے۔مغرب کے ماہرینِ نفسیات یوگا کی اہمیت و افادیت کے قائل ہیں۔وہ ذہنی انتشار ، پریشانی اور بے خوابی کے شکار مریضوں کو یوگا کی تلقین کرتے ہیں۔ یوگا کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مریض اپنی تمام تر توجہ اور دماغی قوت صرف ایک نقطے پرمرکوز کر دیتا ہے ۔ایک وقت میں صرف ایک ہی خیال ذہن میں موجود رہتا ہے اور ا س کے علاوہ دیگر افکار وخیالات سے توجہ ہٹا لی جاتی ہے۔ جس سے دماغ رفتہ رفتہ پرسکون ہو جا تا ہے اور ذہنی انتشار اور پریشانی ختم ہو جاتی ہے ۔اگرنمازاللہ کی جانب دل کو متوجہ کر کیاور اپنے آپ کو اللہ کے سامنے تصور کرکے اد ا کی جائے تویہ ذہنی انتشار و پریشانی دور کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔
نماز کے روحانی مقاصد:شریعت کے احکام میں اللہ عزوجل نے کچھ اصولی اور کچھ فروعی مقاصد رکھے ہیں۔جیساکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے"اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ''(العنکبوت29/45)
ترجمہ : "اے محبوب پڑھو جو کتاب تمہاری طرف وحی کی گئی اور نماز قائم فرماؤ بیشک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بْری بات سے اور بیشک اللہ کا ذکر سب سے بڑااور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو"(ترجمہ:کنزالایمان)
اس آیت میں وحی سے مراد قرآنِ پاک ہے اس کی تلاوت عبادت ہے۔اس میں لوگوں کے لیے نصیحت ہے اور ساتھ ہی شریعت کے احکام و آداب او رمکارمِ اخلاق کی تعلیم بھی اس میں دی گئی ہے ۔نماز بندے کو ان کاموں سے منع کرتی ہے جن سے شریعت نے منع کیاہے۔لہٰذا جو شخص نماز کا پابند ہوتا ہے اور اسے اچھی طرح ادا کرتا ہے،اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ ان برائیوں کو چھوڑ دیتا ہے جن میں وہ پہلے مبتلا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری جوان سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ? وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا۔ بہت سے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا تھا۔ حضور سے اس کی شکایت کی گئی۔سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا؛ اس کی نماز کسی روز اس کو ان باتوں سے روک دے گی۔چنانچہ بہت جلد اس نے توبہ کی اور اس کا حال بہتر ہو گیا۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جس کی نماز بے حیائی اور ممنوعات سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں ہے۔(تفسیر خزائن العرفان، سورہ العنکبوت آیت نمبر 49 کے تحت)
ترمذی شریف کی حدیث میں ہے۔سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،" کیا میں تمہیں نہ بتاؤں وہ عمل جو تمہارے اعمال میں بہتر اور ربّ کے نزدیک پاکیزہ تر ، نہایت بلند رتبہ اور تمہارے لیے سونے چاندی دینے سے بہتر اور جہاد میں لڑنے اور مارے جانے سے بہتر ہے"؟ صحابہ نے عرض کیا،" بے شک یارسولَ اللہ"۔ فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ ترمذی ہی کی دوسری حدیث میں ہے کہ صحابہ نے حضور سے دریافت کیا کہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے نزدیک کن بندوں کا درجہ افضل ہے ؟ فرمایا "بکثرت ذکر کرنے والوں کا"۔صحابہ نے عرض کیا ،"اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے والا ؟ فرمایا"اگر وہ اپنی تلوار سے کْفّار و مشرکین کو یہاں تک مارے کہ تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خون میں رنگ جائے جب بھی ذاکرین ہی کا درجہ اس سے بلند ہے"۔ 
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس آیت کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو یاد کرنا بہت بڑا ہے اور ایک قول اس کی تفسیر میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بڑا ہے بے حیائی اور بْری باتوں سے روکنے اور منع کرنے میں۔(تفسیر خزائن العرفان، سورہ العنکبوت آیت نمبر 49 کے تحت)
اس لیے ہمیں چاہیے کہ با جماعت نماز پڑھنے کی کوشش کریں،کیوں کہ اصل نماز تو جماعت ہی کی نماز ہے ورنہ صرف فرض کی ادائیگی ہے۔روحانیت تبھی حاصل ہوگی جب مکمل لگن اور یکسوئی کے ساتھ عبادت کریں گے۔ 
ایک اہم نکتہ: جب کسی کام کا حکم دیا جاتا ہے ،تو جو اس کے برعکس ہے ،اس سے منع کرنا خود بخود سمجھ میں آجاتا ہے۔جیسییہ کہا جائے کہ زبان سے بری بات مت کرو، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زبان سے اچھی بات کرو ۔اسی طرح جب نماز کا حکم دیا گیا، تو خود بخود برائی سے روکنے کا مفہوم واضح ہوگیا۔کیوں کہ بندہ جتنی دیر نماز پڑھتا ہے،کم از کم اتنی دیر تو برائی سے رْکا رہتا ہے ۔چنانچہ جب ہمیشہ ایسا کرتا رہے گا تو ایک دن برائی کی عادت ختم ہو جائے گی اور اچھائی کی عادت پڑ جائے گی۔قرآن کی آیت (ترجمہ: بیشک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بْری بات سے )کا یہی مفہوم ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں نمازوں کاپابند بنائے، برائیوں اور بے حیائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
(مضمون نگار کی رائے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
18؍اپریل2018َ/ادارہ فکروخبر

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا