English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی مستقبل

share with us

 

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی


موجودہ دور میں انسانوں نے جہاں ترقی اور عروج کے جدید زاویئے اختیار کر رکھے ہیں- وہیں انسانی سماج سے ملت کی ہمدردی اور بھلائی کا فقدان بڑی تیزی سے بڑھا ہے جس کی وجہ سے انسانی رشتوں میں افتراق پیدا ہو گیا نفرتوں کی پیداوار مسلسل ہو رہی ہے؛ سماج میں جو رشتے بھائی چارگی اور فرحت و انبساط کی نوید ہوا کرتے تھے آج ان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے -ادھر نام نہاد سیاسی رہناءجس طرح عداوت کو فروغ دے رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات بالکل ٹھیک نہیں؛ ہندوستان کی اقلیتیں؛ دلت اور دیگر طبقات ڈر اور خوف محسوس کررہے ہیں؛ اگر ملک کے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ آئے دن مسلمانوں اور دلتوں کو ظلم و ستم کا شکار بنایا جارہا ہے انکی عزت نفس کو پامال کیا جا رہا ہے ؛مذہبی تشخص کو ختم کر نے کی تیاری ہے؛ ملک کی ایکتا کو فرقہ پرست عناصر بڑی تیزی سے متائثر کررہے ہیں

جبکہ یہ حقیقت ہیکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اس کا امتیاز ہی اس میں مضمر ہے کہ یہاں تمام مذاہب و مشارب کے افراد کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے؛نیز ہر ایک طبقہ کے دین اور اس کے جذبات کا احترام ہر ایک کی لازمی ذمہداری ہے؛ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے وطن عزیز کاامن و امان تباہ کر نے کی سعی کی جارہی ہے اور جمہوری نظام کو مٹانے کی بھی در پردہ سازش ہے؛ ان لوگوں کو یہ جاننا ضروری ہیکہ کہ کسی بھی کامیاب حکومت کے لئے ضروری ہےکہ وہ اپنی رعایا کے قلوب میں جگہ پیدا کرے؛ ملک کی تعمیر وترقی کے لئے نئے منصوبے اور تدابیر اختیار کیجائیں ؛عوام کو تمام بنیادی ضروریات مہیا کیجائیں؛ ان کے دکھ ؛درد ؛خوشی اور غم میں حکومتوں کی شرکت ہو؛ معاشی ترقی کی راہ کو آسان کیا جائے؛ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے تاکہ ملک میں خوشحالی کی فضاء ہموار ہو اور ملک میں اتحاد ویکجہتی پیار و محبت کا ترانہ ہر شخص کی زبان زد ہو؛ مگر ہماری موجودہ حکومت نے انتخابی ریلیوں میں عوام سے ان گنت وعدے کئے تھے ارو لگاتار کر رہی ہے مگر ابھی تک ان وعدوں کی تکمیل نہیں ہوئی ہے؛ ابھی کرناٹک کے ہونے والے اسمبلی انتخاب کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئےبی جے پی کے صدر امت شاہ نے کہا ہے 2022 میں ملک لے ہر غریب اور دلت کو پکا مکان دیا جائے گا انہوں نے مزید کہا کہ یہ وعدہ ملک کے پردھان منتری نے کیا ہے؛ اگر تاریخ کے اوراق دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ 2014 میں پردھان منتری جی نے انتخابی ریلیوں سے عوام کو جو سنہرے خواب دکھائے تھے ان میں سے اب تک کتنے پایئہ تکمیل کو پہنچے ہیں؟ حتی کہ انتخابی ریلیوں میں یہ تک کہا گیا کہ بیرون ممالک سے کالا دھن واپس لایا جائے گا اور اس کو ملک کے تمام باشندوں کے مابین تقسیم کیا جائے گا یعنی ایک شہری کو پندرہ لاکھ دیا جائے گا؛ ہر سال دو کروڑ نوکریا ں عنایت کیجا ئینگی

اسی طرح 2017 میں اتر پردیش کے اسمبلی چناؤ میں عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے ان پر شاید ابھی تک عمل در آمد نہیں ہوا ہے اور نا ہی کوئی امید کی کرن باقی ہے کہ ان وعدوں کو کسی بھی طرح کا عملی جامہ پہنایا جائے گا ضمنا یہ عرض کردوں کہ سیاسی جماعتیں الیکشن سے قبل جو اعلامیہ یا دستاویز جاری کرتی ہیں وہ خوبصورت جھوٹ کا پلندہ ہو تا ہے جسے عوام کے سامنے انتہائی مؤثر انداز میں پیش کیا جاتا ہے اسی وجہ سے عوام ان کے اس پر فریب مکر میں پھنس جا تی ہے اور انہیں اپنا سر براہ تسلیم کر کے اقتدار تک پہنچادیتی ہے؛مگر سیاسی افراد عوام کی معصومیت اور ان کے بیجا اعتماد کا نا جائز فائدہ اٹھا تے ہیں چنانچہ ووٹ مانگنے سے قبل عوام کو جو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں ان پر ہمارے نام نہاد رہنما بڑی ہوشیاری سے پانی پھیر دیتے ہیں اور یوں جنتا کی تمناؤں آرزؤں کو پل جھپکتے چکنا چور کر دیا جاتا ہے؛ البتہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ہر طرح کا عمل کرنے کے لئے آمادہ رہتے ہیں تصور کیجئے جب حکمراں طبقہ عوام کو صرف جملوں اور لچھے دار تقریر کا اسیر بنا دیگا تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی عوام بنیادی ضروریا ت سے محروم رہے گی اسی پر بس نہیں بلکہ حیرت اس بات کی ہےکہ حکمراں طبقہ عوام کو مندر مسجد اور رام راج کی دہائی دیکر بھولی بھالی جنتا کو اپنے سیاسی جال میں پھنسا کر اب تک ووٹ بٹورتے آیا ہے مگر اس وقت حالات نے ہلکی سی کروٹ لی ہے اور جنتا سمجھ گئی ہےکہ ملک اور عوام کی ترقی مذہبی منافرت کا خاتمہ کر کے ہی ہو سکتی ہے جو لوگ ملک کی پر امن فضاء کو غارت کرنے کی مسلسل سعی کررہے ہیں ان کے خلاف ہندوستان کے تمام امن پسند شہری یکجا ہوں اور تشدد ظلم و نا انصافی کا جواب پیار و محبت سے دیں کیونکہ گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت آج کی بنیادی ضرورت ہے ؛ ملک کی ترقی کے لئے ضروری امر یہ ہیکہ ملک کے اقتصادی حالات بہتر ہوں ؛ سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کو مضبوط و مستحکم کیا جائے نفرتوں کے سوداگروں کا معاشرہ سے اثرورسوخ ختم کرنے کا مثبت پلان تیار کیاجائے

قارئین کو یاد ہو گا کہ 2 اپریل 2018 کو ہندوستان کے دلت سماج نے مل کر بھارت بندکا اعلان کیا اور پورے ملک میں احتجاج کیا گیا در اصل دلتوں کی یہ نفرت دو ایک روز سے نہیں تھی بلکہ صدیوں پرانا زخم ہے جسے دلت سماج اب تک جھیلتا آیا تھا جو ایک لاوہ کی شکل میں جمع ہورہا تھا اور ظاہر ہے ایک دن ضرور اس کو پھٹنا تھا سیاسی ماہرین دلتوں اور دیگر طبقات کی اس نفرت کو 2019 کے عام انتخابات سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں اگر ان کا یہ غصہ برقرار رہتا ہے تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کو 2019 کی راہ مشکل ترین ہے بلکہ قیاس یہ ہیکہ خود حکمراں طبقہ محسوس کررہا ہے کہ اگر دلت اور دیگر طبقات کی ناراضگی برقرار رہتی ہے تو حکومت سازی کی راہ آسان نہیں ہے یہی وجہ ہیکہ کہ اب حکومت کو دلتوں کی یاد آرہی ہے اور ان سے نفرت کے خاتمہ کی ہر ممکن کو شش کیجا رہی ہے بات در اصل یہ کہ ملک میں جو نظام رائج ہے وہ سیکولر نظام ہے جس میں ملک کے تمام باشندوں کو اپنی خواہشات کے مطابق رسم ورواج اور مذہب و دھرم کو اختیار کرنے کی کھلی اجازت ہے اور یہی امتیاز ہندوستان اور یہاں کی عوام کو مضبوط مستحکم کرتا ہے؛ اس کے باوجود ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو یہاں کے سیکولر نظام کو ختم کرنے کے درپہ ہے اگر ملک کا سیکولر تانا بانا دشمنوں کی بھینٹ چڑھتا ہے تو یقینا ملک کے حق میں ٹھیک نہیں ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہیکہ جو سماج کو اپنے سیاسی مقصد کے لئے استعمال کررہے ہیں انکی ناپاک سازشوں کو چاک کرنے کی ضرورت ہے وہیں عوام کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ آج ملک میں جو حالات ہیں وہ بالکل ٹھیک نہیں ہیں اگر 2019 میں اپنی حق رائے دہی کا صحیح استعمال نہیں کیا تو یقینا ملک میں نفرت اور تشدد کا بازار مزید گرم ہو گا؛ اس کو روکنے کے لئے ضروری ہیکہ ہم ان سیاسی جماعتوں کے دام سے محفوظ رہیں جو مذہب کے نام پر سیاسی روٹی سیکتی ہیں ؛ ادھر تجزیہ نگاروں کا ماننا یہ ہیکہ ملک کے وزیر اعظم نے پبلک سے جن وعدوں کے کرنے کا یقین دلایا تھا وہ پورے طور پر جملے ثابت ہوئے؛ یوں کہا جا ئے تو بے جا نا ہو گا کہ وزیر اعظم کے قول اور فعل میں بڑی حد تک تضاد ہے-

2014 کے بعد جہاں بھی بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اس کی واحد وجہ یہ ہیکہ مسلمانوں کا خوف دکھا کر ہندؤں سے ووٹ حاصل کیا گیا ہے اور بدلے میں ابھی تک انہیں کچھ بھی نہیں دیا گیا ہاں یہ ضرور بتایا گیا کہ ملک ہندو راشٹر ہونے جارہا ہے؛ رام مندر کی تعمیر کیجا ئے گی؛ ہندوستان سے مسلمانوں کو بھگایا جائے گا؛ دلتوں کو ایک بار پھر برہمنوں اور ٹھاکروں کی جوتی سیدھی کرنی ہیں جیسے بے تکے بیان دے کر ہندؤ ں کو مشتعل کیا جاتا رہا ہے اور ان کا ووٹ ملتا رہا ہے اسی طرح یہ بھی عرض کردوں کہ کانگریس نے بھی یہی پالیسی اختیا ر کی تھی لیکن اسکی پالیسی بی جے پی کی پالیسی سے ٹھیک برعکس تھی یعنی اس نے مسلمانوں کو ہندؤں سے خوف زدہ کیا اور ملک میں سب سے زیادہ حکومت کی مگر مسلمانوں کے تئیں خاطر خواہ فائدہ کسی بھی سیاسی جماعت نے نہیں پہنچایا؛ حقیقت یہ ہیکہ 70 سال سے مرکزی اور علاقائی سیاسی جماعتوں نے صرف ان کا استحصال کیا ہے ؛ مگر اس وقت کی صورت حال ذرا مختلف ہے وہ اس لئے کہ اب مسلمانوں کا سیاسی مستقبل مخدوش و مجروح ہو چکا ہے ؛ مسلمانوں کی سیاسی حیثیت یکسر معدوم ہوچکی ہے کیونکہ جو جماعتیں ووٹ کی ہی خاطر صحیح الیکشن کے وقت یاد کرلیا کرتی تھیں اب وہ بھی ہندو ووٹ کو اپنی طرف لبھانے میں لگی ہوئی ہیں گویا مسلمان اس وقت حاشیہ نشیں ہو چکا ہے سیاسی؛ سماجی؛ معاشی اور تعلیمی طور پر مسلمان پہلے ہی حد درجہ پسماندہ ہے رہی سہی کسر اب پوری ہوگئی۔

اس لئے اگر ملک کی بقاء اور اسکی یکجہتی کی ذرہ برابر بھی فکر ہے تو ہندوستان کے تمام سیکولر طبقات کو یکجا ہو کر فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف لڑنا ہو گا اگر فوری طور پر اس پر قد غن نہیں لگی تو یقین جانئے ملک میں امن و امان کی جڑیں مزید کمزور ہونے کا خطرہ ہے اور نفرت؛ فرقہ پرستی اور سماج دشمن عناصر کے حوصلے مزید مستحکم ہونگے؛ آخر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ حکومت خواتین کے تحفظ کی خاطر مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کرہی ہے جو ایک طرح کا بہانہ بناکر ہندو ووٹ کو یکجا کرنا ہے اگر خواتین کی ہمدردی کا جذبہ اس قدر ہے اور ان کے تحفظ کے لئے ذرہ برابر بھی مخلص ہیں تو ضرورت یہ ہیکہ آصفہ کے مجرموں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچیا جائے ساتھ ہی ان شریروں کو بھی سخت ترین اذیت دیجائے جو ان حیوانوں کی حمایت میں ترنگا لہرا کر احتجاج کرہے ہیں اسی طرح عناؤ اور دیگر واردات کے سلسلہ.میں حکومت سنجید گی سے کا م کرتے ہوئے اس طرح کے درندہ صفت انسانوں کے ساتھ سخت کاروائی کرے۔


(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
15؍اپریل)ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا