English   /   Kannada   /   Nawayathi

شام پر امریکہ کا حملہ اس وقت ہی کیوں۔۔۔اصول مقصود یا اپنے مفادات؟

share with us

یہ فائدہ بنیادی حیثیت سے نہیں ہے، بلکہ اپنے اصولوں پر پختگی کے اعتبار سے ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے قرآن میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زبانی فرمایا تھا جب انھوں نے درخواست کی: ’’رب أرنی کیف تحیی الموتی قال أو لم تؤمن قال بلی ولکن لیطمئن قلبی‘‘ (البقرۃ: ۲۶۰)اے میرے پروردگار! مجھے دکھادے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ فرماتا ہے۔ رب نے دریافت کیا: کیا تم ایمان نہیں رکھتے؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں، لیکن اس وجہ سے کہ میرا دل مطمئن ہوجائے۔
۱۔ دینی اعتبار سے جواب وحی الہی پر ایمان رکھنے والوں کے لیے:
یہاں ان نصوص کو پیش کیا جارہا ہے جن کے سلسلہ میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے، یہ نصوص مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے: ’’ما یود الذین کفروا من أھل الکتاب ولا المشرکین أن ینزل علیکم من خیر من ربکم واللہ یختص برحمتہ من یشاء واللہ ذو الفضل العظیم‘‘(البقرۃ: ۱۰۵)(اہلِ کتاب میں سے کفر کرنے والے نہیں چاہتے ہیں اور نہ مشرکین کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کچھ بھی خیر نازل ہو، اور اللہ اپنی رحمت جس کے لیے چاہتا ہے مخصوص فرماتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے)
اس آیت میں حصر کا صیغہ استعمال کیا گیا جس کے تعلق سے اصولیین کہتے ہیں کہ ’’نفی کے سیاق میں نکرہ کا مطلب ہاں ہوتا ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر کا لفظ نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے پہلے شروع آیت میں ’’ما‘‘ نفی ہے، پھر تاکید کے بہت سے عناصر کا اضافہ کیا گیا ہے، مثلا حرف ’’من‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اہل کتاب میں سے کفر کرنے والے اور مشرکین مسلمانوں کے لیے کسی بھی طرح کا خیر نہیں چاہتے، کم سے کم خیر بھی نہیں۔
۲۔ فرمان الہی ہے: ’’ولا یزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم ان استطاعوا‘‘ (البقرۃ: ۲۱۷) (اور وہ برابر تمہارے خلاف جنگ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ تم کو تمہارے دین سے ہٹادیں گے اگر وہ طاقت رکھتے ہیں)
اس آیت میں ’’لایزال‘‘ کی تعبیر استعمال کی گئی ہے، جس میں استمرار اور تسلسل کے معنی پائے جاتے ہیں، جس سے ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کی طرف اشارہ ہے، اور یہاں جمع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کی یہ کوشش اجتماعی ہے، انفرادی نہیں، اور اس جنگ کا واضح مقصد یہ بیان ہوا ہے کہ اپنی پوری کوشش لگاکر اور ہر طرح کی جد وجہد سے تم کو تمہارے دین سے ہٹادیں، اس جدوجہد کی طرف ’’ان استطاعوا‘‘ میں اشارہ کیا گیا ہے، اس لیے جنگ یقینی طور پر مسلمانوں کے خلاف اسلام کو ماننے کی وجہ سے ہے۔
۳۔یہ بھی فرمان باری تعالی ہے: ’’کیف وإن یظھروا علیکم لا یرقبوا فیکم إلا ولا ذمۃ یرضونکم بأفواھھم وتأبی قلوبھم وأکثرھم فاسقون‘‘ (التوبۃ: ۸)(اگر وہ تم پر غالب آجائیں گے تو تمہارے سلسلہ میں نہ کسی رشتے کا پاس ولحاظ رکھیں گے اور نہ کسی عہد وپیمان کا، وہ تم کو اپنی باتوں سے راضی کرتے ہیں اور ان کے دل انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں)
اللہ رب عزوجل یقینی طور پر بیان فرمارہا ہے کہ سب کے سب مشرک جن میں سے اہل کتاب بھی ہیں جب غالب آجاتے ہیں اور ان کی حکومت قائم ہوتی ہے اور ان کو قیادت وسیادت حاصل ہوتی ہے، اور وہ طاقت ور وسائل کے مالک بن جاتے ہیں تو تمہارے سلسلہ میں وہ کسی بھی قسم کے عہد وپیمان اور معاہدوں کا پاس ولحاظ نہیں رکھتے ہیں، نہ کسی قسم کے اخلاق برتتے ہیں اور نہ ان کے دل سے رحم کا گزر بھی ہوتا ہے، اور وہ کسی بھی قسم کی نرمی کو ملحوظ نہیں رکھتیہیں۔اس آیت میں اللہ تعالی ان کی میٹھی باتوں سے بھی چوکنا فرمارہا ہے کہ کہیں ان کی لپٹی چپٹی باتوں کے دھوکہ میں نہ آجائیں، یہ عمومی طور پر دیکھا جاتا ہے کہ امت مسلمہ دشمنوں کی رس بھری باتوں کے جال میں پھنس جاتی ہے، لیکن اللہ ان کے وعدوں کی حقیقت سے پوری طرح واقف ہے۔
۴۔اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’یریدون أن یطفؤا نور اللہ بأفواھھم ویأبی اللہ إلا أن یتم نورہ ولو کرہ الکافرون‘‘ (التوبۃ: ۳۲) وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں، اور اللہ کو اس بات پر اصرار ہے کہ اپنے نور کو مکمل کرکے رہے گا چاہے کافر ناپسند کریں۔
دشمنوں کی یہ انتھک اور انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ اللہ کے دین کو مکمل طور پر مٹادیا جائے، لیکن اللہ کا مومنوں کے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ دشمنوں کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ اللہ ان کی حفاظت کرے گا۔
۵۔’’ولن ترضی عنک الیھود ولا النصاری حتی تتبع ملتھم قل إن ھدی اللہ ھو الھدی ولئن اتبعت أھواء ھم بعد الذی جاء ک من العلم مالک من اللہ من ولی ولا نصیر‘‘ (البقرۃ: ۱۲۰) اور یہود تم سے ہرگز راضی نہیں ہوسکتے اور نہ نصاری، یہاں تک کہ تم ان کے دین کی پیروی کرلو، آپ کہہ دیجئے: یقیناًاللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے، اور اگر تم نے اپنے پاس علم آنے کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلہ میں تمہارا کوئی کارساز نہیں ہوگا اور نہ کوئی مددگار۔
اس آیت میں یہود ونصاری اور کافروں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے مقاصد کو بیان کیا جارہا ہے کہ وہ دینِ اسلام کو چھوڑ کر اپنے دین میں داخل ہوجائیں، اگر ہم اپنی گردنیں ان کے حوالے کردیں، اپنا سب کچھ؛ جائیداد، ذخائر اور سرزمین ان کے حوالے کردیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہمارے بچوں اور عورتوں کو بھی ان کے حوالہ کیا جائے تو بھی وہ ہم سے راضی نہیں ہوں گے، کیوں کہ وہ یہی چاہتے ہیں کہ ہم عظیم اسلام سے مرتد ہوجائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس تعلق سے نصوص کی کثرت ہے، لیکن میں نے چند پر اکتفا کیا ہے، صاحب ایمان کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ کو اپنا رب مانے، اسلام کو اپنا دین تصور کرے اور محمد ﷺ کو رسول اورنبی مانے، اور یہ ایک آیت تلاوت کرے: ’’سمعنا وأطعنا‘‘ (البقرۃ: ۲۸۵)ہم نے سنا اور اطاعت کی۔
احادیث نبوی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مکاری، دھوکہ دہی، بے ادبی، جھوٹ، حسد، کراہیت، تکبر اور غرور یہودیوں کی صفات ہیں، ان صفات سے متعلق دلائل کو جاننے کے لیے ڈاکٹر عبد اللہ ناصر بن محمد شقاری کی کتاب ’’الیھود فی السنۃ المطھرۃ‘‘ کا مطالعہ مفید ہوگا۔
ان مذکورہ نصوص سے یہ بات کھلی کتاب کی طرح واضح ہے کہ اگر مشرکین کے ہاتھوں میں حکومت آتی ہے اور وہ غالب آجاتے ہیں تو وہ کسی بھی صورت میں ہم میں کسی عہد وپیمان اور نرمی کا پاس ولحاظ نہیں رکھیں۔
کیا ان واضح نصوص کے بعد بھی کوئی مومن اس بات کا گمان بھی کرسکتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حلیف بشار الاسد کے ظلم وستم کی چکی میں پسنے والی شامی قوم کے آنسو پوچھنے کے لیے آئیں گے؟
عقل مندوں کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔
۲۔ جو واقعات اور اعداد پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے سیاسی زبان کے حوالے سے چند باتیں عرض ہیں:
میں بطور تمہید یہ بات کرنا چاہوں گا کہ مصری صدر ڈاکٹر مرسی نے جون ۲۰۱۳ کے اوائل میں اپنے ساتھ ہوئی ملاقات میں مجھ سے کہا کہ انھوں نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی طرف سے کی گئی اس درخواست کو تین مرتبہ رد کرچکے ہیں کہ امریکہ شام پر حملہ کرنا چاہتا ہے؛ کیوں کہ ڈاکٹر مرسی کو یہ احساس تھا کہ امریکہ شامی فوج کے ساتھ ساتھ وہاں کے عوام پر بھی حملہ کرے گا، اور بشار الاسد اور اس کے نظام کے ساتھ کوئی بھی چھیڑ خوانی نہیں کرے گا، یہ اس وجہ سے کہ امریکہ کو اپوزیشن کے کامیاب ہونے کا اندیشہ پیدا ہوچکا ہے، جس کے نتیجہ میں اپوزیشن شامی ہتھیار پر قابض ہوجائیں گے اور اس کا راست خطرہ اسرائیل کو ہوگا، اس کا یہ نتیجہ سامنے آئے گا کہ طاقت ور شامی فوج ختم ہوجائے گی اور شامی عوام ملیامیٹ کردیے جائیں گے، نہ شام کا کوئی مفاد پورا ہوگااور نہ عالمِ عرب کا، بلکہ اس میں پورا کا پورا فائدہ صرف اسرائیل کو ہوگا، اور یہ مغرب کا سب سے بڑا مفاد ہے۔
میری اس بات کی تاکید کہ یہ حملہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے کیا جارہا ہے، اس میں انسانی اصول اور قدروں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، مندرجہ ذیل باتوں سے ہوگی:۱۔ ڈھائی سال سے بشار الأسد اور اس کی فوج شام میں دو لاکھ سے زائد افراد کو قتل کرچکے ہیں، ایک لاکھ کی تعداد بیان کی جاتی ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اسی طرح دس لاکھ سے زائد لوگ زخمی ہوچکے ہیں اور تیس لاکھ افراد کو شام سے نکال دیا گیا ہے، اور ستّر لاکھ لوگوں کو بے گھر کردیا گیا ہے، بشار الاسد پورے ملک کو تباہ وبرباد کرچکا ہے، پھر اس وقت ہی شام کی فائل سامنے کیوں آئی ہے؟! اصولوں کی تکمیل کے لیے یا اپنے مفادات پورے کرنے کے لیے؟!
۲۔کیمیائی ہتھیا کے ذریعہ شام کے عوام کو قتل کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ اس کو بنیاد بناکر شام پر حملہ کردیا جائے، اس سے پہلے ۶۳ مرتبہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا جاچکا ہے، اس سے بھی بڑھ کر الکٹرونک آری سے کئی مرتبہ عوام کو چیرا جاچکا ہے، اس سے بھیانک جرم یہ ہے کہ بیٹیوں، بیویوں، ماؤوں اور بہنوں کی عزتوں کو ان کے بھائیوں، شوہروں، بیٹوں اور باپ کے سامنے تاراج کردیا گیا ہے، صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ دختران ملت کو بشار کے کارندوں کی طرف سے باری باری عزت لوٹنے کے بعد قتل کردیا جاتا ہے اور ان کے اہلِ خانہ کو بھی، اس کے باوجود کسی عربی ، کسی مسلمان اور کسی انسانیت نواز کی رگِ حمیت بھڑکتی نہیں ہے، مظلوم عورت کی حفاظت کرنے والا کوئی بھی سامنے نہیں آتا ہے، قتل کا کوئی بھی ایسا طریقہ نہیں ہے جس کو شام میں آزمایا نہ گیا ہو، ہر واقعہ صرف دردناک ہی نہیں ہے بلکہ انسانیت کو رسوا کرنے والا ہے، ہم میں سے ہر ایک چمڑا کھینچنے، اعضائے تناسل کو کاٹنے اور چھری یا آری سے ذبح کرکے سر کو جسم سے الگ کرنے کی تصاویر کو دیکھ چکے ہیں۔
رابطہ علمائے اہل سنت کے ساتھ میں نے ’’درعا‘‘ کے قریب شامی سرحد پر اردن میں ’’رمثہ‘‘ کیمپ میں موجود شامی پناہ گزینوں سے ملاقات کی، ایک پناہ گزین نے ہم سے کہا کہ میرے سامنے میرے بیٹے کو صرف اس وجہ سے گولیوں سے بھون دیا گیا کہ بہت سے دیگر لوگوں کے ساتھ اس نے جمعہ کی نماز کے بعد محفوظ نکلنے کے لیے آواز لگائی تھی، دوسرے ہفتہ جمعہ کے دن میرا دوسرا بیٹا نماز کے بعد نوجوانوں کے ساتھ نکلا، اس کو بشار کی فوج نے پکڑا اور میرے سامنے مرغی کی طرح چھری سے ذبح کردیا اور انھوں نے کہا: ہم نے گزشتہ ہفتہ تم پر احسان کیا تھا کہ اس کے بھائی کا جنازہ تمہارے حوالہ کردیا، لیکن اس کا جنازہ تمہارے حوالہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کو اپنے ساتھ لے جائیں گے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کوڑے دان میں ڈال دیں گے تاکہ تم لوگ دوسروں کے لیے عبرت بن جاؤ۔
لیکن بہادر شامی قوم نے انسانیت کے لیے عار، ظلم وستم کرنے والوں، آری سے چیرنے والوں، کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرنے والوں اور خون کی ہولی کھیلنے والوں کا چیلنج قبول کرلیا ہے، اس سفر کے سبھی مشاہدات اور بشار الاسد کے ظلم وستم کی داستانوں کا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ابتدائی دنوں میں ہی عرب لیگ، عربی لشکروں اور فوجی حلیفوں اور اقوام متحدہ کو عملی فوجی کاروائی کرنی چاہیے تھی اگر ان میں کچھ بھی عربی یا اسلامی یا اس سے بھی کم درجہ میں انسانی قدریں رہتیں۔
۳۔ہونا تو یہ چاہیے کہ مظلوم کی پہلی پکار پر ہی ظالم کو روک دیا جائے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کا دستور تھا، یہ عقل میں آنے والی بات نہیں ہے کہ ڈاکٹر زخمی کو خون رستے ہوئے چھوڑ دے اور جب اس کی موت ہوجائے تو آکر موت کی سرٹیفکٹ لکھ دے، یا موت سے پہلے آکر اس کو مرنے سے اس وجہ سے بچائے کہ وہ پوری زندگی معذور ہوکر زندگی گزارے؟
یہ ایک بہت ہی اہم سوال ہے کہ اچانک امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر حلیف ممالک کے شریف ڈاکٹروں کو شام پر حملہ کرنے کا اچانک کیوں خیال آیا؟
کیا یہ شام کے کمزوروں کو بچانے کے لیے بہادری ہے؟ اگر ہے تو یہ بہادری ڈھائی سال تک کہاں چھٹی پر گئی ہوئی تھی؟!!! اگر اس مسئلہ کا تعلق امریکہ یا برطانیہ اور اس کے حلیفوں کے نزدیک یا ان کے اپنے دیے ہوئے نام کے مطابق بین الاقوامی معاشرہ کے نزدیک اصولوں سے ہوتا تو مارچ ۲۰۱۱ء سے بچوں، عورتوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کی چیخ وپکار سے دنیا کی ضمیر جاگ اٹھتی اور حرکت میںآتی۔

(بقیہ اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا