English   /   Kannada   /   Nawayathi

کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات !

share with us

مولاناعبدالرشید طلحہ نعمانیؔ 


سفرمعراج جہاں عالم انسانیت کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے والاکائنات کاسب سے منفرد اور انوکھاواقعہ ہے ،وہیں اپنے اندر ملت اسلامیہ کے حق میں متعدد خوش خبریوں ، برکتوں اور رحمتوں کی سوغات بھی رکھتا ہے ۔غورکیاجائے تواسراء اور معراج کے اس اہم ترین واقعے نے فکرِ انسانی کو ایک نیا موڑ عطا کیا اور تاریخ پر ایسے دوررس اثرات ڈالے ؛ جس کے نتیجے میں فکرونظر کو وسعت ملی،قلب ودماغ کوبالیدگی عطاہوئی،جسم وروح کو بلندی وپاکیزگی حاصل ہوئی ۔
یہ ایک ایسا واقعہ ہے ؛جس سے خالق کائنات کی زبردست قدرت اور خاتم النبیینﷺکی برتری و فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔بہ نظر غائر دیکھاجائے تومعراج کا یہ واقعہ انسانیت کو رشدوہدایت اور ترقی و کامرانی کی راہوں پر گامزن کرتا ہے ، اسے فضاؤں کی بسیط وُسعتوں اور خلاؤں کے دور اُفتادمقامات کو زیر کرنے کا حوصلہ بخشتا ہے ، اُسے یہ احساس دلاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہی قادرِ مطلق اور زبردست قوت و حکمت والا ہے اور انسانی مادّی طاقت اورمحدود عقل اُس کی گہرائیوں تک پہونچنے سے عاجز و قاصر ہے ۔ایسے ہی کسی موقع کے لیے علامہ اقبال مرحوم نے کیاخوب کہا ہے ؂
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیادرکھ
اس عظیم رات میں پانچ نمازوں کی فرضیت کے انعام سے بھی نوازا گیااوراس کے ذریعے قدرت کے بے شمار عجائبات کوبھی ظاہر کیا گیا،مختلف حسی تمثیلات کے ذریعہ عبرت پکڑنے کی ہدایت بھی کی گئی اورعالم بالا بالخصوص جنت وجہنم کی سیر بھی کرائی گئی۔کسی شاعر نے بڑے ہی خوب صورت انداز میں اس کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ؂
اللہ اللہ ! وہ اِک نُور مبیں آج کی رات
جسم کی ، روح کی،عرفان و یقیں کی معراج
تیری معراج بنی اہلِ زمیں کی معراج
عقل کی ، ہوش کی ، ایمان و یقیں کی معراج
اُم ہانی کے مکاں ، تجھ پہ ابد تک ہوں سلام
سب کی معراج ہے اِک تیرے مکیں کی معراج
تھم گیا وقت، رُکی کون و مکاں کی گردش
دیکھ اے چرخ! یہ ہے حجرہ نشیں کی معراج
سفرِ معراج کے تین مراحل:
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقدس مرحلہ وار سفر کے لئے اپنی کتاب 146146فوائد الفوائد145145 میں تین اصطلاحات استعمال فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں :
اسراء: مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر۔معراج : بیت المقدس سے مرحلہ وار ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہی تک کا سفر۔اعراج : سدرۃ المنتہی سے مقام قاب قوسین تک کاسفر (فوائدالفوائد، 4 : 350)
سفرمعراج کادل کش نظارہ:
معراج کی اس رات کا کیا سماں ہوگا ،کس قدر حسین و دل کش نظارہ ہوگا،عالم بالا کی بہاریں سمٹ سمٹ کرجلوہ جاناں کے لئے کب سے فرش راہ بنی ہوں گی،عالم قدس کا ذرہ ذرہ سراپامحوانتظاررہاہوگا کہ شہنشاہ بطحی ارض مقدس سے عرش معظم پر تشریف لانے والے ہیں ،خود آ نہیں رہے ہیں بلائے جارہے ہیں ،کسی وحی اور پیغام کے ذریعہ نہیں ؛ بل کہ پیام بر امین کے توسط سے ۔
ایک طرف غایت اشتیاق میں جنتیں سجادی گئیں ،رحمتیں لٹادی گئیں ،منادی کرادی گئی کہ شاہ دوعالم آرہے ہیں !حبیب کبریا رونق افروز ہونے جارہے ہیں !تو دوسری طرف حقیقت منتظر کو دیکھنے کے لئے جبین نیاز میں ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں ،گردن مبارک عبدیت وبندگی کے جذبات سے جھکی جارہی ہے ۔
ذراتصور تو کیجئے !رجب کی وہ کیف آگیں شب آہستہ آہستہ نشاط و مستی میں مست ہوئی جارہی ہے ،ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ جھلملا رہے ہیں ، پوری دنیا پر سکوت و خاموشی کا عالم طاری ہے ، نصف شب گزرنے کو ہے کہ یکا یک آسمان دنیا کا دروازہ کھلتا ہے ، انوار و تجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق لئے آسمان کی بلندیوں سے اتر کر حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لاچکے ہوتے ہیں ؛جہاں ماہ نبوت حضرت محمد ﷺمحو خواب ہیں ، آنکھیں بند کئے ، دل بیدار لئے آرام فرمارہے ہیں ، حضرت جبرائیل امین غایت ادب واحترام کے ساتھ آپ کو بیدار فرمارہے ہیں ۔
زمیں وآسمان نجوم وقمر اس منظر کو دیکھنے کے لئے بے حس وحرکت ہو ئے جارہے ہیں ،رحمت عالم ،محسن کائنات، فخر موجودات ﷺکو عالم بالا پر لے جانے کے لئے تیار کیا جارہا ہے ، دل کو آب زمزم سے دھوکر اسمیں معرفت الہیہ اور انوارات ربانیہ کو بھر اجارہا ہے ۔
ادھربراق جیسی انوکھی سواری حاضر خدمت ہے آپ اس پر سوار ہوکرچشم زدن میں بیت المقدس میں جلوہ گرہورہے ہیں ۔صحن حرم سے تابہ فلک نور ہی نور چھایا ہوا ہے ، ستارے ماند پڑچکے ہیں ، قدسی سلامی دے رہے ہیں ، حضرت جبرائیل علیہ السلام اذان دے رہے ہیں ، تمام انبیاء و رسل صف بستہ کھڑے ہورہے ہیں ، صفیں بن چکیں ہیں ، امام الانبیاء فخر دوجہاں حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امامت کے لئے تشریف لارہے ہیں ، تمام انبیاء و رسل امام الانبیاء کی اقتداء میں دو رکعت نماز ادا کرکے اپنی نیاز مندی کا اعلان فرمارہے ہیں ، ملائکہ اور انبیاء کرام سب کے سب سرتسلیم خم کئے کھڑے ہیں ۔
بیت المقدس اپنے نصیب پر رشک کررہاہے کہ اس نے آج تک ایسا دلنواز منظر اور روح پرور سماں نہیں دیکھا ۔وہاں سے فارغ ہوتے ہی عظمت و رفعت کے پرچم بلند ہوتے نظرآرہے ہیں اور سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نوری مخلوق کے جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہورہے ہیں ،آسمانوں پر نبی اُمی ﷺعالم ملکوت کا مشاہدہ کرتے ہوئے اورانبیاء ورسل سے ملاقاتیں کرتے ہوئے ، قاب قوسین کے مرتبہ پر پہنچ کر جبین مبارک خم کردیتے ہیں اور رب کائنات فاوحیٰ الیٰ عبدہ مااوحیٰ کے پیار بھرے الفاظ سے کائنات کے اسرار ورموز کھول کرآپ کو انسانیت کے اعلیٰ ترین منصب مقام عبدیت پر فائز کردیتے ہیں ۔
جلوہ افروز ہے اک ماہِ مبیں آج کی رات
نور ہی نور ہے تا حدِ یقیں آج کی رات
حرمِ ناز میں پہنچے شہِ دیں آج کی رات
حرمِ ناز ہے کچھ اور حسیں آج کی رات
واقعۂ معراج کا مقصد:
واقعہ معراج کے مقاصد میں جو سب سے اہم اور بنیادی مقصد قرآن کریم (سورہ بنی اسرائیل)میں ذکر کیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم (اللہ تعالیٰ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قدرت کی کچھ نشانیاں دکھلاناچاہتے ہیں ۔
اس کے مقاصد میں سے ایک اورمقصد اپنے حبیب ﷺکو وہ عظیم الشان مقام ورتبہ دینا ہے جو کسی بھی انسان ؛حتی کہ مقرب ترین فرشتہ کوبھی حاصل نہیں اور نہ کبھی حاصل ہوگا، نیز اس کے مقاصد میں امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا بھی ہے کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم المرتبت فریضہ ہے کہ اس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں ؛بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات میں ہوا؛جس کا حکم عام احکام کی طرح حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچا؛بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے پاس بلاکرعطا فرمایا۔
معراج کے اس محیرالعقول واقعہ کو جہاں عقل و قیاس کے پیمانہ سے ناپنا بے سود ہے ،وہیں اس کی حقیقت کو محض دماغی قابلیت کے بل پر سمجھنا اور سمجھانا گرفتاران عقل کے بس سے باہر ہے ، یہ مسئلہ خالص یقین و اعتقاد کا ہے بس اس پر ایمان لانا اور اس کی حقیقت و کیفیت کو علم الٰہی کے سپرد کر دینا ہی عین عبادت ہے ، اور ویسے بھی نبوت، وحی اور معجزوں کے تمام معاملات احاطہ عقل و قیاس سے باہر کی چیزیں ہیں ، جو شخص ان چیزوں کو قیاس کے تابع اور اپنی عقل و فہم پر موقوف رکھے اور کہے کہ یہ چیز جب تک عقل میں نہ آئے میں اس کو نہیں مانوں گا اور اس پر اعتقاد نہیں رکھوں گا تو سمجھنا چاہئے کہ وہ شخص نعمت ایمان سے محروم ہے ؛لہذا جو لوگ معرفت کے مقام کو نہ پہنچے ہوں ان کے لئے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول جو کچھ فرما دیں بس اس کو مان لیں اور بلا چون وچرا اس پر ایمان لے آئیں ، سلامتی اور نجات کی راہ اس کے علاوہ کوئی نہیں ۔
پیامِ معراج:
معراج سے درس حاصل کرنے کا تقاضا ہے کہ انسان کو انسانیت کی معراج، مومنانہ صفات کی ترقی کی جانب متوجہ ہو جانا چاہیئے ، نفس امارہ پر جس قدر گرفت ممکن ہوگی اسی قدر جہالت، خباثت، تکبر اور تنگ ظرفی سے چھٹکارا مل سکے گا، فکرونظر کی وسعت اور علم و حکمت کی گہرائی میں اضافہ ہوگا۔ معراج کا یہ عظیم واقعہ عالمِ عارف اور مومنِ محقق کے دل و دماغ میں انقلاب برپا کرتا ہے ، عاشقی کوزندگی کے آداب اور بندگی کا سلیقہ سکھاتا ہے ، ایقان کی نظر کھولتا ہے ، رحمۃ للعالمین کے معانی کی تشریح کرتا ہے ، معراج لطافت و حکمت کے راز سے آشنا کرتا ہے ، عشق و قوت کو الہی صفات کے اثر و توفیق سے ملا دیتا ہے ، سرور کائنات ﷺکے خطاب کا مفہوم رقم کرتا ہے ، انسانی ارادوں ، کاوشوں ، کارناموں اور ترقیات کا رُخ متعین کرتا ہے ، تاکہ انسان بھول بھلیوں سے نکل کر ہمہ وقت اپنے مقصد حیات کو پیش نظر رکھے ۔
علامہ شبلی نعمانی ؒ کے مطابق صرف سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت ہی واقعہء اسراء یا معراج سے متعلق نہیں ، بلکہ پوری سورت اسی واقعہ کے گرد گھومتی ہے اور معراج کے فلسفہ و مقاصد کو واضح کرتی ہے ۔(بحوالہ سیرت النبیٰ ﷺجلد سوم ص252)
چناں چہ آپ ﷺکو سورہ بنی اسرائیل میں انسانیت کو راہ ترقی پر گام زن رکھنے کے لیے بارہ احکامات عطا ہوئے ، جو زیادہ جامع اور ہر دور کی انسانیت کو اس کی فطرت پر قائم رکھنے کے لیے بنیادی نسخہ کی حیثیت رکھتے ہیں ؛جس میں انسانیت کو حکم دیا گیاکہ
(1)شرک نہ کرو (2)والدین کی عزت اور اطاعت کرو (3) حق داروں کا حق ادا کرو (4) اسراف، افراط و تفریط سے پر ہیز کر کے میانہ روی اختیار کرو (5) اپنی اولاد کو قتل نہ کرو (6) زنا کے قریب نہ جاؤ (7) کسی کو ناحق قتل نہ کرو (8) یتیم سے بہتر سلوک کرو (9) عہد کی پاس داری کرو (1) ناپ تول اور وزن کرنے میں عدل کرو (11) نامعلوم بات کی پیروی نہ کرو، یعنی جہالت سے دور رہو (12) غرور اور تکبر سے اجنتاب کرو۔(سورۃ بنی اسرائیل آیت 32تا37)
آج ہماری تہذیب و تمدن کی عمارت متزلزل ہوچکی ہے ، اس کی بنیادوں میں دراڑیں پڑچکی ہیں ، اس کے شہتیر ہل رہے ہیں اوریہ سب کچھ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو نظرانداز کردینے کا ہی نتیجہ ہے ،یہ رات اس بات کی یاد تازہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے ؛ جس کے لیے بطور خاص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمانوں پربلایا گیا ۔
واقعہ معراج کا گہرا اور معروضی مطالعہ ہمیں مستقبل میں ہونے والی ترقیات وکمالات کا مرکزی نقطہ اور بنیادی تصور فراہم کرتاہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ معراج خاتم الانبیاءﷺکا اک معجزہ ہے جو اسباب اور وسائل کا محتاج نہیں اور انسانی ترقی وجدید کمالات کے لئے اسباب ووسائل درکار ہیں اور اگر اسی ترقی وکمالات کا رخ مادیت کے بجائے روحانیت کی طرف موڑ کر ایمان وعمل میں مشغول ہوجائیں تو دنیائے فانی کی عارضی نعمتوں کی بجائے جنت کی ایسی لازوال نعمتیں ملیں گی کہ جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا نہیں ، کسی کان نے سنا نہیں ؛ بلکہ کسی انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں آئیں ۔
ہم آج اس رہبر انسانیت کو سلام کرتے ہیں جس نے انسان کو یہ سبق دیا کہ تجھ پر شمس وقمر اور نجوم وسماء کی حکمرانی نہیں ہے بلکہ سارا نظام فلکی تیرے لئے غبار راہ ہے اور اس نبی امی ﷺکے جاں نثار غلام حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی عظمتوں کو سلام کرتے ہیں جس نے شب معراج میں یہ پیغام دیا کہ انسانیت کی فلاح وکامرانی اور تسخیرکائنات کا راز پیغمبر اسلام کی غلامی اور آپ کی اطاعت وفرماں برداری میں پوشیدہ ہے ۔
مختصر یہ کہ:معراج ایک عظیم ترین معجزہ، ایک عظیم ترین واقعہ، ایک عظیم ترین سبق اور ایک عظیم ترین پیغام ہے ۔

(مضمون نگار کی رائے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے (ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا