English   /   Kannada   /   Nawayathi

کیا فرشتے آئیں گے ہم کو جگانے کے لئے؟؟؟؟؟

share with us

ہندوستانی مسلمان کو ہمیشہ سے بس یہی ایک فکر ستاتی رہی کہ کہیں نام نہادسیکولر جماعتوں کے علاوہ کسی دوسری ایسی فرقہ پرست جماعت کی حکومت نہ بن جائے جس سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے ورنہ ہمارا وجود ہی خطرہ میں پڑ جائے گا۔اور آج تک مسلمان اسی ایک ڈر کے سائے میں زندگی بسر کر رہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت پہلی بار قائم نہیں ہوئی بلکہ اس سے قبل بھی مرکز اور اترپردیش کے علاوہ کئی دوسری ریاستوں میں بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت رہی تو کیا ملک سے مسلمان کا وجود ختم ہوگیا؟مسلمان آج تک اس حقیقت سے نظر چراتا رہا ہے کہ مرکز میں یا ریاست میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت قائم ہوجائے، حکومت سازی کے بعد جماعت کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے اور حکمراں طبقہ ملک کے آئین کا محتاج ہوتا ہے جس کی روشنی میں حکومت چلائی جاتی ہے۔ اور ایسی حکومت جو ملک کے آئین سے الگ ہٹ کر کام کرے یا آئین کو نظر انداز کرکے اپنی سیاسی جماعت کے ایجنڈے پر کام کرے نہ تو آج تک قائم ہوسکی ہے اور نہ مستقبل میں ایسا ہوسکے گا۔ یہ رہی وہ پہلی بات جو مجھے ملک کے مسلمان کو سمجھانا تھی۔اس کی روشنی میں ہمیں نہ تو آر ایس ایس سے ڈرنے کی ضرورت ہے نہ بھارتیہ جنتاپارٹی، وشو ہندو پریشدیا شیو سینا سے۔
موجودہ حکومت جن انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہوئی ان انتخابات کے دوران ان ہی نام نہاد سیکولر جماعتوں نے مسلمان کو بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کا بھوت اس طرح دکھایا کہ عام مسلمان یہ سمجھنے لگا کہ اگر نریندر مودی ملک کے وزیرِ اعظم ہوگئے تو ان کی حکومت کا پہلا فرمان مسلمان کے وجود کو ختم کرنا ہوگا۔ خیر ملک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ا ور نریندر مودی وزیرِ اعظم بھی بن گئے اور ان کی وزارتِ عظمیٰ کو ایک طویل عرصہ بھی گزرگیا کم سے کم اتنا عرصہ کہ اگر بقول ان نام نہاد ہمدرد جماعتوں کے نریندر مودی ہندوستان کو مسلمانوں کے وجود سے پاک کرنا چاہتے تو ملک کے ہر بڑے شہر میں قتل و غارت گری کا سلسلہ تو شروع ہو ہی جاتا مگرآج کی حقیقت اس سب کے برعکس ہے۔ مرکزی میں نریندر مودی کی حکومت نے یہ ثابت کردیا کہ وہ اور ان کی حکومت ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ان نام نہاد ہمدرد جماعتوں سے زیادہ فلاحی پروگرام رکھتی ہے جومسلمانوں کی ہمدرد کہی جاتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کردیا کہ ان کا ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ محض انتخابی نعر ہ نہیں تھا بلکہ وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے حقیقت میں ملک کے ہر طبقہ اور ہر فرقے کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، سب کی برابر سے ترقی چاہتے ہیں کیونکہ ملک کے ہر طبقے کی ترقی میں ہی ہندوستان کی ترقی پوشیدہ ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے لئے جو تعلیمی اور اقتصادی پالیسیاں محض چند ماہ کے دورِ حکومت میں مرتب کی ہیں وہ اس سے قبل آزاد ملک کی کوئی حکمراں جماعت ترتیب نہ دے سکی۔ اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کو آزادی کے بعد سے آج تک ملک میں سوائے فریب اور سنہرے وعدوں کے کچھ نہیں مل سکا ہے۔ نریندر مودی کی موجودہ حکومت نے جس طرح مسلمانوں کے لئے تعلیم، کاروبار، صنعت و حرفت اور ترقی کی راہیں وا کی ہیں ان کو دیکھ کر ملک کی ہر سیکولر جماعت بوکھلاگئی ہے اور اس کواپنے ہاتھ سے مسلم ووٹ کھسکتا نظرآرہا ہے۔ اس لئے ایک بار پھر سے ایسے وقت میں ان جماعتوں نے آر ایس ایس کا بھوت دکھاکر مسلمانوں کو ڈرانا شروع کیا ہے جب کہ ملک کے سامنے دہشت گردی جیسے بڑے چیلنج ابھر کر آرہے ہیں۔
عالمی سطح پر ایک بڑی دہشت گرد تنظیم ’’ مسلم ا سٹیٹ‘‘ نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے واقعات برپا کرنے کی دھمکی دی ہے تو دوسری طرف ملک میں داخلی سطح پراس کی ایجنٹ جماعتیں بد امنی پھیلانے کی بھر پور کوشش کرکے ملک کے اتحاد کو توڑنے میں سرگرم ہیں۔ ان طاقتوں کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ کسی طرح نریندر مودی کے ترقی کے ایجنڈے کو ناکام کیا جائے۔ اس عمل میں صرف حسبِ مخالف ہی نہیں بلکہ حکمراں جماعت کی چند حامی شخصیات اور جماعتیں بھی ان شرپسندوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔یہ جماعتیں اور چند شخصیات اپنے مفادات میں اندھی ہوکر اس بات کو نہیں سمجھ پا رہی ہیں کہ عالمی سطح پر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پاکستان میں باقاعدہ دہشت گردی کی تر بیت دینے کی غرض سے تربیتی کیمپ چلاکر ایسے دہشت گرد پیدا کئے جا رہے ہیں جو ہندوستان کو تباہ و بر باد کرنے کی مذموم کوشش کریں گے۔ ایسے وقت میں ہم سب کو متحدہ طور پر صرف ایک ہندوستانی بن کر اپنی حکومت کے کاندھے سے کاندھا ملاکر دشمن کو یہ باور کرادینا چاہئے کہ ہندوستان میں نہ کوئی ہندو ہے نہ مسلم، نہ سکھ، نہ عیسائی، نہ جین، نہ پارسی بلکہ پہلے سب ایک ہندوستانی ہیں اور جو بھی ہندوستان کی جانب بد نظر سے دیکھا گا وہ ان سب کا دشمن ہے جسے اس کی ہر ناپاک کوشش کا سخت ترین جواب دیا جائے گا۔
مجھے کسی سیاسی یا غیر سیاسی جماعت سے کوئی غرض نہیں نہ میرا کسی جماعت سے کوئی تعلق ہے میں روزِ اول سے مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کے لئے کوشاں رہاہوں اور ملک میں جب بھی مسلم قوم کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو میں قلم اٹھانے کی جسارت کرتا ہوں۔میرا ہر اس جماعت یا تنظیم یا فرد سے براہِ راست تعلق ہے جو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے عملی اقدامات کرے۔ جسے مسلمانوں سے ہمدردی ہے میں اس کے ساتھ ہوں۔جو مسلمانوں کے لئے مثبت پروگرام کا دعویٰ ہی نہیں کرتا بلکہ عملی اقدامات کرتا ہے میری تمام تر حمایت ا س کے ساتھ ہے کیونکہ وہ میری قوم کے لئے فلاح کی راہیں کھول رہا ہے تو میرا فرض ہے کہ میں اس کا ساتھ دوں اور اس کی حمایت میں ہر ممکن اقدام کروں تاکہ میری قوم کے لئے مزید بہتر راستے کھل سکیں۔ آج میں نہایت ایمانداری کے ساتھ یہ حقیقت ملک کے مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ دیگر اقوام پر بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 20فیصد سے زائد ہے اور ملک کی کسی پارٹی، کسی فکر، کسی تنظیم، کسی ایجنڈے میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو مٹاسکے تو پھر مسلمانوں کو آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد یا شیو سینا سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آج مرکز میں جو حکومت قائم ہے وہ ملک کے آئین کی روشنی میں کام کر رہی ہے اور جو بھی شر پسند عناصر ملک کو توڑنے یا کسی ایک فرقے خصوصاً مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں وزیرِ اعظم نریندر مودی ان سے براہِ راست رابطہ قائم کرکے ان کو تنبیہہ کر دیتے ہیں جس کے بعد ان زبانیں خاموش ہوجاتی ہیں۔جب بھی شر پر مبنی کوئی بات سامنے آتی ہے وزیرِ اعظم آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی اور اسی قبیل کی دیگر جماعتوں کے ذمہ داران سے گفت و شنید کرکے ان کی آواز بند کردینے کی طاقت رکھتے ہیں ایسے حالات میں ہندوستانی مسلمان کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ملک کی ترقی اس کے پیشِ نظر ہونی چاہئے کیونکہ ملک کی ترقی میں ہی ملک کے ہر شہری کی ترقی پوشیدہ ہے۔ ہمیں کسی کے ورغلائے میں نہیں آنا چاہئے ۔ سماجوادی پارٹی سمیت ہم اپنی تمام ہی نام نہاد ہمدرد جماعتوں کی ہمدردی کا تجربہ کرچکے ہیں اور موجودہ حکومت کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں دانش مندی سے کام لیتے ہوئے حکومت سے جاری ہونے والی پالیسیوں کا فائدہ اٹھاکر اپنے مستقبل کی تعمیر کرنی چاہئے اور اپنے مسائل کے حل کے لئے بجائے شور شرابے کے سیدھے سیدھے حکومت سے رابطہ قائم کرنا چاہئے۔ ملک میں ہم یتیم نہیں ہیں ۔ملک میں ہمارا سرپرست مسلم پرسنل لاء بورڈہمارا رہنما ہے اس کے ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ ہمارے مسائل براہِ راست وزیرِ اعظم کے سامنے رکھیں۔ ملک کو اگر کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے تو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں اپنی حکومت کے کاندھے سے کاندھا ملاکر اپنے ملک کے تحفظ اور سلامتی کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی گریزنہیں کرنا چاہئے۔یاد رکھیں کہ اگر ہم نے اب بھی عقل و دانش سے کام نہیں لیا تو آسمان سے فرشتے تو ہمیں سمجھانے کے لئے آئیں گے نہیں۔ہمیں اپنا ہر فیصلہ عقل و دانش کی روشنی میں خود کرنا ہوگا کسی مفاد پرست کے مشورے پر نہیں۔(فکروخبرمضمون)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا