English   /   Kannada   /   Nawayathi

ناگپور کی تاریخی الف لدین مسجد کے انہدام والے معاملے کی سماعت 3؍ اپریل تک ٹلی

share with us

جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ میں پیروی کرنے کے لیئے تیار ، گلزار اعظمی

 

ممبئی12؍ مارچ2018(فکروخبر /ذرائع)ناگپور کی تاریخی الف لدین مسجد کے انہدام والے معاملے میں حتمی سماعت آج سے شروع ہونا تھی لیکن اس معاملے کے ایک فریق نے عدالت سے اپنا جواب داخل کرنے کے لیئے وقت طلب کیا، حالانکہ جمعیۃ علماء کی جانب سے مقرر کیئے گئے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیو ماتھور نے بحث شروع کرنے کی عدالتے سے اجازت طلب کی تھی اور وہ اس کے لیئے تیار بھی تھے لیکن عدالت نے معاملے کی سماعت ۳؍ اپریل تک ملتوی کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے اخبار نویسوں کو دی ۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ آج معاملے کی سماعت سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس آدرش کمار گوئیل اور جسٹس روہنٹن نریمن کے سامنے ہونا تھی لیکن روڈ کی توسیع میں آنے والی دکانوں کے مالکان کے وکلاء نے عدالت سے ان کا جواب داخل کرنے لیئے مزید وقت طلب کیا جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے معاملے کی سماعت ملتوی کردی۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ ناگپور شہر کے تلسی باغ نامی علاقے میں واقع مسجد الف الدیدین جس کی تعمیر 1796 میں ہوئی تھی جو تاریخی اہمیت کی حامل ہے لیکن روڈ کی توسیع کے نام پر اسے منہدم کرنے کے انتظامیہ نے احکامات جاری کیئے تھے جس کے بعد مقامی مسلمانوں نے نچلی عدالت اور ممبئی ہائی کورٹ کی ناگپور بینچ میں پٹیشن داخل کی تھی لیکن عدالت نے انتظامیہ کے حق میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے مسجد کو منہدم کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے تھے ، ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا جہاں عدالت نے مسجد کے انہدام پر فوری طورپر روک لگا تے ہوئے جمعیۃ علماء کی عرضداشت کو سماعت کے لیئے منظور کرلیا تھا ۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ ہا ئی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مقامی مسلمانوں خصوصاً بابو حفظ الرحمن، انعام انجینئر ،علمگیر ، مجیب انجینئر ،مظہر الحق، حاجی ایوب، حاجی زاہد انصاری و دیگر نے جمعیۃ علماء سے رجوع کیا تھا جس کے بعد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو عدالت عظمی یعنی کے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس پر آج سماعت عمل میںآئی ۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ اس سے قبل کی سماعت پر سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ جس میں چیف جسٹس دیپک مشراء، جسٹس اے ایم کھانولکر اور ڈی وائی چندرچوڑ شامل ہیں کے روبرو معاملے کی سماعت عمل میں آئی تھی جس کے دوران جمعیۃ علماء کی جانب سے ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی اور ایڈوکیٹ ستیہ جیت دسائی نے پیروی کی اور مسجد کے متعلق تاریخی حقائق سے عدالت کو آگاہ کیا تھا اور عدالت کو بتایا تھا کہ روڈ توسیع کے نام پر مسجد کو منہدم کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے جبکہ اس علاقے میں روڈ توسیع کی ضرورت ہی نہیں ہے اور اگرہے بھی تو مسجد منہدم کرکے روڈ توسیع نہیں کی جاسکتی بلکہ روڈ توسیع کے لیئے کسی دوسرے منصوبہ بنایا جانا چاہئے ۔
حذیفہ احمدی نے عدالت کو متعدد نقشوں کی مدد سے بتایا تھا کہ روڈ کی توسیع کے دوران کئی ایک جگہوں پر روڈ کو تنگ کیا گیا کیونکہ ان جگہوں پر مندر یا اور کسی تاریخی عمارت قائم ہے لہذا اسی طرز پر مسجد کے مقام پر بھی روڈ کو تنگ کیا جاسکتا ہے نیز اگر روڈ کو تنگ نہیں کیا گیا تو مسجد کی صرف ایک صف ہی بچے گی اور باقی سب منہدم ہوجائے گی جو کہ اقلیتی فرقہ کے ساتھ زیادتی ہوگی لہذا عدالت کو اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
واضح رہے کہ مسجد الف الدین ایک تاریخی مسجد ہے جس کی تعمیر آج سے دو سو سال قبل عمل میں آئی تھی لیکن ناگپور کارپوریشن نے روڈ کی توسیع کے نام پور اسے مہندم کرنے کے احکامات جاری کیئے تھے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا