English   /   Kannada   /   Nawayathi

2019۔ عظیم مقاصد ۔ اور ’’انا‘‘ کی قربانی

share with us

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

مودی حکومت پر ایوان لوک سبھا میں وائی ایس آر کانگریس اور تلگو دیشم کی تحریک عدم اعتماد کو یقینی طور پر شکست ہوگی تاہم یہ مودی حکومت کے لئے پہلا تلخ تجربہ ہوگا، کیونکہ انہیں پہلی بار یہ اندازہ ہوگا کہ کتنے ’’دوست‘‘ موقع کے منتظر تھے اپنی اہمیت جتانے کے لئے۔ تلگو دیشم اور وائی ایس آر کانگریس دونوں ہی کے لئے تقسیم شدہ آندھراپردیش کو خصوصی درجہ کا مسئلہ 2019کے انتخابات کے لئے اہمیت کا حامل ہے، اسی کی اساس پر دونوں جماعتیں اقتدار کی دعویدار رہیں گی، آندھراپردیش کی تقسیم، تلنگانہ کی تشکیل میں کانگریس کا اہم رول رہا ، یہ اور بات ہے کہ کامیاب تحریک کے سی آر نے چلائی، چندرابابو نائیڈو جن کے سیاسی کیریر کا آغاز کانگریس سے ہی ہوا تھا ، تلگو دیشم کی تشکیل سے لے کر آج تک کانگریس کے مخالف رہے، ان کے برخلاف کے سی آر کانگریس کے حلیف رہے، بلکہ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد انہوں نے اپنے ارکان خاندان کے ساتھ، مسز سونیا گاندھی سے ملاقات کرکے ان سے اظہار تشکر بھی کیا تھا، تاہم 2014کے الیکشن میں انہوں نے کانگریس سے ناطہ توڑ لیا اور اپنی حکومت تشکیل دی۔ کانگریس کی اس حد تک مخالفت کی کہ وہ بی جے پی کے ساتھ ساتھ کانگریس سے پاک ہندوستان کا نعرہ تک لگا چکے ہیں اور تیسرے محاذ کی تشکیل اسی کی ایک کڑی ہے۔تلگو دیشم پہلے ہی سے کانگریس کی مخالف رہی، ریاست آندھراپردیش کی تقسیم نے اس مخالفت میں شدت پیدا کی چنانچہ چندرابابو نائیڈو نے کم از کم دو وجوہات کی بنا پر بی جے پی سے رشتہ جوڑا۔ ایک تو نئی ریاست کی تعمیر نو کے لئے مرکزسے زیادہ سے زیادہ مدد حاصل کی جائے، دوسرے تلنگانہ میں اپنے ہم منصب کے مقابلہ میں خود کو زیادہ مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے، مرکزی حکومت میں ساجھے داری اور ریاستی حکومت میں بی جے پی کی شراکت داری کے ذریعہ انہیں اسبات کا یقین تھا کہ وہ مودی یا مرکز سے اپنا ہر ایک مطالبہ منوالیں گے۔ یہ غلط فہمی یا خوش فہمی ہی رہی ہوگی جو آخر کار ختم ہوگئی۔ آندھراپردیش کو خصوصی درجہ نہ ملنے پر ان کا غصہ اور مخالفت واجبی ہے، کیونکہ اس مسئلہ کو لے کر وائی ایس آر کانگریس اپنی طاقت میں اضافہ کرسکتے ہیں اور انہوں نے ایسا کیا بھی ہے۔ جگن موہن ریڈی اگرچہ اقتدار حاصل نہ کرسکے مگر ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ چونکہ آندھراپردیش کو خصوصی درجہ دینے کا وعدہ آندھراپردیش تنظیم نو ایکٹ 2014کی منظوری کے وقت اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کیا تھا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ نئی ریاست کو خصوصی درجہ دینے کیلئے علٰحدہ علٰحدہ کسوٹیاں ہیں ، پہاڑی علاقے، کم آبادی، ملک کی سرحدات کی قریبی ریاستیں، معاشی اور انفراسٹرکچر کے لحاظ سے پسماندہ علاقے ، مالی وسائل کی کمی وغیرہ۔
چونکہ متحدہ ریاست کو حیدرآباد سے زیادہ سے زیادہ ریونیو حاصل ہوتا ہے، اور متحدہ آندھراپردیش کا دارالحکومت حیدرآباد ، محدود مدت کے لئے ہے اور تقسیم کے بعد ریونیو کا زیادہ حصہ تلنگانہ کے حصے میں آچکا اس لئے آندھراپردیش کو خصوصی درجہ کا مطالبہ کیا گیا۔
آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر کسی ریاست کو خصوصی درجہ دیا جاتا ہے تو اسے دیگر ریاستوں کے مقابلہ میں زیادہ گرانٹس اور لون ملتے ہیں۔ عام ریاستوں کو 70%گرانٹس اور 30%لون ملتے ہیں ، جبکہ خصوصی درجہ کے حامل ریاستوں کو 90%گرانٹس اور 10%لون ملتے ہیں۔ صنعتی سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے ایکسائز ڈیوٹی میں رعایت دی جاتی ہے، مرکز سے مالی امداد کی اسکیمات میں ترجیح دی جاتی ہے۔ فی الحال ہندوستان میں گیارہ ریاستوں کو خصوصی موقف اور خصوصی زمرہ کا موقف حاصل ہے، یہ ریاستیں ہیں اروناچل پردیش، ہماچل پردیش، جموں و کشمیر، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، سکم، تریپورہ اور اترکھنڈ۔
2014میں یو پی اے کا اقتدار ختم ہوا، این ڈی اے کو آندھراپردیش نے گلے لگایا ۔ ٹی ڈی پی تو حلیف بنی مگر وائی ایس آر کانگریس نے بھی ہر معاملہ میں مودی حکومت کی تائید کی، چونکہ مودی حکومت نے خصوصی درجہ دینے سے انکار کردیا، چنانچہ اب دو سیاسی حریف جماعتیں مل کر مودی حکومت سے لڑرہی ہیں، ٹی ڈی پی نے تو این ڈی اے سے ناطہ بھی توڑ لیا ۔ اقتدار کی ساجھے داری ختم کردی۔ اور اب وہ مودی حکومت کے خلاف محاذ آراء ہے۔ دوسری طرف تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر جو کبھی چندربابو نائیڈو کی حکومت میں وزیر بھی تھے اور ڈپٹی اسپیکر بھی، اور سب سے بڑے سیاسی حریف بھی وہ بھی مودی حکومت کے خلاف لڑرہے ہیں، آندھراپردیش اور تلنگانہ دونوں ہی تلگو ریاستیں ہیں، یہ لڑائی تلگو ریاستوں کے وقار کی لڑائی ہے، اگر دونوں ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے مشترکہ جدوجہد کرتے ہیں تو 2019کے الیکشن میں انہیں تلنگانہ اور آندھرا میں کم از کم 30پارلیمانی نشستیں حاصل ہوسکتی ہیں۔ دونوں ریاستوں میں کل پارلیمانی نشستیں 42ہیں۔اس لڑائی میں سیاسی نظریاتی اختلافات کے باوجود کانگریس اور دوسری جماعتوں کو ساتھ دینا ہوگا۔ ویسے مختلف ریاستیں اس تحریک عدم اعتماد کے حق میں ہیں۔ اے آئی اے ڈی ایم کے پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے کہ وہ بھی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرے تاکہ کاویری آبی تنازعہ میں اس کا موقف مضبوط ہوسکے۔ ڈی ایم کے تو پہلے ہی ساتھ ہے۔ کانگریس این سی پی، سماج وادی پارٹی، مجلس اتحاد المسلمین ، آرجے ڈی، ٹرنمول کانگریس نے تو مودی حکومت کے خلاف عدم اعتماد تحریک کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ 
اپوزیشن کے لئے یہ تحریک عدم اعتماد آپسی اتحاد اور اعتماد کو بحال کرنے کا بہترین موقع ہے۔
یوپی ضمنی انتخابات میں سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی نے متحدہ طور پر بی جے پی کا مقابلہ کیا تو گھورکھپور کی زمین، یوگی آدتیہ ناتھ کے قدموں تلے نکل گئی۔ یہی اتحاد اگر تمام جماعتوں میں ہوجائے تو 2019 میں بی جے پی سے پاک ہندوستان کا خواب ممکن ہے۔ کانگریس کا مظاہرہ اگرچہ کمزور ہے اگریہ دودھ سے دھلی نہیں ہے تب بھی یہ اتنی بری نہیں ہے، بلکہ بد اور بدتر کے درمیان فرق کیاجاسکتا ہے۔ تیسرا محاذ کانگریس ۔ بی جے پی دونوں کے خلاف مقابلہ کرنے کی بجائے کانگریس کو اپنے دھارے میں شامل کرلے تو اس کی طاقت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس وقت بی جے پی کی کئی حلیف جماعتیں ، مخالفت پر اتر آئی ہیں۔ فاروق عبداللہ ، رام ولاس پاسوان، ٹھاکرے برادران موقع کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کانگریس کی مخالفت بائیں بازو کی یعنی کمیونسٹ جماعتیں ہی کررہی ہیں۔ کل کی دوست آج کی حریف ہیں، امریکہ کے ساتھ نیو کلےئر معاہدہ پر ہندوستان کے دستخط پر آمادگی نے بائیں بازو کی جماعتوں اور کانگریس کے درمیان خلیج پیدا کردی۔ تاہم کمیونسٹ جماعتوں ، کانگریس اور غیر بی جے پی جماعتوں کے درمیان اختلافات کا فائدہ بی جے پی کو ہوا، اسے زبردست اقتدار حاصل ہوا۔ ملک کا سیکولر کردار بدل گیا، ہر شعبہ حیات پر زعفرانی رنگ چڑھ گیا۔ ملک میں مہنگائی اور مختلف بہانوں سے اس قدر محاصل Taxesعائد کردےئے گئے کہ عام آدمی کا جینا حرام ہوگیا۔ غریب عوام ، کسان پریشان اور کروڑپتی ، ارب پتی ملک کی لاکھوں کروڑکی دولت لے کر فرار ہوگئے۔ عوام اس سے واقف ہیں تاہم چونکہ ہندوستانی عوام کو متحد کرنے کے لئے سیاسی جماعتیں متحد نہیں ہیں اس لئے بی جے پی کو فی الحال کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔ اگر تیسرا محاذ اور اس کے قائدین ایک بڑے عظیم مقصد کے لئے اپنی انا کی قربانی دیں تو 2019کے انتخابات میں ملک کے سیکولر کردار کی بحالی ناممکن نہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ۔ 
21؍ مارچ 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا