English   /   Kannada   /   Nawayathi

ضمنی انتخابات کے نتائج اور سیکولر پارٹیوں کی ذمہ داریاں

share with us

معاذ مدثر قاسمی 

چودہ مارچ کو یوپی ،بہار میں ضمنی الیکشن کے نتائج نے جہاں بی جے پی کے گھمنڈ اور غرور کو توڑا ہے ، اور اسے کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے ، تو وہیں پیدرپے شکست کھانے والی مایوس سیکولر پارٹیوں میں ایک نئی توانا ئی پھونک دی ہے اور بلند جذبے کے ساتھ بی جے پی کے خلاف لڑنے کا حوصلہ دیا ہے۔ گیارہ مارچ کو تین لوک سبھا سیٹوں پر ضمنی انتخاب ہوئے ، جسمیں ایک سیٹ پر بھی بی جے پی کامیاب نہ ہو سکی۔ 
اور چونکانے والی بات یہ رہی کہ بی جے پی کا گڑھ سمجھا جانے والا گورکھپور جہاں سے آٹھ مرتبہ سے بی جے پی کا ہی کا نما ئندہ لوک سبھا میں نمائندگی کرتا آرہا تھااور یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے پانچ مرتبہ سلسلہ وار منتخب ہو کر نما ئندگی کر تے آرہے تھے، وہاں بھی بی جے پی تمام تر کوششوں کے باجود اپنی یہ سیٹ بچانے میں کامیاب نہ ہوسکی، اور سماجوادی اتحاد نے بی جے پی کو اکیس ہزار ووٹوں سے ذلت آمیز شکست دی۔ جبکہ پھول پور سے نائب وزیر اعلی یوپی کی سیٹ پر سماجوادی نے بی جے پی کو۲۵ہزار چار سو ساٹھ کے بھاری فرق سے ہرایا، اسی طرح بہار میں آر جے ڈی نے بی جے پی کے اتحادی جے ڈی یو کو ہزاروں ووٹوں سے شکست دی۔
یقیناًیہ شکست بی جے پی کیلیے انتہائی مایوس کن ہے، گورکھپور کی سیٹ جو بی جے پی اور یوگی کاقلعہ سمجھا جا رہا تھا، وہاں پر شکست کھا جاناکو ئی معمولی بات نہیں ہے، بی جے پی نے اسکا اپنے خواب و خیال میں بھی گمان نہیں کیا ہوگا ، ایک طرح کا بھرم تھا کہ دہائیوں سے چلے آرہے اس مضبوط قلعہ پر کون سیندھ لگا سکتا ہے ؟ مگر اس بھرم کو ایس پی اور بی اس پی کے اتحاد نے پاش پاش کردیا۔
دوسری طرف ایس پی اور بی ایس پی کے ساتھ دیگر اپوزیشن پارٹیاں جو مسلسل بی جے پی کے بڑھتے قدم سے مایوس نظر آرہی تھیں ،ان میں ایک طرح کی توانائی آگئی ہے ،اور امید کی کرن جاگ اٹھی ہے، یہی وجہ ہیکہ اب ہر جگہ سے نئی تیاریوں کے ساتھ بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی کی جانے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ 
گورکھپور اور پھولپور میں بی جے پی کی شکست دلانے میں جو بڑی وجہ سامنے آئی ہے وہ دو سیکولرپارٹیوں کا بر وقت اتحاد تھا، جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہیکہ آج بھی عوام کی بڑی تعداد فرقہ پرستی کے بجائے سکولزم پر یقین رکھتی ہے، مگر پھر بھی ہر جگہ فرقہ پرستی ہی کا بول بالا ہے، آج حال یہ ہیکہ فرقہ پرست لوگ اپنے پیر پسارتے ہوے تقریبا بیس صوبوں کو اپنے دست گرفت میں لے چکے ہیں۔ اسکی سب سے بڑی وجہ سیکور ووٹوں کا انتشار ہے، سیکولزم کے دعوی کرنے والی پارٹیوں کو عوام نے یہ کھلا پیغام دیا ہے ،کہ اپنا الو سیدھا کرنے کے بجائے عوام کے مفاد کی خاطر اگر آج بھی بی جے پی کے خلاف سیکولر اتحاد قائم کرلیا گیا تو اس کے بڑھتے قدم کو بآسانی روکا جاسکتا ہے۔
ضمنی الیکشن کے تناظر میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کا مقام یہ ہیکہ دو ہزار چودہ کے بعد سے تقریبا چودہ ضمنی الیکشن بی جے پی ہار چکی ہے ، مگر جب صوبائی الیکشن کی باری آتی ہے تو بی جے پی ہی بازی مارتی ہو ئی دکھا ئی دیتی ہے۔ دو ہزار چودہ کے وقت جہاں معدودے چند صوبے بی جے پی کے زیر اقتدار تھے ؛ مگر وہ اس کے بعد پے در پے جیت تی چلی گئی اور آج حال یہ ہے کہ ملک کے اکثر صوبوں میں بی جے پی ہی کی حکومت ہے۔ کچھ لوگ اسکو مودی لہر کا نام دیتے ہیں ، تو کچھ لو گوں کا ماننا ہے کہ یہ ساری فتو حات ای وی ایم کے رحم و کرم کا نتیجہ ہے اور یہ حقیقت بھی ہے ؛ اسی وجہ سے جب بھی بی جے پی اکثریت کے ساتھ جیتی ہے، لوگوں نے ای وی ایم کے خلاف آوازیں بلند کی ہیں اور بی جے پی پر اسکے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا گیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق صرف ضمنی الیکشن ہار کر بی جے پی ایک شطرنجی چال چل رہی ہے ، عوام کو یہ باور کرانے کیلیے کہ بی جے پی کی فتح محض اسکی مقبولیت کی بناء پر ہے ، نہ کہ ای وی ایم کی بنا پر ، اس طرح بی جے پی عوام کی زبان کو خاموش کردیتی ہے ؛ جیساکہ راجستھان اور مدھیہ پردیش کیضمنی الیکشن میں ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد بھی تری پورا اورناگالینڈ میں حکومت بنالیتی ہے۔ 
اپوزیشن کا ایک کمزور پہلو یہ رہا ہے کہ جب بھی بی جے پی جیت تی ہے تو وقتی طور پر ای وی ایم کے خلاف آواز بلند کر تی ہے ،مگر جب سیکولر پارٹی جیت تی ہے ؛ چاہے ضمنی الیکشن ہی کیوں نہ ہو ،تو پھر ای وی ایم کے مدعے کو پردہ خموش میں ڈال دیاجاتا ہے، اس سلسلے میں عام آدمی پارٹی کا نظریہ بالکل صاف ہیکہ ،جیتنے کے بعد بھی وہ ای وی ایم کے متبادل پر زور دیتی آرہی ہے۔ 
یو پی بہار کے ضمنی الیکشن کے نتائج سے سیکو لر پارٹیوں کو سبق لیتے ہو ے دو کام کرنے ہیں۔ ایک ذاتی مفاد سے اٹھ کر علاقائی ہر چھوٹی بڑی سیکولر پارٹیوں کا اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی جائے ؛تاکہ سیکولر ووٹ کسی طرح بکھرنے نہ پائے۔ دوسرا یہ کہ جس طرح عام آدمی پارٹی ای وی ایم کے خلاف آواز اٹھاتی آرہی ہے ، اسی طرح دیگر سیکولر پارٹیاں یک جٹ ہو کر ای وی ایم کے تئیں سنجیدگی کے ساتھ سونچے اور اس کے متبادل پر زور دے ،تاکہ بی جے پی کسی طرح اپنی چال میں کامیاب نہ ہو سکے اور اس طرح دو ہزار انیس کے عام انتخابات میں بی جے پی کو بآسانی شکست دی جاسکتی ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ۔
؂20؍مارچ 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا