English   /   Kannada   /   Nawayathi

کانگریس اور مسلمان

share with us

ایم کے احسانی

 

ملک کی سب سے بڑی پارٹی(؟) کانگریس کی رہنما اس بات سے خائف ہیں کہ بھاجپا انکی پارٹی کو مسلم نواز پارٹی ثابت کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے جسکے نتیجے کے طور ہندو ووٹر کانگریس سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔محترمہ سونیا گاندھی ملک کی پروقار رہنما ہیں،لیکن انکے خیالات سے ہم اتفاق نہیں رکھتے۔انکا کہنا ہے کہ انکی پارٹی میں ہمیشہ ہندوؤں کی اکثریت رہی ہے اور وہ سبھی دھرموں کا احترام کرتی ہیں۔سونیا گاندھی کا یہ خیال درست ہے کہ بھاجپا انکی پارٹی پر مسلم نوازی کا لیبل لگاتی ہے لیکن مشرق کی ریاستوں میں تو عیسائیوں کی اکثریت ہے ،ان ریاستوں میں انکی پارٹی کی شکست کے کی کیا وجہہ ہے؟ ہماری سمجھ ہے کہ مسلمانوں کو جتنا نقصان کانگریس نے کیا ہے اتنا تو آر ایس ایس اور بھاجپا نے بھی نہیں کیا ہے۔آزادی کے بعد مسلمان کانگریس کے ساتھ رہے کیوں کہ عام طور پر مسلم رہنما کانگریس کے ساتھ تھے۔بہار کے سابق وزیراعلیٰ عبدلغفور مرحوم کہا کرتے تھے کہ کانگریسی حکومتیں ۴ برسوں تک مسلمانو ں کو جوتے لگاتی ہیں اور انتخاب جب قریب آتا ہے تو اردو زبان کی شیرنی اور فرقہ وارانہ فسادات سے مسلمانوں کے تحفظ کی دہائی دینے لگتی ہے اور ووٹ لیکر سرکار بناتی ہے اور مسلمانوں کی حمایت کو فراموش کردیتی ہے۔ہندوتو کیلیے راجیو گاندھی اور نرسمہا راؤ کی خدمات کو مسلمان کیسے فراموش کر سکتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ کانگریس کی ایک ہی پالیسی رہی ہے ’مسلمانوں کو بے قوف بناؤ،ووٹ لو اور اگلے انتخاب تک بھول جاؤ‘۔آج بھی وہی صورتحال ہے۔من موہن سنگھ نے سچر کمیٹی کی تشکیل دے کر ایک رپورٹ تو بنوالی مگر اسکی سفارشات پر عمل کہاں ہوا؟ جسٹس رنگناتھ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ملک کی اقلییت کے لیے اہم سفارشات کی ہیں تو اسے ایوان کے ٹیبل پر بغیر اے ٹی آر کے رکھ دیا اور سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔فساد روکنے کیلیے ایک قانون بنانے کے لیے ایک بل لایا گیا مگر اسے بھی سرد خانے کی ذینت بنا دیا۔ہمیں ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا کا حشر یاد ہے۔اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے اور مدارس کو سرکاری اسکولولوں کے مساوی بنانے کی پاداش میں انہیں کانگریس چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔مہاراسٹر کے رہنما انتولے کا کیا حشر ہوا اور طارق انور نے کانگریس کیوں چھوڑی۔سچ تو یہ ہے کہ کانگریس میں بھاجپائی نظریات والے حاوی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ آر ایس ایس اور بھاجپا کا خوف دکھا کر ووٹ لینے کے بعد مسلمانوں کو فراموش کر دینے کی روایت آج بھی قائم ہے۔
مودی حکومت کے بعد تو ایسا لگا کہ کانگریس یہ بھول گئی کہ وہ اپوزیشن میں ہے اور اسے حزب مخالف کا رول ادا کرنا ہے۔ اڈوانی کی رتھ یاترا کے بعد تو ملک میں جارحانہ ہندو فرقہ پرستی کا ابھار آیا جسکا مقابلہ کرنے میں بشمول کانگریس سبھی سیکولر پارٹیاں ناکام رہی ہیں۔۱۹۶۷ میں کانگریس کے خلاف جو ہوا چلی تو کانگریس کا صفایا ہو گیا۔ان حالات میں بھی مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ دیا تھا۔بہار کے مسلمانوں نے کانگریس کو سبق سکھایا اور غیر کانگریسی سرکار بنانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔لیکن اردو کے نام پر رانچی میں ایک کانگریسی لیڈر کی حرکت سے فرقہ فساد برپا ہو گیا۔
ہم سونیا گاندھی کا احترام کرتے اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ رانچی، جمشیدپور،بھونڈی اور ملک کے کئی شہروں میں فرقہ وارانہ فسادات کی جانچ کے لیے تحقیقاتی کمیشن بنائے گئے،لاکھوں خرچ کے بعد کمیشنوں نے اپنی رپورٹ بھی دی مگر ان رپوررٹوں کی سفارشات کو کبھی دیکھنے کی بھی سعی نہیں کی گئی اور وہ سبھی رپورٹیں سرد خانے میں پڑی ہیں۔مسلمانوں کی منھ بھرائی کے نام پر سیاست ہوتی رہی اور بے چارا مسلمان حاشیے پر کھڑا فرقہ وارانہ سیاست کا شکار بنا رہا۔
انگریزوں نے ایک مضبوط ملک کو اپنی سیاست کے لیے تقسیم کر دیا تاکہ ایک حصے پر اسکی پکڑ مضبوط رہے۔آج بھی پاکستان میں جمہوریت کو کبھی پنپنے نہیں دیا جا رہا ہے اور امریکی سیاست کا ہتھکنڈہ بنا ہوا ہے۔آر ایس ایس کا ہدف صرف اور صرف مسلمان رہے ہیں۔انگریزوں نے ہندستاں کو تقسیم کر دیا تو آر ایس ایس اس ملک کو ہندو اور مسلمان کے درمیان مذہب کے نام دیوار کھڑی کر رہی ہے تاکہ ہندو ووٹروں پر انکا قبضہ برقرار رہ سکے۔ملک میں آج دانستہ طور پر Communal polrisationکی سیاست کی جا رہی ہے جسکا فائدہ انہیں اتر پردیش کے انتخاب میں ملا اور اقلیتوں کے ووٹ کو بے اثر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مسلمانوں کو مودی کا متبادل چاہیے۔اگر کانگریسی نیک نیتی سے کام کریں تو مسلمان ضرور فیصلہ کر سکتے ہیں۔

 

 

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
18؍مارچ2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا