English   /   Kannada   /   Nawayathi

جوڑی جم گئی، لہر تھم گئی شروع ہوگئی 2019میں بڑے الٹ پھیر کی تیاری؟

share with us

غوث سیوانی

 

ہواکا رخ بدلنے لگا ہے۔ ’’ہر ہر مودی‘‘ کی صدائیں دھیمی ہونے لگی ہیں۔ ’بھکتوں‘کے جوش وجذبے سرد پڑنے لگے ہیں اور عام لوگوں کو آس بندھ چلی ہے کہ ’’اچھے دنوں‘‘ کے سراب سے نجات ملنے والی ہے۔ گورکھپور اور پھول پور میں بی جے پی کیا ہاری، سیاسی حالات ہی بدلنے لگے۔جویوگی، بی جے پی کو کرناٹک اور کیرل جتانے چلے تھے، وہ اپنا بھگوا قلعہ ہی گنوا بیٹھے۔ ساری عمر اقتدار کے مزے لینے کا خواب دیکھنے والے نریندر مودی اور ان کے حکمت عملی ساز امت شاہ کو اپنے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی دکھ رہی ہے۔ہندوستان کو ’’ہندوراشٹر‘‘ بنانے کا خواب دیکھنے والے آرایس ایس کو اب اپنا سپنا چکناچور ہوتا نظر آرہا ہے۔حالانکہ بی جے پی کی ہار بہار کی ارریہ سیٹ پر بھی ہوئی ہے۔ جہان آباد کی اسمبلی سیٹ پر بھی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے وہ راجستھان کی اجمیر اور الور لوک سبھا سیٹوں کے علاوہ مدھیہ پردیش کی اسمبلی سیٹیں بھی ہار چکی ہے مگر گورکھ پور تو بھگوا قلعہ تھا، یہ بنارس سے زیادہ پکی سیٹ تھی،اس لئے پیغام گیا کہ جب قلعہ ہی منہدم ہوگیا تو باقی کا کیا؟ا دھر اب ایک طرف کانگریس ،مناسب موقع دیکھ کر مودی سرکار کے خلاف پر تولنے لگی ہے تو دوسری طرف اترپردیش میں دوکٹرحریف پارٹیاں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی اتحاد کے لئے کوشاں ہیں۔بی جے پی کی اتحادی پارٹیاں بھی اسے ڈوبتا جہاز سمجھ کر اب اپنی جان بچانے کی کوشش میں ہیں۔ شیوسینا پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ آئندہ عام انتخابات وہ بی جے پی کے ساتھ مل کر نہیں لڑے گی تو چندرابابو نائیڈو کی تیلگو دیشم این ڈی اے چھوڑمختلف راستے پر چل پڑی ہے۔ ادھر خبر ہے کہ مرکزمیں اقتدار کے مزے لے رہے موقع پرست نیتا رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی اور رام داس اٹھاولے کی ریپبلکن پارٹی آف انڈیا بھی این ڈی اے چھوڑنے کے لئے بہانے کی تلاش میں ہیں۔ظاہر ہے کہ موجودہ وقت بی جے پی کے لئے کوئی ’’اچھے دن‘‘کا اشارہ نہیں ہے۔
’’بوا ‘‘اور ’’ببوا ‘‘کی مجبوری کا نام اتحاد
اترپردیش میں سب سے زیادہ لوک سبھا سیٹیں ہیں اور دلی کا راستہ ادھر ہی سے ہوکر گزرتا ہے۔ دلی میں اقتدار دلانے میں یوپی کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ نریندر مودی بھی اسی راستے سے دلی پہنچے ہیں مگر اب ان کے لئے یوپی کا راستہ دشوار گزار ہونے والا ہے۔ اس کا اشارہ گورکھ پور اور پھول پورنے دے دیا ہے جہاں مایااور اکھلیش کی جوڑی جم گئی ہے اور پہلا ٹسٹ پاس کرلیا ہے ۔اب مودی کے راستے میں کسی سنگی چٹان کی طرح ایک نیا اتحاد آنے والا ہے اور وہ ہے ایس پی اور بی ایس پی کا اتحاد۔ دو حریف لیڈران اکھلیش اور مایاوتی کے سامنے اس وقت بڑا چیلنج اپنے وجود کو بچانے کادرپیش ہے۔ اتحاد، ان کے لئے کسی کڑوے گھونٹ کی طرح ہے مگر اسے پینا ان کی مجبوری ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ اگر وہ متحد نہیں ہوئے تو ان کا وجود ختم ہوجائے گا، اس لئے اب دونوں کو ساتھ آنا پڑ رہا ہے اور اس اتحاد سے اگر کسی کو خطرہ ہے تو وہ ہے بی جے پی۔ اکھلیش چند دن قبل تک مایاوتی کو’’ بوا‘‘ کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے تھے اور مایاوتی انھیں ’’ببوا‘‘ کہہ کر خطاب کرتی تھیں مگر اب انھیں سنجیدہ ہونا پڑ رہا ہے۔ایس پی اور بی ایس پی نے 2019 لوک سبھا انتخابات کے علاوہ 2022 کے اسمبلی انتخابات کو سامنے رکھ کر تیاری شروع کردی ہے۔ ان پارٹیوں نے ابھی سے سیٹوں کے تال میل اور امیدواروں کے ناموں پر غور وفکر شروع کردیا ہے۔اکھلیش اور مایاوتی کا خیال ہے کہ ابھی سے امیدواروں کو ان کے علاقے بتادئیے جاتے ہیں تو انھیں تیاری کے لئے زیادہ وقت مل جائے گا۔ان کی پوری توجہ فی الحال لوک سبھا انتخابات پر ہے جو سال بھر کے اندر ہونے ہیں، مگر اسی کے ساتھ اسمبلی الیکشن کے تعلق سے بھی ابھی سے حکمت عملی تیار کی جارہی ہے۔ یہ فیصلہ سینئر رہنماؤں کی حالیہ ملاقات میں کیا گیا۔ ان پارٹیوں نے اپنے لوگوں سے ابھی سے کہہ دیا ہے کہ 2022 کی تیاری سنجیدگی کے ساتھ شروع کردیں۔ ان کا خیال ہے کہ چونکہ ابھی 2022 میں بہت وقت ہے، اس لئے امیدواروں کے انتخاب پر غور کا زیادہ وقت ملے گا۔ بہرحال اگر ایس پی اور بی ایس پی کا اتحاد قائم ہوگیا تو یقینی طور پر جس یوپی سے بی جے پی کو جھولی بھر کر سیٹیں ملی تھیں، وہیں سے اسے خالی ہاتھ لوٹنا پڑ سکتا ہے۔ اگر وہ بنارس کی سیٹ بھی ہار جائے تو کسی کو حیرت نہیں ہونا چاہئے۔واضح ہوکہ2014 کے لوک سبھا انتخابات میں، بہوجن سماج پارٹی نے خراب نتائج کا سامنا کیا تھا اور 2017 کے اسمبلی الیکشن میں اسے مزید بدترین شکست ہوئی۔اسی طرح سماج وادی پارٹی بھی کچھ خاص رزلٹ نہیں کرپائی اور عام انتخابات میں اپنی بیشتر سیٹیں گنوانے کے بعد، اسمبلی الیکشن میں اسے یوپی کے اقتدار سے باہر ہونا پڑا۔
2019میں کیا ہوگا؟
گورکھ پور اور پھول پور لوک سبھا سیٹوں کا ضمنی الیکشن، مستقبل کی سیاست کا راستہ طے کرچکاہے گا اور اس کے اثرات دور تک مرتب ہونگے۔ 2019 میں کون اقتدار میں آئے گا اور کس کا بوریہ بستر بندھ جائے گا؟ اس سوال کا جواب اترپردیش کی دو سیٹوں نے دے دیا ہے۔ اس ریاست میں لوک سبھا کی سب سے زیادہ 80سیٹیں ہیں جن میں سے 2014 کے عام انتخابات میں71 بی جے پی کو ملی تھیں جب کہ اس کی حلیف اپنا دل کو بھی دوسیٹیں مل گئی تھیں، گویا این ڈی اے کے پاس یہاں سے کل 73 سیٹیں آئیں۔ آنے والے وقت میں ان سیٹوں کی خاص اہمیت ہے کیونکہ اب مودی لہر دوبارہ نہیں چلنے والی اور ملک بھر کی وہ بہت سی سیٹیں جو2014 کی مودی لہر میں بی جے پی نے جیت لیا تھا ،اس بار ہار جائے گی۔ ایسے میں 2019 میں کس کی سرکار بنے گی، یہ فیصلہ اترپردیش کو کرنا ہے۔اگر یوپی کی بیشتر سیٹیں ایس پی اور بی ایس پی جیت لیتی ہیں تو مرکز میں جو بھی سرکار بنے گی، اس میں ان کا اہم رول ہوگا۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کے سامنے ترنمول کانگریس ہے، جو تنہااس کا راستہ روکنے کی اہل ہے،کرناٹک، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ میں ، بی جے پی کے مد مقابل کانگریس ہے، جب کہ بہار میں راشٹریہ جنتادل ہے اور مہاراشٹر میں کانگریس و این سی پی کا اتحاد ہے۔ اترپردیش میں کانگریس کے بس کی بات نہیں کہ بی جے پی کا راستہ روکے ۔ یہ کام صرف اکھلیش اور مایاوتی کا اتحاد کرسکتا ہے جس کی ابتدا حالیہ ضمنی انتخابات سے ہوچکی ہے، مگر یہ کتنی دور جائے گا؟ یہ سوال اب بھی قائم ہے کیونکہ مایاوتی کا مزاج عجیب وغریب ہے۔ حالانکہ یہ الیکشن ان کے لئے وجود کی لڑائی بھی ہے۔ ہر الیکشن میں ان کاووٹ کم ہوتا جارہا ہے اور اگر انھوں نے تنہا الیکشن لڑا تو ان کی پارٹی کا گراف شاید مزید نیچے آجائے۔ ان کی پارٹی کے پاس ایک بھی لوک سبھا سیٹ نہیں ہے مگرایک مسئلہ ووٹوں میں روزبروز ہوتی کمی کا بھی ہے۔ 
ناک کٹ گئی
گورکھ پور سیٹ یوگی ہی نہیں بلکہ تمام ہندتوادیوں کے لئے ناک کا سوال تھی مگر دنیا نے دیکھا کہ یہ ناک کٹ گئی۔گزشتہ5 مارچ کی شام میں 6.00 بجے گورکھ پور کے راپتی نگر میں بی جے پی کی ایک انتخابی ریلی ہورہی تھی جس میں گورکھ پور سے بی جے پی کے لوک سبھا امیدوار اپندر دت شکلا ، وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی موجودگی میں تقریر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ، ’’یہ انتخاب گورکھ پور کے اعزاز، پورے ہندو سماج کے گورو یوگی آدتیہ ناتھ کے وقار کی لڑائی ہے۔ آج گورکھ پور کاگورو بھارتی سیاست میں بڑھا ہے۔ ابھی تری پورہ کا پوراانتخاب جتانے کا مکمل کریڈٹ جن کے حصے میں جاتا ہے ، گجرات کا الیکشن جتانے کا کریڈٹ جن حصے میں ہے اور کل کرناٹک کی فتح میں جن کا بڑا کردار ہونے جا رہا ہے۔ انھیں چیلنج دینے کی کوشش ہو رہی ہے لہذا کھڑے ہوئیے، آپ گوروکی لڑائی میں آگے بڑھ کر دلت بستی میں، پچھڑوں اور انتہائی پچھڑوں کی بستی میں جا کر ہر چوکھٹ پر ماتھا ٹیکئے اور کمل کے پھول کھلائیے۔‘‘اسی سبھا میں، وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ایس پی ،بی ایس پی کو چور، چورموسیرے بھائی کا اتحاد کہا۔ چار گھنٹے پہلے، انہوں نے پی پی گنج کے اجلاس میں اسے سانپ،چھچھوندر کا اتحاد بتایا تھا۔ حالانکی اسی سانپ، چھچھوندر کی جوڑی نے ہندتو کے ہیرو کی ناک کاٹ دی۔ یوگی آدتیہ ناتھ کو بی جے پی میں تیزی سے اعلیٰ مقام حاصل ہوتا جارہا تھا اور آرایس ایس، انھیں یوپی سے نکال کر پورے ملک کے انتخابات میں ’’ہندو ہردے سمراٹ‘‘ کے چہرے کے طور پر پیش کرنے میں لگا تھا مگر گورکھ پور اور پھول پور میں شکست کے بعد اس وقت خود یوگی کی بولتی بند ہے۔ 
مودی کی ڈوبتی ناؤ
کہتے ہیں کہ ڈوبتی ناؤسے چوہے کودکر بھاگنے لگتے ہیں، کچھ یہی کہاوت مودی سرکار پر بھی صادق آتی دکھائی دے رہی ہے۔ نریندر مودی سرکارکی امیج بہت تیزی کے ساتھ عوام میں بگڑرہی ہے۔ کل تک جو لوگ ’’ہرہرمودی‘‘ کے نعرے لگاتے تھے اور نریندر مودی کو ملک کے مسائل کا حل سمجھتے تھے، وہ آج مایوسیوں کے شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ انھیں اب احساس ہونے لگا ہے کہ نریندر مودی باتوں کے سواکچھ نہیں دے سکتے اور اسی صورت حال کے پیش نظر این ڈی اے میں شامل پارٹیاں بھی بی جے پی سے کنی کاٹتی نظر آرہی ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ اگر زیادہ دن، سرکار کے ساتھ رہے تو عوام انھیں بھی سرکار کی ناکامیوں کے لئے ذمہ دار مان لیں گے۔ یہی سبب ہے کہ پہلے تو بی جے پی کی پرانی حلیف شیو سینا نے سرکار کی کھلم کھلا تنقید شروع کی اور تنہا عام انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا، اس کے بعد آندھرا کی علاقائی پارٹی تیلگو دیشم نے حکومت کے خلاف مورچہ کھولا اور اب اکالی دل، لوک جن شکتی پارٹی اور ریپبلکن پارٹی آف انڈیا نے حکومت کو آنکھیں دکھانا شروع کردیا ہے۔ این ڈی اے میں شامل یہ پارٹیاں ایک طرف تو سرکار میں ہونے کا فائدہ اٹھاتی رہی ہیں اوردوسری طرف سرکار پر تنقید کر عوام کو یہ جتانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ سرکار کے عوام مخالف کاموں میں اس کے ساتھ نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب لوک سبھا انتخابات کو قریب دیکھ کیا جارہا ہے اور اس سے مستقبل کے اشارے کو سمجھ لینا چاہئے۔

 

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
18؍مارچ2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا