English   /   Kannada   /   Nawayathi

بی جے پی اقتدار کا ٹوٹتا یہ طلسم

share with us

محمد قاسم 

بی جے پی کو یوپی کی دو لوک سبھا اور بہار کی ایک سیٹ پر ہونے والے ضمنی انتخابات پر جو کراری شکست ہوئی ہے وہ شکست تو در اصل گجرات کے ریاستی الیکشن میں ہونی تھی، مگر وہاں کے الیکشن میں ایسا نہ ہو سکا گرچہ ایگزٹ پول اور سروے پہلے سے اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے اور قیاس یہی کیا جا رہا تھا کہ گجرات جو بی جے پی اپنا گھر اور آر ایس ایس کی مضبوط پناہ گاہ کہلاتا ہے بی جے پی کا وہاں سے زوال کا دور شروع ہوگا لیکن بی جے پی نے وہاں کامیابی حاصل کی اور ایک مرتبہ پھر سے اپنا اقتدار کا لوہا منوانے میں کامیاب ہو گئے، جس پر سنگھ پریوار سے وابستہ بی جے پی سمیت سبھی چھوٹے بڑے لیڈران نے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی سطح پر خوشیاں منائی تھیں، مٹھائیاں تقسیم کی تھیں اور گجرات کی اس جیت کو مستقبل قریب میں ہونے والے ریاستوں کے انتخابات کی جیت سے تعبیر کیا تھا اور ایسا ہوا بھی کہ جب ملک کی مشرقی ریاستوں کے الیکشن کے نتائج منظر عام پر آئے تو اس خیال کو تقویت حاصل ہوتی ہوء محسوس ہوئی اس لئے کہ ان ریاستوں میں میں بی جے پی کے ہاتھوں اقتدار کا آنا مشکل سمجھا جاتا تھا اور یہاں کی زمین اس کے لئے سنگلاخ اور بنجر تصور کی جاتی تھی مگر وہ یہاں بھی کمل کھلانے میں کامیاب ہو گئی تھی اس کے بعد اب نظریں 2019/ میں منعقد ہونے والے مرکزی الیکشن کے انعقاد پر مرکوز ہو چکی تھیں کہ اس سے پہلے ہی ضمنی انتخابات کا سامنا کرنا پڑ گیا اور سامنا بھی ایسا ہوا کہ اس میں فتح کا جو خواب دیکھا جا رہا تھا وہ اب اسے چکنا چور ہوتا نظر آنے لگا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ گزشتہ چار سالوں میں نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور مسلم مخالف بلوں کے پاس کرانے کے علاوہ مرکز کی طرف سے کوئی اہم ترقیاتی کام نہیں ہوئے ہیں جبکہ الیکشن سے پہلے بی جے پی کی طرف سے جو نعرہ اچھالا گیا تھا وہ 'سب کا ساتھ سب کا وکاس' کا نعرہ تھا، ان چار سالوں میں کتنا وکاس ہوا اور کون کون سے طبقات کو حکومتی سطح پر امداد میسر ہوئی یا بیروزگاری کو کم کرنے اور خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو کیا کیا مراعات حاصل ہوئیں؟ حالانکہ بی جے پی اپنے ان متنازعہ کام کاز کے تئیں حد سے زیادہ پر اعتماد اور اپنے لاو لشکر اور اندھ بھکتوں کی متکبرانہ شرارتوں اور انسانیت سوز حرکتوں کے باعث کچھ زیادہ ہی مگن ہو چکی تھی، وہ اب حالیہ انتخابات کے نتائج کو دیکھ کر ضرور اقتدار کے اپنے طلسم کو ٹوٹتا بکھرتا محسوس کر رہی ہوگی اور اسے اس بات کا بخوبی اندازہ اور مشاہدہ بھی ہوا ہوگا کہ ایسا آج تک ہوا ہی نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی ضمانت اور گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ اقتدار کا پہیا اور خزانہ کی کنجی فرد واحد اور کسی ایک جماعت اور طبقے کے پاس ہی برقرار رہے بالخصوص جب کہ ملک میں ایک خاص قسم کے ماحول کو پروان چھڑانے یا ایک ہی مذہب کو دیگر مذاہب کے مقابلے میں رائج و نافذ کرنے کی یکطرفہ پلاننگ کی جاتی ہو.
ہمارا یہ ملک جمہوری اور دستوری ملک ہے یہاں ہر ایک کو اپنی پسند اور ذاتی رائے کی آزادی حاصل ہے یہاں کے عوام کسی کی زرخرید ملکیت نہیں اور نا ہی عوام ایسا سوچتے ہیں کہ ہمارے ہر قدم و قلم کے حقدار یا سیاہ و سفید کے مالک ایسے ہی حکمراں بنے رہیں، جو صرف دلفریب نعروں، خوشنما وعدوں اور لاحاصل و بے مقصود مسائل میں الجھا کر اقتدار کی باگ ڈور تھامے رہیں، مذہبی شدت کی بدولت سیاسی منافرت اور اقتدار کی طاقت میں جب بھی کوئی جماعت سماج کو تقسیم کرنے والی باتوں کو اپنا مدعی اور خفیہ ایجنڈا بناتی ہے اور اس کے ذریعے اپنے خفیہ مشن اور پوشیدہ مقاصد کی طرف پیش قدمی کرتی ہے تو پھر یہاں کے عوام بہت جلد حالات کو بھانپ کر مذہب و ملت سے بالاتر ہو کر اپنی رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں جس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو 14/مارچ کو یوپی کی دو اور بہار کی ایک سیٹ پر ہونے والے ضمنی انتخابات کی شکل میں دنیا والوں نے اپنی آنکھوں سے منتج ہوتے دیکھے. جس وقت ان سیٹوں کی رائے شماری آخری مرحلے میں تھی اس وقت ان لیڈروں کے افسردہ چہرے اور بکاو میڈیا کے ان اہلکاروں کی صورتیں دیکھنے کے قابل تھیں جو کسی صورت نہیں چاہتے تھے کہ نتائج بی جے پی کے خلاف آئیں یا ان کو یہاں شکست فاش ہو؟
بہر حال ان سیٹوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج سے ایک مرتبہ پہر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر عروج کو زوال اور ہر سیاہ رات کے بعد صبح کی سفیدی کا نمودار ہونا لازمی ہے اور یہ امید لگائی جانی چاہئے کہ تبدیلی کی یہ لہر آگے ضرور موجیں بھریگی جس کا اختتام مرکز سے موجودہ اقتدار کے بیدخلی پر منتج ہوگا۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
17؍مارچ 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا