English   /   Kannada   /   Nawayathi

بابری مسجد مقدمہ بی جے پی رکن سبرامینم سوامی سمیت دیگر ۳۱؍ مداخلت کاروں کو جھٹکا اب صرف جمعیۃ علماء سمیت دیگر فریقین ہی اپنی بات عدالت کے سامنے رکھ سکیں گے

share with us

جمعیۃ علماء کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے بحث کا آغاز کیا، معاملے کی سماعت ۲۳؍ مارچ کو دو بجے 

 

دہلی:15مارچ2018(فکروخبر/ذرائع)باؔ بری مسجد رام مندر ملکیت معاملے کی سماعت آج ایک بار پھر سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین رکنی بینچ کے سامنے شروع ہوئی جس کے دوران بی جے پی رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی کو زبر دست جھٹکا لگا جب عدالت نے اسے اس معاملے میں کسی بھی طرح کی مداخلت کرنے سے روک دیا اس کے ساتھ ساتھ ان دیگر ۳۱؍ مداخلت کاروں کو بھی فی الحال اس معاملے میں کچھ بھی کہنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

جیسے ہی عدالت کی کارروائی شروع ہوئی اس معاملے کی ایک اہم فریق جمعیۃ علماء ہند کے وکیل نے عدالت سے گذارش کی کہ وہ سب سے پہلے ان لوگوں پر عدالت میں داخل ہونے کی پابندی عائد کرے جنہیں ابھی تک اس معاملے میں بطور فریق تسلیم نہیں کیا گیا ہے ، جمعیۃ علماء کے وکیل کااشارہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر سبرامینم سوامی اور شیعہ وقف بورڈ کے چیرمین وسیم رضوی کی طرف تھا  

جمعیۃ علماء ہند کے وکیل اعجاز مقبول نے چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشراء کی سربراہی والی تین رکنی بینچ کو بتایا کہ اس سے قبل کی سماعت پرعدالت یہ واضح کرچکی ہیکہ وہ اس معاملے میں مداخلت کاروں کی عرضداشتوں پر فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد کوئی فیصلہ کرے گی اس کے باجود مداخلت کار عدالت میں گھس کر عدالتی کام کاج میں رخنہ اندازی کررہے ہیں جس کے بعد تین رکنی بینچ نے باقاعدہ آرڈر پاس کرتے ہوئے تمام مداخلت کاروں کی درخواستوں کو فی الحال ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیا جس کے بعد ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے عدالت کوبتایاکہ اس معاملے کی سماعت اسی کی عرضداشت پر شروع ہوئی اور آج اسے ہی عدالت سے باہرکردیا جارہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کی عرضداشت پر الگ سے سماعت ہوگی۔ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کی درخواست پر چیف جسٹس نے رجسٹرار کو بھی حکم دیا کہ وہ اب کسی بھی طرح کی عرضداشتوں کو قبول نہ کرے ۔اسی درمیان ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے اتر پردیش حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا پر بھی نشانہ سادھا اور کہا کہ وہ بجائے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کے اکثریتی فرقہ کے قریب دکھائی دے رہے ہیں جس کا عدالت کو نوٹس لینا چاہیئے۔
مداخلت کاروں کی عرضداشت پر کارروائی کرنے کے بعد عدالت نے معاملے کی سماعت پانچ یا سات رکنی بینچ پر کیئے جانے والی جمعیۃ علماء کی عرضداشت پر سنوائی کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے ۔
عیاں رہے کہ اس سے قبل کی سماعت پر تین رکنی بینچ اس بات پر بضد تھی کہ وہی معاملے کی سماعت کریگی لیکن ڈاکٹر راجیو دھون کے دلائل کے بعد عدالت اس بات پر راضی ہوئی کہ وہ معاملے کی باقاعدہ سماعت شروع ہونے سے پہلے اس مدعا پر فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔
اسی درمیان ڈاکٹر راجیو دھون نے اپنی بحث کا آغاز کیا اور عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر اسماعیل فاروقی فیصلہ کی رو سے اس معاملے کی سماعت بھی کثیر رکنی یعنی کونسٹیٹویشنل بینچ پر کی جانے چاہئے کیونکہ یہ کوئی عام معاملہ نہیں ہے ، راجیو دھون کی بحث جاری ہے ۔ اب معاملے کی سماعت ۲۳؍ مارچ کو ۲؍ بجے ہوگی۔
کمرہ عدالت آج حسب سابق وکلاء سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور بیشتر وکلاء کو کھڑے کھڑے ہی عدالتی کارروائی میں شریک دیکھا گیا ، آج عدالت میں جمعیۃ علماء کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کے علاوہ وکلاء راجورام چندرن، اکرتی چوبے، قراۃ العین، شاہد ندیم ، جارج، تانیہ شری و دیگر موجود تھے۔
واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند نے صدر جمعیۃعلماء مولانا سیدارشد مدنی کی ہدایت پر 30؍ ستمبر2010ء؍ کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو جس میں ا س نے ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا تھا جس کے خلاف سب سے پہلے سپریم کورٹ سے رجوع کیا(10866-10867/2010 سول اپیل نمبر) پھر اس کے بعد دیگر مسلم تنظیموں نے بطور فریق اپنی عرضداشتیں داخل کی تھیں۔خیال رہے کہ23؍ دسمبر 1949 ؁ء کی شب میں بابری مسجد میں مبینہ طور پر رام للا کے ظہور کے بعد حکومت اتر پردیش نے بابری مسجد کو دفعہ 145؍ کے تحت اپنے قبضہ میں کرلیا تھا جس کے خلاف اس وقت جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیرالدین فیض آبادی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجاں پوری نے فیض آباد کی عدالت سے رجوع کیا تھا جس کا تصفیہ 30؍ ستمبر 2010ء؍ کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے دیا گیاتھا ۔متذکرہ فیصلے کے خلاف جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر بدھ کو سماعت عمل میں آئے گی ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا