English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوتوا کا بڑھتا ستم،ملک کی میڈیا چپ ، ہمیں مظلوموں کا ساتھ دینا ہے 

share with us

ازسمیع احمد قریشی ممبئی 

صحافت یعنی میڈیا جمہوریت کا اہم ستون ہے. ملک معاشرے سماج کو بنانے میں اس کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا. آج کے دور میں صحافت کماحقہ پہلے سے وسیع ترہوتے جا رہی ہے. ٹی وی، الیکٹرانک میڈیا، واٹس اپ، فیس بک اور بے شمار ذرائع پیدا ہوگئے ہیں. میڈیا کا اہم کام یا کردار خبروں کو من عن پہنچانا اور حکومت پر صحت مند تنقید کرنا ہے. نیز عوام الناس کی معیاری ذہنی تر بیت بھی ہے.
صحافت کا کردار یہ نہیں ہے کہ وہ اپنا ضمیرفروخت کرے. گندگی، کیچڑ پر اچھائی کا ملمع چڑھا دے، انتہائی بدترین حالات سے منہ موڑا کرے، چشم پوشی کرے تا کہ عوام نا آشنا رہیں، وہ حکومت وقت کے کان نہ موڑیں، صحافت میڈیا کا اک اہم ستون ہے۔
آج ملک میں صحافت میڈیا کا کردار انتہائی غیر معیاری ہوتا جارہا ہے. ملک کے کروڑوں عوام کے ساتھ یہ دھوکہ دہی و فریب کے سوا اور کھ نہیں، موجودہ مودی جی کی حکومت ہندوتوا وادی آر ایس ا یس کی نور نظر ہندوتوا وادی بی جے پی کی حکومت ہے، جو دستوری سطح پر ملک کی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہے مگر، چونکہ وہ دستور کو مانتی نہیں. مگر وہ آر ایس ایس کو اعلی و بر تر مانتی ہے.۔
پارلیمنٹ کی بجائے آر ایس ایس کے سامنے جواب دہ سمجھتے آئی ہے. یہ اس کے روز قیام سے ہی نظر آتا ہے. مودی سرکار کے اس غیر دستوری عمل پر ملک کی میڈیا نے کھل کر تنقید یعنی کھینچنا کرنا ضروری ہے، مگر و اس کی پردہ داری ہی نہیں اسکی ہمت افزائی میں لگی ہے. میڈیا کا معیاری کردار کیا ہوتا ہے، اس سے وہ ہٹ چکی ہے، گویا اس سے کہا گیا کہ تھوڑا سا جھک جاو وہ پوری طرح سے یکلخت سجدے میں گر پڑی ہے.
اس شعر کی تفسیر بنی ہے
جو تم کو پسند ہے وہ بات کریں گے
تم دن کو رات کہو رات کہیں گے
ملک کا پورا نظام چلانے کے لئے بڑی کاوشوں محنتوں سے با با صاحب امبیڈکر جیسے اک عظیم ماہر قانون اور عل و انصاف اور انسانیت کی اعلی شخصیت، کی سربراہی میں 26/جنوری1950 کو ملک کا نظام سنبھالنے کے لئے ملک کے لئے اک دستور کا نفاذ ہوا. جو بے انتہا انسانی اقدار پر مبنی ہے. ہر اک کو برابری، مساوات کے ساتھ سماجی، معاشی، مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئیں. یہ سب ہندوتوا دی مودی جی کے راج مین گم ہوئی جارہی ہیں. ہندوتوا وادیوں نے جھوٹے راشٹر واد کے نام پر نقاب اوڑھ رکھا ہے۔
خرد کا نام جنوں، جنوں کا نام خرد رکھ دیا
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
آج ہندوتوا کے را ج میں قانون کی دھجیاں قدم بہ قدم، دن بدن اڑائی جارہی ہیں، ملک کا اکثر وبیشترمیڈیا چپ ہے، وہ ملک میں ہندوتوا وادی راج میں عام آدمی، آدی واسیوں، دلتوں، طلبہ، کمزوروں، کسانوں، چھوٹے دکانداروں، بیوپاریوں وغیرہ کی حالت زار پر حکومت وقت کے سامنے، اس کی بے اہلی، نا کامی پر آئینہ دکھلانے کو تیار نہیں. قابل مبارکباد ہیں، وہ سماجی ادارے، سماجی شخصیات، صحافی اخبارات ٹی وی چینل جو بکاؤ میڈیا کے سامنے کم تعداد میں ہیں، دن بدن ہندوتوا کے را ج میں. اس کی زیر سرپرستی ہونے والے جبر و تشدد پر جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان عمل میں ہیں. انہیں دھمکایا جا رہا ہے، ان کو ستایا مارا جا رہا ہے. جھوٹے مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں. یقیناً یہ اندھیرے میں اک چراغ کے مانند ہیں. یہ کئی چراغ بنیں گے.
موجودہ ہندوتواوادی بی جے پی سرکار کے دور حکومت میں جو کچھ جبر و تشدد ہو رہا ہے. وہ کوئی غیر متوقع نہیں ہے.
آم کے درخت سے آم ہی گرتے ہیں کیلے امرود نہیں
موجودہ ہندوتواوادی سرکار، راشٹر سوئیوم سنگھ یعنی آر ایس ایس کی گویا اک حصہ ہے، وہ اسے چھپانے میں کوئی شرم بھی محسوس نہیں کرتی. اپنی سہولتوں کے لئے سرکاری سہولتوں کا استعمال بھی آر ایس ایس خوب کرتی آئی ہے. کسی اور سماجی ادارے کو یہ حاصل نہیں. آر ایس ایس کا سربراہ کافی دیر تک سرکاریں ریڈیو پر خطا ب کیا جاتا ہے. کیا آج تک یہ سرکاری سہولت کسی اور ادارے کو مل پائی.
آج ملک میں بڑے پیمانے پر جن وعدوں کی بنائپر مودی جی کی سرکار ، اس پر سے پردہ اٹھ رہا ہے، جو جو اسکیمیں، منصوبوں پر عمل بجا آوریاں ہوئیں.
وہ ناکام ثابت دکھائی دے رہی ہیں اور انشاء اللہ یہ سلسلہ مزید یہ چلے گا۔ دلت مسلم ادی واسیوں پسمادہ طبقات کیساتھ ساتھ کسانوں مزدوروں اور نوجوانوں کے حالات یعنی ملک کی اکثیرتی طبقات کے حالات انتہائی دگرگوں ہوتے جارہے ہیں۔
ناؤ کاغذ کی ہمیشہ چلتی نہیں
سماجی آگاہی وقت کی اہم ضرورت ہے. ہم مسلمان بھی اس ملک کے باشندے ہیں. سماجی آگاہی اور مثبت فگر و عمل میں ہم پیچھے نہیں رہیں گے. یہ ثابت کرنے کا وقت ہے۔
جب وقت پڑا گلستان میں خون ہم نے بھی دیا
آج ہندوتوا کے ہندوتوا کے را ج میں ہماری بھی زندگی اجیرن ہے. ہمارے کھانے پینے پہناوے پر پہرے، یہاں تک کہ ہمارا جینا حرام. ہمارے مدرسوں پر ہزیمتیں، آئے دن ہمارے سامنے اک نیا مسئلہ۔۔۔۔۔۔ آج برادران وطن کی اک بڑی تعداد کئی مہینوں سے کم و بیش ہماری ہی طرح پر آشوب دور سے گزر رہی ہے، ان میں سماجی بیداری بڑے پیمانے پر آتی دکھائی دیتی ہے. اپنے دستوری حقوق کی خاطر، ان مظلوموں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنا ضروری ہے
ہم نے ملک کی آزادی میں اوروں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا. اوروں کیلئے ملک کی آزادی ملکی فریضہ تھی. ہمارے لئے مذہبی فریضہ رہی. علمائے دین نے ملک کی آزادی کے لئے جہاد کا اعلان کیا. ہزاروں علمائے دین تختۂ دار پر چڑھ گئے. لاکھوں مسلمانوں نے تختۂ دار کو ہنسی خوشی کے ساتھ چوما. اک دستوری آزادی کی ملک میں کسی بھی وقت سے زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے. کسی جید مسلم مذہبی شخصیت نے بہت پہلے کہا تھا. جس کا مفہوم کچھ ایسا ہے کہاگر مسلمانوں کو سو فیصد پنچ وقتہ نمازی ہی نہیں بلکہ تہجد گذار بھی بنا دیا جائے مگر ان میں سیاسی بیداری اور ملک کے حالات حاضرہ سے واقفیت نہ ہوگی تو ہو سکتا ہے کہ انکی پنچ وقتہ نماز پر بھی پابندی آسکتی ہے.
امید ہے کہ ہم اپنے روایتی فکر وعمل سے باہر نکلیں گے.
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
بد قسمتی سے ہماری مذہبی قیادت ہو کہ سماجی یا سیاسی، اگرچہ وہ ہے تو، عقل و فہم سے پیدل ہی ہے. ہر چند کہ صرف ور صرف چند ایک کو اس سے استشنی قرار دیا جاسکتا. اللہ ملت کی اسی مثبت فکر وعمل کو کامرانی عطا کرے.
پہلے قوت فکر و عمل فنا ہوتی ہے
پھر قوموں کی شوکت پہ زوال آتا ہے
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
14؍ مارچ 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا