English   /   Kannada   /   Nawayathi

جھوٹ کے پرہوتے ہیں پیر نہیں ہوتے

share with us

حفیظ نعمانی

جھوٹ اور سچ کا فرق بتاتے ہوئے انگریزی کے ایک مفکر ڈاکٹر جانسن نے کہا ہے کہ سچ بولنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ یاد نہیں رکھنا پڑتا کہ کس سے کب کیا کہا ہے؟ اور اردو کے مشہور شاعر اور برسوں سرکاری افسر رہنے والے دانشور وامقؔ جونپوری نے جھوٹ کے بارے میں کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ جھوٹ کے پر تو ہوتے ہیں پیر نہیں ہوتے۔ کوئی پرندہ ہمیشہ اُڑتا رہ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کو زندہ رہنے کے لئے، آرام کرنے کے لئے اور پیٹ بھرنے کے لئے کبھی نہ کبھی تو زمین پر اترنا ہی پڑتا ہے اور جب پیر نہیں ہوں گے تو زمین پر اترنا بھی بے سود ہوگا۔ یہی صورت جھوٹ کی ہے۔ جھوٹ نہ بہت دور تک اور نہ بہت دیر تک اُڑ سکتا ہے اور اس کی اصلیت ایک دن کھل کر رہتی ہے اور جھوٹے کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔
کانگریس کی سابق صدر مسز سونیا گاندھی نے ایک عرصہ کے بعد اپنے مخصوص تیوروں میں کل ایک میڈیا رپورٹر سے بات کی اور مودی سرکار کے بارے میں کہا کہ وہ جھوٹ پر چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شائننگ انڈیا کی طرح اچھے دن بھی ہوا ہوجائیں گے اور کانگریس 2019 ء میں واپس آئے گی۔ انہوں نے جو کہا وہ سننے والوں نے سن لیا اور پڑھنے والوں نے پڑھ لیا ہوگا۔ ہم تو صرف یہ کہیں گے کہ یہ واقعہ ہے کہ 2014 ء کے دوران جو بھی کہا تھا اور جتنا بھی کہا تھا وہ سب جھوٹ ثابت ہورہا ہے۔ ایک جھوٹ تو وہ ہوتا ہے جس میں آدمی بے بس ہوتا ہے اور قدرت اسے سچ نہیں ہونے دیتی لیکن ایسے جھوٹ جو بولنے والا ہی ان کی طرف سے آنکھیں بند کرلے کیسے معاف کئے جاسکتے ہیں؟
مودی سرکار کے چار سال سب کے سامنے ہیں۔ پندرہ پندرہ لاکھ والے فریب کو امت شاہ کے انتخابی جملہ کہہ دینے سے نریندر مودی بے قصور نہیں ہوسکتے اور یہ امت شاہ کی ناعاقبت اندیشی ہے کہ مودی جی کے ایک وعدہ کو جو صرف ایک جملہ نہیں تھا بلکہ کالے دھن اور دوسرے ملکوں کے بینکوں کے کردار اور کانگریس کے لیڈروں کی بدکرداری اور لوٹ کھسوٹ۔ اور پھر اپنے روپئے کی قیمت اور ملک میں ڈھونڈے غریب نہ ملنے کی خوشخبری تھی اور ووٹ لینے کی انتہائی پرفریب سازش تھی جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد جب جن دھن اکاؤنٹ کی اسکیم شروع ہوئی تو لاکھوں نے اسے پندرہ لاکھ سے جوڑا اور شاطروں نے پچیس پچیس اکاؤنٹ فرضی نام سے بھی کھلوائے جو پچھلے سال پکڑے گئے اور بند کئے گئے۔
اس فریب کے علاوہ ہر نوجوان کو روزگار پڑھے لکھوں کو سرکاری نوکری عام اور غریب آدمی کو مہنگائی سے نجات۔ اپنے کو پردھان منتری کے بجائے چوکیدار اور پہریدار، نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا کا وعدہ اور جگہ جگہ بھرشٹاچار مکت بھارت بنانے کا اعلان اور 26 مئی کو حکومت سنبھالنے کے بعد پہلی تقریر میں تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں یہ اعلان کہ جتنے بھی داغی ممبر یہاں ہیں یہ ایک سال کے اندر جیل میں ہوں گے۔ اور عمل یہ کہ اپنی پارٹی بی جے پی جسے اسی تقریر میں اپنی ماں کہا تھا اس ماں کا صدر بنانے کی بات آئی تو اس کے لئے نظر انتخاب اس آدمی پر پڑی جس کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے تھے اور خون کے ان قطروں میں اس لڑکی کے خون کے قطرے بھی تھے جو سہراب الدین کے ساتھ رہتی تھی لیکن اس پر کوئی الزام نہیں تھا اسے سہراب الدین کے قتل کے تین دن کے بعد نہ جانے کہاں مارا اور کہا جلایا؟ اور چار سال میں اترپردیش بی جے پی کی صدارت ہو یا وزیراعلیٰ کا عہدہ مودی جی کو بے داغ آدمی پسند نہیں آتا وہی پسند آتا ہے جس پر فساد خون اغوا اقدام قتل کے دس دس بارہ بارہ مقدمے چل رہے ہوں۔ خود وزیراعظم نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ داغی ممبروں کی شکایت کررہا تھا ہم نے بارہ عدالتیں قائم کردی ہیں۔ شاید وہ 2022 ء میں سامنے آئیں گی۔
نریندر مودی نے جب 2014 ء کا الیکشن لڑا تھا تو گجرات ماڈل پر لڑا تھا اور اس کی تعریف یہ بتائی تھی کہ گھر گھر بجلی کھیت کھیت پانی۔ اور جب اس کے الیکشن کے وقت راہل گاندھی نے اس کا پردہ ہٹایا تو انہیں کہنا پڑا کہ ہماری حکومت بنی تو ہم 15 گھنٹے بجلی دیں گے اور مفت پانی۔ یہ پورے چار سال ایسے گذرے کہ کہیں نہ کہیں الیکشن اور ہر جگہ وزیراعظم کی طرف سے جھوٹ کی جھڑی اور حکومت بنانے کے بعد پلٹ کر نہیں دیکھنا کہ اب لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟ 2015 ء میں مودی جی 52 گز کے تھے ان کے جھوٹ کے پلندوں نے انہیں 52 فٹ کا بنا دیا اس کا ثبوت یہ ہے کہ 37 لاکھ آبادی والے ملک میں حکومت بنانے سے اتنے خوش ہیں کہ جیسے امریکہ فتح کرلیا۔ اور چار سال کے ختم ہوتے ہوتے حالت یہ ہوگئی ہے کہ گجرات کا ایک مودی ہزاروں کروڑ لے کر بھاگنے کا منصوبہ بناتا ہے اور مودی جی کو معلوم ہے کہ وہ بھاگ جائے گا لیکن اسے نہیں روک پاتے اور جب اسے بلایا جاتا ہے کہ آکر تحقیقات میں تعاون کرو تو وہ جواب دیتا ہے کہ میں بڑا کاروباری ہوں مجھے فرصت کہاں؟ اور اس وقت سب کو یاد آتا ہے کہ ’’نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘‘ اگر 22 لاکھ کا سوٹ کوئی پہنا دے گا تو پہن لوں گا اور کوئی خزانہ لے کر بھاگے گا تو جانے بھی دوں گا۔ امت شاہ کا لڑکا 80 کروڑ بنا لے گا تو آنکھیں پھیر لوں گا اور فرانس کے رافیل کے بارے میں نہیں بتاؤں گا کہ پہلے کے مقابلہ میں دوگنی قیمت کیوں ہوگئی؟ مگر۔۔۔
اب یہ آخری درجہ کی بات ہے کہ خبروں کے مطابق مہاراشٹر اسمبلی کا گھیراؤ کرنے کے لئے 70 کلومیٹر پیدل چل کر تین لاکھ کسان آئے ہیں اور وہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ہم سے جتنے وعدے کئے تھے وہ سب جھوٹ نکلے ان میں زیادہ تعداد اُن کسانوں کی ہے جو کپاس کی کاشت کرتے ہیں۔ اور یہی شکایت گجرات کے کسانوں کو تھی کہ حکومت صرف جھوٹے وعدے کرتی ہے۔ یہ حالت اس وقت ہے جب حکومت کے ہر وزیر کی زبان پر کسانوں کی محبت کی داستانیں ہیں۔
جب نوٹ بندی کی گئی تب بھی یہی کہا گیا کہ یہ کالے دھن کی تلاش میں کیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ نکلی کہ مقصد صرف کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو دیوالیہ کرکے اپنی دولت سے الیکشن جیتنا تھے۔ اس نوٹ بندی میں 120 شریف انسانوں کی جان چلی گئی اور بے رحم وزیراعظم کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ نہیں گرا جبکہ 50-50 لاکھ روپئے ہر کسی کو دینا چاہئے تھے کیونکہ ان کی موت صرف وزیراعظم کے اس فیصلہ سے ہوئی۔ اور 9 بجے رات سے صبح تک جو لاکھوں کروڑ کا ہیرے جواہرات کا کاروبار ہوا اور سب نے اپنے کالے دھن کو ہیروں کی طرح سفید کرلیا ان میں سے ایک بھی نہیں پکڑا گیا اور نہ اسے سزا ملی جو بینک کا افسر تھا اور اندر بیٹھ کر کالے کو سفید کررہا تھا۔
مودی سرکار کے ابتدائی دو برس ایسے گذرے کہ داغی ممبر نوازی کے علاوہ کوئی شکایت نہیں ہوئی لیکن اس کے بعد نہ جانے کس شیطان نے انہیں انگلی دکھائی کہ وہ پوری طرح فرقہ پرست اور وزیراعظم کے بجائے بی جے پی لیڈر بنتے چلے گئے اور یہ انتہا ہے کہ گجرات میں انہوں نے احمد پٹیل کو وزیراعلیٰ بنانے کا گجراتیوں کو خوف دلایا اور جھوٹ کے بل پر ایک میٹنگ ایسی دکھائی جس میں پاکستان بھی شریک تھا۔ ایک وزیراعظم جس کے ملک میں 20 کروڑ مسلمان ہوں وہ ان سے اتنی نفرت کرے اور اس کے بعد تین طلاق کے بارے میں بل یہ کہہ کر لائے کہ وہ مسلمان بہن بیٹیوں کو ان کے من کی مراد دے رہا ہے کیا اس جھوٹ کو کوئی سچ تسلیم کرسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ملک کا ہر وہ طبقہ جس نے ٹوٹ کر حمایت کی تھی ر فتہ رفتہ دور ہوتا جارہا ہے اور وہ تعلیم یافتہ نوجوان جو کاندھوں پر اٹھاکر لائے تھے اب دال روٹی کے لئے وزیراعظم کے مشورہ پر پکوڑے تل کر عمل کررہے ہیں۔ اور جھوٹ پیر نہ ہونے کی وجہ سے حسرت بھری نگاہ سے عزت اور محبت کو جاتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ 
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ۔ 
13؍ مارچ 2017
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا