English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہر کوئی اتحاد کی بات کر تا ہے مگر اپنی انا کو تیاگ کر متحد ہو نا نہیں چاہتا ؟

share with us

از: غلام غوث ، بنگلور

کیا کرناٹک میں تمام مسلمان متحد ہو کر ووٹ ڈالین گے؟یہ ایسا سوال ہے جس پر نہ غور و خوص کیا گیا ،نہ طریقہ سوچا گیااور نہ ہی الگ الگ مسلمانوں کے طبقات سے رائے مشورہ کیا گیا۔دانشوروں کی کہاوت ہے کہ صرف خواہش کر دینے سے وہ چیز حاصل نہیں ہو جاتی۔چند افراد کی خواہش سے اور کہہ دینے سے یا لکھ دینے سے حالات بدل نہیں جاتے۔کرناٹک میں قریباّ 80 لاکھ مسلمان ہیں جنکی سوچ کو ایک کرنا ہے۔یہ کسی ایک شخص، گروپ یا ادارے کے بس کی بات نہیں ہے۔سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے ، غور و فکر کرنے والے، نتائج پر پہنچ نے والے دوسروں کے مشوروں کو خاموشی سے سننے والے ، غیر جانبدارانہ انداز میں سوچنے والے، بلا معاوضہ کام کر نے والے ور اخلاص سے کام کرنے والوں کی کمی ہے۔اکثر احباب ہوا میں باتیں کر دیتے ہیں، جس کسی نے بھی اسٹیج دیا اسکی واہ واہ کر دیتے ہیں۔ ایسا ہر قوم میں ہو رہا ہے۔ ہر قوم میں کئی فلاحی اور سیاسی ادارے ہیں۔ ہر ادارہ سمجھتا ہے کہ وہی اْس قوم کی آواز ہے، اْسکا رہنما ہے اور اسکا ہمدرد ہے۔ ضرورت ہے کہ ہر قوم کے یہ تمام ادارے ، انجمن اور جماعتیں اپنے اپنے انفرادی کردار کو برقرار رکھتے ہوے قوم کے ہر مسلہ پر ملکر بیٹھیں اور غور و خوص کریں اور حل تلاش کریں ۔ ایسے تناظر میں ہم دیکھیں تو ہم تمام مسلمانوں کی سوچ بھی بکھری ہوی ہے۔ 
بات 2018 کے کرناٹکا اسمبلی الیکشن اور 2019 کے پار لیمنٹ الیکشن کی ہے۔انگریزی اخباروں کے ایڈیٹوریل ابھی سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ہر آئندہ آنے والے الیکشن میں تمام سیکولر پارٹیوں کا گٹھ بندھن ضروری ہے تاکہ ایک فرقہ پرست پارٹی کے امید وار کے خلاف ایک ہی گٹھ بندھن کا امید وار ہو۔اگر صرف کرناٹک کی بات کریں تو یہاں کانگریس، جنتا دل اور SDPI ہیں مگر باہر سے بی یس پی اور یم آی یم آ رہی ہیں۔کچھ مسلم ادارے کانگریس اور جنتا دل کے گٹھ بندھن کے حق میں ہیں تو کچھ صرف کانگریس کے حق میں ہیں۔ جنتا دل کو ہم صرف یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے کہ اْس نے چند سال پہلے بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا تھا اور ہو سکتا ہے کہ وہ آئیندہ بھی ویسا ہی کرے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم کو اْن مسلمان یم یل ایس اور مسلم سیاستدانوں کو بھی نظر انداز کر نا ہو گا جنہوں نے بی جے پی سے ہاتھ ملانے میں مسٹر کمار سوامی کا ہر طریقہ سے ساتھ دیا تھا۔مسٹر دیوے گوڈا اور مسٹر کمار سوامی نے تمام مسلم اداروں کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ آئندہ بی جے پی سے کبھی ہاتھ نہیں ملائیں گے اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ کانگریس سے گٹھ بندھن کے لئے تیار ہیں۔مگر کانگریس ایسے گٹھ بندھن کے لئے تیار نہیں تھی۔اب جنتا دل اور بی یس پی میں گٹھ بندھن ہو چکا ہے اور بی یس پی 20 حلقوں میں اتر رہی ہے۔ یم آی یم کیا کر نے والی ہے اور آزاد امید وار کیا گل کھلائیں گے یہ اب تک معلوم نہیں ہے۔یہ دونوں مسلم پارٹیاں صرف مسلمانوں کی اکثریت والے چودہ حلقوں ہی میں کھڑ سکتی ہیں دوسری جگہ نہیں اور صرف کانگریسی مسلم امیدواروں کو شکست دے سکتی ہیں۔کوئی چاہے یا نہ چاہے جنتا دل اور اسکے اتحادی 40 سے 50 سیٹ ضرور جیتیں گے اورkingmakers ضرور بنیں گے اور کانگریس کو مجبورا اْن سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔کانگریس کا اکثریت حاصل کر لینا ایک معجزہ ہو گا۔کچھ لوگ SDPI اور MIM کو دور رکھنے کے لئے ان پر طرح طرح کے الزامات لگا رہے ہیں مگر انہیں روکنا قانونی طور پر ممکن نہیں ہے اور اخلاقی طور پر انہیں روکنے کے لئے ہمارے پاس اختیار اور طاقت نہیں ہے۔ صرف ہزار دو ہزار ووٹ لے کر یہ دونوں پارٹیاں سیکولر پارٹیوں کے امید واروں کو ہرا سکتی ہیں اور فرقہ پرست پارٹی کو جتا سکتی ہیں ۔ مشورہ یہ ہے کہ یا تو انہیں ایک دو سیٹ دے دو یا آئیندہ کچھ دینے کی بات کہو یا مسلم ووٹروں کو انہیں ووٹ نہ دینے کی صلاح دو ۔ انہیں ووٹ نہ دینے کی صلاح صرف مسلم ادارے ہی دے سکتے ہیں۔ایک مثال دوں تویو پی میں دیو بند کے حلقہ میں 70 سے زیادہ فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے مگر وہاں سے بھی بی جے پی کا ہندو امید وار الیکشن جیت جاتا ہے۔ بی جے پی کا ہندو امید واار برجیش 102244 ، یس پی کے معاویہ علی 55385 بی یس پی کے ماجد علی 72844 ، لوک دل ہندو 1132 ،آزاد مسلم عمر نواز 415 ،ظاہر فاطمہ239 ،۔اگر یس پی اور بی یس پی ہاتھ ملا لیتے تو دونوں مل کر 128229 ووٹ لیتے اور الیکشن جیت جاتے۔ یو پی کے میرا پور میں بی جے پی کے اوتار سنگھ نے69035 ووٹ لئے ، یس پی کے لیاقت علی نے68842 ، یس پی کے نوازش عالم 39689 ، امرانی 462 اور موسا 451 ۔ اگر ایک مسلم امید وار کھڑا نہ ہو تا تو لیاقت علی جیت جا تے۔قریبا 300 سیٹوں پر یہی کچھ ہوا۔ اصل میں بی جے پی الیکشن جیتی نہیں بلکہ سیکولر پارٹیاں نا اتفاقی کے سبب یو پی کا الیکشن ہار گئیں۔ مسلمانوں کی نادانی نے کہیں کا نہیں رکھا ۔ کرناٹکا میں اگر کانگریس اور جنتا دل نے گٹھ بندھن نہ بنا یا تو اللہ نہ کرے یو پی ہی کا حال ہو نے والا ہے۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر مسلمان متحد ہو کر ووٹ کریں گے تو گیارہ حلقوں میں اپنی پسند کے ایم ایل اے چن سکیں گے اور باقی سب جگہ مسلم آبادی کا تناسب کم ہو نے کے سبب غیر مسلموں کے ووٹوں کی ضرور ت پڑتی ہے۔اب SDPI اور MIM کو صرف مسلم ووٹ ملیں گے اور باقی سب جگہ مسلم آبادی کے کم ہونے کے سبب غیر مسلموں کے ووٹوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے میں ان گیارہ حلقوں میں اگر مسلمان متحد نہ ہوے تو ووٹ بٹیں گے اور فرقہ پرست کامیاب ہو جائیں گے۔اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ وہ لوگ جو مسلم اتحاد کی بات کر رہے ہیں کیا و ہ خود متحد ہیں؟ ہر ریاست میں مسلمانوں کے آٹھ یا دس فلاحی ادارے ہیں مگر ہر کوئی اپنے آپ ہی کو ملت کی آواز سمجھ رہا ہے اور ہر کوئی الگ الگ کام میں جٹا ہوا ہے۔اجتماعی طور پر تال میل کی کمی نظر آ رہی ہے۔عین الیکشن کے وقت ہر ادارہ اْبھر کر آ جاتا ہے مگر سیاسی پارٹیاں پریشان رہتی ہیں کہ کس کو مسلمانوں کا لیڈر اور ترجمان سمجھیں۔ ریاست کرناٹک میں چونکہ جناب روشن بیگ صاحب مسلمانوں کے لیڈر اور ترجمان ہیں اب یہ انکی ذمہ داری ہے کہ مسلم اداروں کو جوڑیں ، انمیں تال میل پیدا کریں اور رہنمائی کریں۔ اس وقت یہاں مسلمانوں کے تین گروپ ہیں جو الگ الگ بیٹھکیں کر رہے ہیں ، الگ ڈیمانڈ پیش کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو الگ الگ مشورے دے رہے ہیں۔یہ کوشش بھی چل رہی ہے کہ سب مل کر بیٹھیں اور ایک ساتھ ملکر کام کریں۔انشا اللہ یہ افراتفری بہت جلد ختم ہو جائے گی۔ایک چھوٹا طبقہ یہ بھی سوچ رہا ہے کہ کیوں ہم اپنے حلقوں سے مسلم سیاستدانوں ہی کو چنیں، کیوں نہ غیر مسلم سیکولر سیاستدانوں کو ہمارے حلقوں سے چن کر اْن سے کام لیں۔خیر یہ ایک ڈبیٹیبل معاملہ ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ جلسے، جلوس اور تقریریں مسلمان ہی کر تے ہیں اور سب سے زیادہ نعرے بھی مسلمان ہی لگا تے ہیں اور پھر اپنے اپنے گھروں کو جا کر سو جاتے ہیں اور سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔ایسا کر کے خوش بھی ہو جاتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا تیر مار لیا۔ پچھلے 70 سالوں سے یہی تو ہو رہا ہے۔ اب شہر بنگلور مسلمانوں کے لئے الیکشن کا مرکز بنا ہوا ہے اور ہر ادارہ جلسے کرنے اور میٹینگیں کر نے میں لگا ہوا ہے گویا انکی میٹینگیں تمام ریاست پر اثر انداز ہو جائیں گی۔ ایسے میں ہم مسلمانوں کو دو فرنٹ پر کام کر نا ہے۔ایک سیکولر پارٹیوں کا گٹھ بندھن اور دوسرا مسلمانوں کا متحدہ طور پر سیکولر گٹھ بندھن امید وار کو ووٹ ڈالنا۔اگر گٹھ بندھن نہیں ہوا تو ہمارے سامنے کئی امید وار ہونگے اور ووٹ ضرور بٹیں گے۔چاہے کوئی بھی اداراہ یا کوئی بھی شخصیت کچھ بھی کہہ لے ووٹ ضرور بٹیں گے ۔ اس معاملے میں بی جے پی ووٹ کی بندرر بانٹ کے لئے ہر طرح کی مالی مدد کرے گی اور دیگر حربے آزمائے گی۔اس لئے بہتر ہے کہ کرناٹک کے تمام ادارے مل کر بیٹھیں اور ایک ہی حکمت عملی اپنائیں۔ 2019 کے پارلیمنٹ الیکشن کے لئے بھی یہی حکمت عملی ہو نا چاہیے۔ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ چونکہ اس وقت سب سے اہم مسلہ سیکولر پارٹیوں کو جتانے کا ہے اس لئے فی الوقتPolarization سے بچنے کے لئے سیاسی پارٹیوں کے سامنے کوئی ڈیمانڈ نہ رکھیں بلکہ یہ وعدہ لے لیں کہ وہ الیکشن جیتنے کے بعد ہمارے ساتھ بیٹھیں گے اور ہمارے ڈیمانڈ پر بات کریں گے۔یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے مسلے الگ نہیں ہیں بلکہ وہی ہیں جو دوسرے عام شہریوں کے ہیں جیسے ریاست میں امن و امان، سیکورٹی ، ملازمت، بجلی، پانی اور ٹرانسپورٹ کی شرح میں کمی، اناج کی قیمتوں میں کمی، صحت اور تندرستی میں آسانیان، بڑھتی آبادی کے سبب اور زیادہ جنرل اسپتالوں کا قیام، سرکاری کالجوں کا قیام، ٹرافک پر کنٹرول وغیرہ۔جو بھی فیصلہ کمیٹیاں طئے کریں گی وہ مساجد کے ذریعہ عوام تک پہنچانے کا انتظام کر نا ہو گا ۔اس طرح ہم سارے مسلمانوں کو جگا سکتے ہیں اور انہیں متحد کر سکتے ہیں۔یہ کام ہمیں بغیر شور و شرابے کے کر نا ہو گا۔ہر ادارے سے دو دو افراد ملکر چودہ مسلم اکثریتی حلقوں کا دورہ کر کے وہاں کے ووٹروں کو سن کر مشورے دے سکتے ہیں اور چودہ کانگریسی مسلمانوں کو جتا سکتے ہیں۔باقی 210حلقوں کے لئے الگ حکمت عملی بنا نا ہو گا۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ بی جے پی کے کارکن گھر گھر جا رہے ہیں اور اپنا پرچار کر رہے ہیں جبکہ کانگریس کارکن ابھی اپنی آفسوں سے باہر نکلے ہی نہیں ہیں۔کانگریس اس الیکشن کو سیریس لیتی ہوی نظر نہیں آ رہی ہے۔
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
12؍ مارچ 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا