English   /   Kannada   /   Nawayathi

’’بھگوا ہندتو‘‘ بمقابلہ ’’سبز ہندتو‘‘

share with us

سیاست کے بدلتے رنگ ،لیڈروں کے تبدیل ہوتے ڈھنگ

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

گجرات انتخابات سے راہل گاندھی’’ جنیودھاری‘‘ برہمن بن گئے ہیں ،جب کہ آرایس ایس چیف موہن بھاگوت بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کی خمیر میں سیکولرازم ہے اور یہ ملک ہمیشہ سیکولر رہے گا، کچھ ایسی ہی باتیں وزیراعظم نریندر مودی بھی کہتے رہے ہیں،یہ ہندوستانی سیاست میں رنگ کی تبدیلی نہیں تو اور کیا ہے؟ بی جے پی آج تک رام مندر پر سیاست کرتی رہی مگر ایک مندر نہیں بنواسکی جب کہ بہارکی سیاست کے چانکیہ لالوپرساد یادو کے بیٹے تیج پرتاپ یادو کہہ رہے ہیں کہ وہ بہار سے اینٹیں لے جاکر اجودھیا میں رام مندربنوائیں گے۔ ادھر کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ وہ پورے گجرات میں 150رام مندر بنوائے گی اور وہاں پجاری مقرر کرے گی۔ وزیراعظم نریندر مودی اسلام اور تصوف کے موضوع پر تقریریں کر رہے ہیں تو دوسری طرف کانگریس صدر راہل گاندھی مندروں کے درشن کرتے پھر رہے ہیں۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی پارٹی نے گزشتہ دنوں ایک برہمن سمیلن کیا جب کہ بی جے پی نے مسلمانوں کی کانفرنس کی۔ یہ تمام واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ ہندوستانی سیاست، وقت کے ساتھ بدل رہی ہے اور سیاست داں اپنی پرانی امیج کو توڑ کر نئی تصویر بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ گویا
میں ہوا کافر،تو وہ کافر مسلماں ہوگیا
پرانی امیج سے نکلنا وقت کی ضرورت
بی جے پی ہندتو کی سیاست کرتی رہی ہے اور کامیابی کے ساتھ کرتی رہی ہے۔ اس معاملے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ اسی سیاست کے سبب آج اقتدار میں ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی ،ہندتو کی سیاست کا چہرہ رہے ہیں اور اسی چہرے کے سبب انھیں سنگھ پریوار نے وزیراعظم کی کرسی کا امیدوار بنایا۔ اب جب کہ وہ ایک ایسے عہدے پر فائز ہیں جہاں انھیں صرف ہندووں کی نہیں بلکہ سبھی طبقات کی بات کرنی ہے اور دنیا کو دکھانا ہے کہ وہ تنگ نظر نہیں ہیں تو وہ اپنی ایک نئی تصویربنانا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انھوں نے اپنا بھگوا چولہ اتار دیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح کانگریس کوشاں ہے کہ بی جے پی کی ہندتووادی سیاست پر حق کو چیلنج کرے اور ہندتو کے نام پر کاسٹ ہونے والے ووٹ کوبی جے پی سے توڑ کر اپنے ساتھ لائے ،اس کے لئے راہل گاندھی کو’’ جنیودھاری‘‘ برہمن بناکرمندروں کے درشن پر بھیج دیا گیا۔ سچ پوچھا جائے تو ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں کا کوئی نظریہ کبھی نہیں رہا، یہاں کوئی لیڈر نہ تو سیکولر ہے اور نہ کمیونل بلکہ سب کے سب ابن الوقت ہیں اور جب جیسے حالات دیکھتے ہیں اپنا رنگ بدل لیتے ہیں۔ انھیں نظریات سے مطلب نہیں ، اقتدار سے مطلب ہے۔ یہی سبب ہے کہ ممتابنرجی، رام ولاس پاسوان، اجیت سنگھ، دیوی گوڑا، نتیش کمار، مایاوتی جیسے لوگ کبھی بی جے پی کے ساتھ جاتے ہیں تو کبھی کانگریس سرکار کی پالکی ڈھوتے ہیں۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی ، راشٹریہ جنتادل، سی پی آئی (ایم)، ٹی آرایس، جیسی پارٹیاں اگر ووٹ بینک کی مجبوری کے تحت کھلے عام بی جے پی کے ساتھ ہاتھ نہیں ملاتی ہیں تو پس پردہ اس کے ساتھ ساز باز کرنے اور سیاسی کھیل، کھیلنے سے باز بھی نہیں آتی ہیں۔ 

’’سچا‘‘ ہندو کون؟
ہندوازم کیا ہے؟ ہندو کسے کہتے ہیں؟ او رسچا ہندو کون ہے؟ان سوالوں کی اپنی معنویت ہوسکتی ہے مگر اس وقت سیاست میں خو دکو سچا ہندو ثابت کرنے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ جنگ صرف اس لئے ہے کہ ملک کے اکثریتی ہندو طبقے کے ووٹ کو اپنے حق میں کیا جاسکے۔ کرناٹک میں عنقریب اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں، جہاں بھاجپائی اور سنگھی لیڈروں کے دوروں میں اضافہ ہوگیا ہے اور اسی کے ساتھ کانگریس اور بھاجپا کے لیڈروں کے بیچ خود کو’’ سچاہندو‘‘ ثابت کرنے کا مقابلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدھا رمیا نے گزشتہ دنوں ایک ٹویٹ میں خود کو ’ہندو‘ قرار دیا تو دوسری طرف یوپی کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے ان کے ’ہندو‘ ہونے کا مذاق اڑایا۔ظاہر ہے کہ گجرات کے انتخابات کے دوران، کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے مندر وں کا دورہ کیاتھا اور محسوس کیاکہ یہ سیاسی طور پرفائدہ مندہے لہٰذا کانگریس اب اس فارمولا کے ساتھ کرناٹک، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے اسمبلی انتخابات میں اترنے کی تیاری کر رہی ہے۔ دوسری طرف بی جے پی نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کر بنگال میں مسلمانوں کی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا۔حالانکہ بی جے پی،اپنی حریف کانگریس اور دوسری سیاسی پارٹیوں پر مسلمانوں کی چاپلوسی کا الزام لگاتی رہی ہے۔بی جے پی اگر کثیر مسلم آبادی والے بنگال میں خود کو مسلم دوست ظاہر کرتی ہے تو اس میں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ وہ تو نارتھ ایسٹ کی ریاستوں اور گوا میں گائے کا گوشت بھی سپلائی کر رہی ہے۔ کرناٹک میں اس کی سرکار رہ چکی ہے جہاں گائے کے گوشت پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی اور بہار کی سرکار کا وہ حصہ ہے مگر یہاں بھی شرطوں کے ساتھ گو کشی کی اجازت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ابن الوقتی کی مثال ہے۔ اس میں تمام پارٹیاں برابر ہیں۔ ادھر بی جے پی کی طرف سے کانگریس کے ہندتو کا مذاق بھی اڑایا جارہا ہے اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ مودی کے زیر اثر کانگریس نے ہندتو کی راہ اپنائی ہے جو بڑی حد تک درست بھی ہے۔
گجرات نے دکھائی نرم ہندتو کی راہ
گجرات میں حالیہ اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران کانگریس صدر راہل گاندھی کا مندردرشن سرخیوں میں رہا۔ راہل اور کانگریس کی ’’سیکولر ہندوتو‘‘ کی لائن کو پکڑنے کے بارے میں چرچا رہی۔ راہل کا’’ جنیو دھاری‘‘ برہمن کا نیا اوتار بھی گجرات میں سامنے آیا۔ گجرات انتخابات میں راہل کی یہ حکمت عملی اس قدر متاثر کن تھی کہ کانگریس نے اسے آگے بھی آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔ گجرات الیکشن کے نتائج میں کانگریس اگرچہ اکثریت نہیں پا سکی ،لیکن بی جے پی کو 100 سیٹوں سے نیچے روک کر مضبوط ٹکر دینے میں ضرور کامیاب رہی۔ کانگریس اور ٹیم راہل کو لگتا ہے کہ گجرات میں ان کی نئی پالیسی کارگر رہی اور اسی کے چلتے گجرات میں بی جے پی ہندوتوا کو ایشو نہیں بنا سکی،لہٰذا اسے آنے والے انتخابات میں بھی آزمایا جاسکتا ہے اور 2019میں ’’بھگواہندوتو‘‘کا مقابلہ کانگریس کے ’’سبز ہندتو‘‘ سے ہونے کے پورے امکانات ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ راہل، گجرات میں جہاں جہاں بڑے مندروں میں درشن کے لئے گئے، وہاں اسمبلی حلقوں میں کانگریس کو اچھی کامیابی ملی۔ راہل کے مندردرشن کے سوال پر کانگریس کے لیڈر راج ببرنے یاد دہانی کرائی کہ پربھات پھیری اور بھجن کیرتن، کانگریس سالوں پہلے سے کرتی آئی ہے، پارٹی کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ واضح ہوکہ مہاتما گاندھی خود کو ایک ہندو کے طور پر ہی پیش کرتے تھے اور بھجن وکیرتن ان کے روز مرہ کے معمول کا حصہ تھا۔ ’’رگھو پتی، راگھو۔۔‘‘ان کا مشہور بھجن ہے جو آج تک مشہور ہے۔
گجرات سے کرناٹک تک کانگریس کا ہندتو ؟
اس وقت جو اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ان میں سب سے پہلے کرناٹک کا الیکشن ہے جو کانگریس کے آخری قلعے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ راہل گاندھی نے یہاں کا انتخابی دورہ بھی شروع کردیا ہے۔ وہ گزشتہ دنوں میسور، بیلگام اور بلاری وغیرہ گئے اوروہاں کچھ مندروں کے درشن بھی کئے۔ بلاری اس لئے بھی کانگریس کے لئے اہم ہے کہ یہاں سے سونیا گاندھی الیکشن لڑ چکی ہیں اور ان کے مقابلے میں سشما سوراج کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔یہاں آدیباسیوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ اس دورے میں راہل گجرات کی طرز پر ہندووں کے کئی مندر اور مٹھ گئے نیز گلبرگہ میں معروف صوفی حضرت بندہ نواز گیسودراز کی درگاہ پر حاضری دینے بھی گئے۔ کبھی راہل کی دادی اور سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی کرناٹک کے شرنگیری مٹھ آئی تھیں۔ اندرا گاندھی نے چک منگلور سے لوک سبھا انتخاب بھی لڑا تھا۔بہرحال راہل، کرناٹک میں مندروں اور مٹھوں میں جاکر نرم ہندوتو کی لائن پکڑچکے ہیں۔ اس معاملے پر کانگریس کے سینئر لیڈر آر پی این سنگھ کا کہنا ہے’’مندروں میں اگر کوئی ہندو آشیرواد لینے جاتا ہے تو بی جے پی کو کیوں اعتراض ہوتا ہے۔ہم ہندو مندروں میں تب سے جاتے ہیں جب بی جے پی پیدا بھی نہیں ہوئی تھی۔‘‘ ادھر کانگریس نے بی جے پی کو اسی کے انداز میں جواب دینے کے لئے گجرات میں 150 رام مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گجرات اسمبلی انتخابات کے دوران کانگریس صدر راہل گاندھی جہاں جہاں تشہیر کرنے گئے اور مندروں میں درشن کئے، ان علاقوں میں موجود رام مندروں کی پارٹی تعمیر نو کرائے گی۔کانگریس نے فیصلہ کیا ہے کہ گجرات میں ڈیڑھ سو رام مندروں کی تعمیر نو کرائی جائے گی اور ان مندروں میں کانگریس کے ورکر صبح وشام آرتی کریں گے۔اس کے لئے باقاعدہ طور پر ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جسے ’’شری رام سوریودے سندھیاآرتی سمیتی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ سب 2019کے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر کیا جارہا ہے۔ کانگریس کی کوشش ہے کہ بی جے پی کو ہندتو کے نام پر تنہا ووٹ نہ لینے دیا جائے۔ گجرات کے سابرکانٹھا ضلع میں ایک ریلی میں نومنتخب کانگریس ایم ایل اے اور اپوزیشن لیڈرپریش دھانانی نے کہا کہ بی جے پی بھگوان رام کے نام پر صرف سیاست کرتی ہے۔ وہ جعلی ہندوتو کی روایت کو آگے بڑھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک این جی او کے تحت، دیہی علاقوں کے رام مندروں کو بحال کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کے تحت، گاؤوں کے رام مندروں میں آرتی کی جائیگی اور پوجا کٹ تقسیم کی جائے گی۔ دوسری طرف کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجیوالا نے بی جے پی پر حملہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس چاہتی ہے کہ عدالت، رام مندر معاملے میں جلد فیصلہ کرے۔ رام مندر کے نام پر بی جے پی سیاست کر رہی ہے۔ سرجیوالا نے کہا کہ کانگریس عدالت کے حکم کو قبول کرتی ہے۔ سرجیوالا نے بی جے پی پر رام مندر کو اقتدار پانے کا ذریعہ بنانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے مخلوط حکومت کی مجبوری ظاہر کرتے رہے، لیکن اب پوری اکثریت ہونے کے بعد بھی رام مندر نہیں بنوا رہے ہیں۔ ادھر مرکزی وزیر گری راج سنگھ کا کہنا ہے کہ’’ میں خوش ہوں کہ کانگریس آج ہندوتو کے بارے میں بات کر رہی ہے۔ کانگریس 70 سال سے ’’تشٹی کرن ‘‘کی سیاست میں ہے۔ ہندوؤں کو دبانے کا کام کیا ہے۔ نریندر مودی دھنیہ ہیں جو ،ہر ایک کوہندوتو سکھایاہے۔ مودی نے کسی کوجینو پہنادیا اور کسی کو گنگا ساگر کی یاترا کرادی۔کسی کو رام نام کی مالاپہنا دی۔میں خوش ہوں کہ نریندر مودی کے خوف سے تمام ہندوتو کی مالا جپ رہے ہیں۔‘‘اس بیچ خبر ہے کہ گزشتہ دنوں مہاراشٹر کانگریس کے دفتر میں پوجا پاٹ کا اہتمام کیا گیا۔ یہ انتظام کانگریس لیڈر سنجے نیروپم نے کیا تھا۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کانگریس پورے ملک میں بی جے پی کا مقابلہ اسی کے ہندتو کے ہتھیار سے کرے گی۔ 
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
12؍ مارچ 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا