English   /   Kannada   /   Nawayathi

رافیل سودے میں گھری حکومت ، خریداری پر پس و پیش میں ، فضائیہ سے از سر نو تجاویز طلب

share with us

نئی دہلی۔25فروری2018(فکروخبر /ذرائع)  دو انجن والے رافیل لڑاکا طیارے کے سودے پر اپوزیشن کی طرف سے گھیرے جانے کے بعد حکومت پس و پیش میں دکھائی دے رہی ہے اور اسی کے سبب اس نے گزشتہ دو سال سے التوا میں پڑے ایک انجن والے ہوائی جہاز کے سودے کی فائلوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کرفضائیہ سے اپنی ضروریات کے بارے میں نئے سرے سے تجاویز بھیجنے کو کہا ہے۔ حکومت کے اس قدم سے لڑاکو طیاروں کی کمی سے دوچار فضائیہ کیلئے چیلنجوں میں اضافہ ہوگا ہی ، دفاعی تیاریوں کو لے کر اس کی پالیسی پر بھی سوالیہ نشان کھڑے ہوں گے۔ فضائیہ کے لڑاکا طیارے بیڑے میں 42 منظورشدہ اسکواڈرن کے مقابلے میں اب صرف 31 اسکواڈرن ہیں۔

روس سے خریدے گئے مگ -21 اور مگ -27 طیاروں کے دس اسکواڈرن کو 2022 تک سروس سے باہر کیا جانا ہے جس سے لڑاکا طیاروں کے اسكواڈرن کی تعداد 20 کے قریب رہ جائے گی۔ایک اسکواڈرن میں 18 طیارے ہوتے ہیں اور ایئر فورس کو اگلے دو تین برسوں میں فرانس سے 36 رافیل کی فراہمی ہو جائے گی لیکن یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہو گا۔ ملک میں ہی بنائے جا رہے ہلکے لڑاکا طیارے 145تیجس145 کی سپلائی کی رفتار بھی انتہائی سست ہے۔

مودی حکومت نے اقتدار میں آنے کے ایک سال کے اندر ہی متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت کے فرانسیسی دفاعی کمپنی ڈسالٹ ایوی ایشن سے دو انجن والے 126 کثیر المقاصد لڑاکا طیارے رافیل کی خریداری کے سودے کو منسوخ کر دیاتھا اور براہ راست فرانس حکومت کے ساتھ معاہدہ کرکے پوری طرح تیار 36 رافیل طیارے خریدنے کا اعلان کیا تھا۔وزیر اعظم نریندر مودی کے فرانس کے دورے کے وقت آناً فاناً میں کئے گئے اس سودے کو لے کر حکومت نے سب سے بڑی دلیل یہ دی کہ اس نے فضائیہ کی فوری ضروریات کو دیکھتے ہوئے یہ سودا کیا ہے۔

وزارت دفاع نے اس سودے کے بعد اس طرح کے اشارے دیئے کہ اب فضائیہ کو دو انجن والے مزیدلڑاکا طیاروں کی ضرورت نہیں ہے اور باقی طیاروں کی تکمیل ایک انجن والے طیاروں سے کی جائے گی۔ اس کے لئے ایک دلیل یہ دی گئی کہ اس سے پیسے کی تو بچت ہو گی ہی اس کی ہینڈلنگ اور انتظام میں بھی خصوصیات رہے گی۔ ان طیاروں کو میک ان انڈیا منصوبہ کے تحت غیر ملکی کمپنی کے تعاون سے بنایا جانا تھا۔گزشتہ دو سال سے ایک انجن والے سو سے زائد طیاروں کی خریداری کو لے کر فائلوں میں مغز پاشی ہوتی رہی اور بات کسی انجام تک پہنچتی اس سے پہلے ہی رافیل کو لے کر ہوئے تنازعہ نے ایسے حالات بنا دیئے کہ حکومت کو ایک انجن کے طیارے کی خریداری کےعمل کا 146 گلا گھنوٹنا 145 پڑا۔

پہلے دو انجن اور اب ایک انجن کے طیاروں کی خریداری کے طریق کار پر روک لگانے کی حکومت کی جانب سے سرکاری اعلان تو نہیں کیا گیا، لیکن گزشتہ ایک ہفتے سے اعلی سطحی ذرائع کے حوالہ سے میڈیا میں مسلسل آ رہی ایسی رپورٹوں کو تردید بھی نہیں کیا گیاہے۔ ان رپورٹوں کے مطابق وزارت دفاع نے ایئر فورس سے کہا ہے کہ وہ ایک انجن یا دو انجن کے چکرمیں نہ پڑے اور اپنی ضرورت کے حساب سے لڑاکا طیاروں کی خریداری کی تجاویز نئے سرے سے بھیجے۔نئی تجاویزمیں ایک انجن اور دو انجن والے دونوں طیارے ہی شامل ہو سکتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے ان اقدام سے دو سال پہلے کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے اور وہ ایک بار پھر دوراہے پر کھڑی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت یہ کہے کہ اس نے سودے میں شفافیت لانے اور زیادہ سے زیادہ فروخت کنندگان کو اس میں شامل کرنے کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے لیکن اس سے لگتا ہے کہ وہ لڑکا طیاروں کی خریداری کو لے کر پس و پیش میں پھنس گئی ہے۔

اپوزیشن نے فرانس حکومت کے ساتھ کئے گئے 36 رافیل طیاروں کے سودے کو لے کر کئی سوال کرتے ہوئے حکومت پر گھوٹالے کا الزام لگایا ہے اور اس معاملہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس کا کہنا ہے کہ مودی حکومت رافیل طیاروں کی خریداری یو پی اے حکومت کی طرف سے مقرر قیمت سے بہت زیادہ قیمت پر کر رہی ہے۔ فرانس کے ساتھ رازداری کے معاہدہ کے نام پر حکومت اس معاہدے کی باریكياں ظاہر نہیں کر رہی ہے لیکن بار بار اس بات کا دم بھر رہی ہے کہ اس نے جو سودا کیا ہے وہ یو پی اے کی طرف کئے گئے سودے سے سستا اور کہیں بہتر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سارے معاملہ میں سال 2032 تک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کے منظور اسکواڈرن کی تعداد 42 کے ہدف کو حاصل کرنے کا امکان انتہائی کم دکھائی دیتاہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا